نوائے وقت’ ملک کا معیاری اور مؤقر اخبار ہے جس نے صحافت کی آبیاری کی اور مشکل حالات میں بھی سچ کا راستہ نہیں چھوڑا۔’نوائے وقت‘سے مجید نظامی کو الگ نہیں کیا جا سکتا کہ اْنکے دم سے ہی یہ پودا پروان چڑھا جس نے بعد ازاں بلندیوں کا چھوا اور صحافت کی نئی جہتیں متعارف کرائیں۔ پاکستان کیلئے ‘نوائے وقت’ کی خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔
صحافتی اداروں میں ‘نوائے وقت’ کی خدمات کا معترف آج سارا جہاں ہے۔ اخبار نے ہمیشہ اپنے اداریوں، مضامین، کالموں اور ایڈیشنز میں سنجیدگی کو ملحوظ خاطر رکھا۔ شوبز کو ضرور پیش کیا لیکن پاکیزگی اور متانت کے ساتھ، سنسنی نہیں پھیلائی، کبھی اسکینڈلز کی صحافت نہیں کی۔ جو دیکھا، وہی لکھا۔’نوائے وقت‘نے ثابت کیا، وڑن ایک اور نیک ہو تو حالات کے نشیب و فراز اثر انداز نہیں ہو سکتے۔ کلمۂ حق کہنے کی بات ہو تو ‘نوائے وقت’ نے کلمۂ حق ہر جابر حکمران کے سامنے کہا، سچ کیلئے کھڑا اور ڈٹا رہا، کڑے سے کڑے امتحان سے سرخرو ہو کر نکلا۔
مجید نظامی صحافت کی دنیا کا ایک بڑا نام ہیں۔ 3 اپریل 1928ء کو پنجاب کی ایک چھوٹی سی تحصیل سانگلہ ہل میں پیدا ہوئے۔ اْنکی کوئی بہن نہیں تھی۔ لیکن بڑے بھائی ضرور تھے حمید نظامی۔ تقسیم ہند سے قبل حمید نظامی نے ‘نوائے وقت’ کی بنیاد رکھی جبکہ آزادی کی تحریک کے دوران کلیدی کردار ادا کیا۔ سانگلہ ہل میں ابتدائی تعلیم کے بعد مجید نظامی لاہور آ گئے اور اسلامیہ کالج ریلوے روڈ میں داخلہ لے لیا۔ اس دوران تحریک پاکستان کے بھی سرگرم کارکن رہے۔ 1946ء کے تاریخ ساز انتخابات میں مسلم لیگی امیدواروں کی کامیابی کیلئے انتخابی مہم میں بھی حصہ لیا اور پیش پیش رہے۔ تحریک پاکستان میں نظامی صاحب کی خدمات کے اعتراف میں پاکستان کے پہلے وزیراعظم نواب زادہ لیاقت علی خاں نے کالج کے دوسرے طلبہ کے ساتھ انہیں بھی ‘مجاہدِ پاکستان’ کی سند اور تلوار عطا کی۔ 1954ء میں گورنمنٹ کالج لاہور سے ایم اے پولیٹیکل سائنس کرنے کے بعد ‘نوائے وقت’ کی نمائندگی کیلئے لندن چلے گئے۔ بڑے بھائی حمید نظامی کی رحلت کے بعد 25 فروری 1962ء کو ‘نوائے وقت’ کی باگ ڈور سنبھالی اور اخبار کو صحیح معنوں میں پاکستانی قوم کی آرزوؤں اور امنگوں کا ترجمان بنایا۔ آپ کی ساری زندگی جہدِ مسلسل سے عبارت تھی۔ جابر حکمران کے سامنے کلمہ حق کہنا ہمیشہ آپ کا طرۂ امتیاز رہا۔ اصولوں پر آپ نے کبھی کوئی سمجھوتہ نہیں کیا۔ نہ حق کے سامنے کسی مصلحت کو آڑے آنے دیا۔ آپکی جرأت و استقامت کے آج بھی سب لوگ معترف ہیں۔قومی مفادات کی پاسداری آپکی زندگی کا مشن رہا۔ حکومت پاکستان کی جانب سے آپ کی خدمات کے اعتراف میں آپ کو ستارہ امتیاز اور نشانِ امتیاز سے بھی نوازا گیا۔ پنجاب حکومت کی جانب سے 27 جولائی 2012ء کو مشہور شاہراہ لارنس روڈ کا نام تبدیل کر کے شاہراہ مجید نظامی رکھا گیا۔ اب یہ شاہراہ انھی کے نام سے جانی جاتی ہے۔ مجید نظامی کی 50 سالہ صحافت کا مرکزی نکتہ پاکستان، اسلامی تشخص اور بھارت دشمنی رہا۔مجید نظامی ایک دلیر اور دبنگ ایڈیٹر تھے جن کی رہنمائی، سرپرستی اور بہترین صحافتی اسلوب نے ‘نوائے وقت’ کو بلندیوں پر پہنچا دیا۔ کوئی اور ان کامیابیوں کا نہ چھو سکا۔ ‘نوائے وقت’ ایک مستحکم اور مستند ادارے کے طور پر جانا جاتا ہے۔ اس کے لاکھوں قارئین ہیں۔ کبھی جھوٹی خبر نہیں دی، نہ اخبار کی سرکولیشن بڑھانے کیلئے جھوٹے اسکینڈلز کا سہارا لیا۔
