اعتماد کا ووٹ لینے کا دلیرانہ فیصلہ

سینیٹ الیکشن کے بعد کی صورت حال پر وزیر اعظم عمران خان نے دلیرانہ طور پر اعتماد کا ووٹ لینے کا اعلان کیا ہے جو یقینی طور پر قابل ستائش ہے البتہ سینیٹ الیکشن کے نتائج پی ٹی آئی قیادت کے لیئے لمحہ فکریہ ہیں۔
سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی جیت اور اس سے قبل ڈسکہ انتخابات نے ایک چیز تو واضح کردی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے اپنا رول نیوٹرل رکھا ہوا ہے اور یہ پی ڈی ایم کی قیادت کے بیانئے کی نفی ہے اور قومی سیاست کے لئے انتہا ئی اہم ہے آنے والے دنوں میں اب پی ڈی ایم کھل کر اپنی سیاسی سرگرمیوں کا اظہار کرے گی اور اب پی ٹی آئی کو اپنی اکثریت ثا بت کرنا پڑے گی۔
اس مقصد کے لئے پی ٹی آئی اپنے اتحادیوں اور اراکین اسمبلی کیساتھ ملکر حکمت عملی طے کررہی ہے کہ سینیٹ الیکشن میں ہونے والے نقصان کا ازالہ کیسے کیا جائے .یوسف رضا گیلانی کی جیت سے یہ بھی واضح ہو گیا کہ عمران خان کا موقف درست تھا کہ سینیٹ الیکشن میں منڈی لگے گی اس لئے اوپن بیلٹ ہونا چاییئے تا کہ ہارس ٹریڈ نگ کا خاتمہ ہو لندن میں میاں نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کے درمیان ہونے والے میثاق جمہوریت میں انتہائی واضح طور پر یہ شق شامل کی گئی تھی کہ سینٹ الیکشن اوپن بیلٹ کے ذریعے ہونا چاہیے لیکن پی ڈی ایم کی دونوں بڑی اور اہم جماعتوں پی پی پی اور ن لیگ اپنے اس معاہدے کی عملی طور پر نفی کرتے ہوئے سیکرٹ بیلٹ کے لئے نہ صرف کمربستہ ہوگئیں بلکہ حکومت کے اس اقدام کو چیلنج بھی کر دیا یہ وہ سیاست کے تجربہ کار اور زیرک کھلاڑی ہیں جن کو بخوبی معلوم تھا کہ اوپن بیلٹ سے من پسند نتائج حاصل نہیں کیے جاسکتے .
یوسف رضا گیلانی کی جیت اور حفیظ شیخ کی ہار سے اس نظام کی قلعی کھل گئی کہ پی ڈی ایم کیوں اوپن بیلٹ کی مخالف تھی ایوان بالا کے تقدس کو اگر بحال کرنا چاہتے ہیں تو تمام سیاسی جماعتوں کو اس نظام کے خاتمے کے لئے اقدامات کرنا ہو ں گے تاکہ آئندہ کے لئے ہارس ٹریڈنگ کا خاتمہ ہو .دوسری جانب سابق صدر آصف زرادری نے اپنے امیدوار یوسف رضا گیلانی کو میدان میں اتارتے ہی اعلان کیا تھا کہ وہ سر پرائز دیں گے تو واقعی وہ سرپرائز دینے میں کامیاب ہوئے ہیں اور اب تو کہا جارہا ہے کہ آصف علی زراری اپنا اگلا ٹارگٹ ان ہا ئوس چینج بھی اچیو کر سکیں گے؟
سینیٹ الیکشن کے بعد پی ٹی آئی کو اپنے اراکین اسمبلی اور اتحا دیوں کی پھر سے ضرورت پڑ گئی ہے اور اگر وزیر اعطم اعتماد کا ووٹ حا صل کرنے میں ناکام ہوئے تو کیا ہوگا ؟ اور اگر اپوزیشن اکثریت پر غالب آگئی تو پھر وہ اپنا وزیر اعظم لائیں گے .اور وہ وزیر اعظم کون ہو سکتا ہے اپوزیشن کیا اس بار بھی سر پرا ئز دینے میں کا میاب ہو سکے گی .سیاسی صورت حال کے مطابق تو اب یہ امر قریب ہی لگتا ہے کہ وزیر اعظم اکثریت کھو چکے ہیں.پی ڈی ایم کے ذرا ئع کا کہنا ہے کہ آصف زرداری مولانا فضل الرحمان اور میاں نواز شریف کے رابطوں نے یوسف رضا گیلانی کوجتوادیا ہے اور اب نیا وزیر اعظم بھی پیپلز پارٹی سے ہی ہوگا اور وہ قمرا لزمان کا ئرہ یا راجہ پرویز اشرف ہو سکتے ہیں جبکہ پی ڈی ایم مولانا فضل الرحمان کو بھی وزیر اعظم کا امیدوار بنا کر سب کو سرپرا ئز دے سکتی ہے۔
دوسری جانب عمران خان کے حوالے سے گزشتہ رات شاہ محمود قریشی کی جانب سے دئیے گئے بیان کہ وزیراعظم اعتماد کا ووٹ لیں گے پر جلدی دکھائی گئی مگر اگلے روز قومی اسمبلی کا اجلاس موخر کرکے دانائی کا ثبوت