برصغیر میں صحافت خاص طور پر اردو صحافت کا آغاز ایک مشن کے طور پر ہوا۔ کچھ لوگ اس مشن سے ہٹتے چلے گئے اور کچھ نے نامساعد حالات کے باوجود اپنے مشن کو جاری رکھا۔ جو ادارے آج بھی اپنے اس تاریخی مشن پر قائم ہیں ان میں ‘نوائے وقت’ سرفہرست ہے۔ حامد میر کہتے ہیں، ’’جب مجھے پتا چلا کہ جناب مجید نظامی ہاسپٹل میں داخل ہیں تو اراد ہ باندھا کہ لاہور جا کر اْن کی خیریت دریافت کروں۔ لیکن ابھی اسلام آباد ہی میں تھا کہ 27 رمضان المبارک کو سحری کے وقت ان کے انتقال کی اطلاع ملی تو اْن کی خوش قسمتی پر رشک آیا۔ میں نے مجید نظامی کے ادارے میں کام نہیں کیا لیکن یہ میری خوش قسمتی ہے کہ انھوں نے ہمیشہ میرے ساتھ بزرگانہ شفقت کا مظاہرہ کیا۔ بیس سال پہلے جب میں نے کالم لکھنا شروع کیا تو مجید نظامی اْن شخصیات میں سے ایک تھے جنھوں نے میری بہت حوصلہ افزائی کی- 1996ء میں اسلام آباد کے ایک اخبار کا ایڈیٹر بنا تو مجید نظامی نے مجھے مبارکباد دی۔ جب بھی اسلام آباد تشریف لاتے تو اْن سے ضرور ملاقات ہوتی اور بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔ مجید نظامی صاحب کی سب سے بڑی خصوصیت یہ تھی کہ وہ مشکل وقت میں بھی دشمن کی پیٹھ میں خنجر نہیں مارتے تھے۔" 1962ء میں ‘ نوائے وقت’ کی ادارت سنبھالی تو کچھ عرصے بعد حکومت نے بدنام زمانہ پریس اینڈ پبلی کیشنز آرڈیننس کے ذریعے صحافت پر پابندیاں لگا دیں۔ ایک مرتبہ کراچی میں صدر جنرل ایوب خان نے مدیرانِ اخبار کے ساتھ میٹنگ میں کہا کہ آپ لوگ اپنے گریبان میں منہ ڈال کر دیکھیں، آپ کو شرم آئے گی۔ جواب میں مجید نظامی صاحب نے کہا، میں اپنے گریبان میں منہ ڈالتا ہوں تو میرا سر فخر سے بلند ہو جاتا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت بنی تو تب بھی مجید نظامی صاحب کا کلمۂ حق جاری رہا۔ حکومت نے ‘نوائے وقت’ کے اشتہار بند کر دیے لیکن نظامی صاحب کے موقف میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ مجید نظامی نوجوان صحافیوں کیلئے مشعل ِ راہ تھے۔ انھوں نے صحافت کا اچھے مشن کیلئے استعمال کیا اور کبھی اس راہ میں متزلزل نہ ہوئے۔ وہ منفرد نوعیت کے صحافی تھے جنھوں نے ذاتی اور دوستانہ تعلقات کو کبھی قومی مفادات کے تقاضوں پر حاوی نہیں ہونے دیا بلکہ قومی مفادات کو ہمیشہ مقدم رکھا۔ مجید نظامی جیسے قابل فخر لوگ اور صحافی صدیوں میں قوموں کو نصیب ہوتے ہیں۔
مجید نظامی نے اپنی صحافت کے تمام قیمتی سال صحافت برائے خدمت کے تحت وقف کر دیے اور ذمہ دارانہ صحافت کی۔ دورانِ فرائض کبھی کسی دباؤ کو قبول نہ کیا۔ ارشاد نبویؐ کیمطابق ہمیشہ جابر حکمران کے سامنے کلمۂ حق کہنے کی روایت قائم رکھی۔ پاکستان کی جغرافیائی و نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کیلئے ہمیشہ سینہ سپر رہے۔ مجید نظامی نے 27 رمضان المبار ک کی ساعتوں میں طلوع فجر سے کچھ دیر پہلے داعی اجل کو لبیک کہا۔ بلاشبہ خوش نصیبوں کو ہی ایسی ساعتیں نصیب ہوتی ہیں۔ بحیثیت ایڈیٹر مجید نظامی نے ‘نوائے وقت’ کو نظریہ پاکستان کی ایک بہترین پالیسی دی جس پر ادارہ آج بھی کاربند ہے۔ اسی وجہ سے محب وطن اور سنجیدہ طبقہ میں ‘نوائے وقت’ ہمیشہ ہی سے مقبول ترین اخبار رہا ہے۔
مجید نظامی صحافت کو پیشہ نہیں ،مشن سمجھتے تھے۔ پوری زندگی انتہائی دیانتداری، خودداری، بہادری اور محنت شاقہ کے ساتھ صحافت کے مشن کو جاری رکھا۔ آپ شعبہ صحافت کے تمام اسرار و رموز سے بخوبی واقف تھے۔ ابتدا میں انھوں نے اخبار کے صفحات جوڑنے تک کا کام اپنے ہاتھوں سے انجام دیا جبکہ قومی رہنما کے طور پر بھی اْن کی بے شمار خدمات ہیں جنھیں کبھی بھلایا نہیں جاسکتا۔ ‘نوائے وقت’ ایک مشن کا نام ہے جو اپنے آغاز سے اب تک جاری و ساری ہے۔ ‘نوائے وقت’ کی قومی خدمات کے حوالے سے اتنے کار ہائے نمایاں ہیں کہ کئی جلدیں مرتب ہوسکتی ہیں۔ ضروری ہے کہ ہم اپنے محسنوں کو ہمیشہ یاد رکھیں اور انھیں خراج تحسین پیش کرتے رہیں۔
نوائے وقت’ اور فخر ِ صحافت مجید نظامی
Mar 05, 2025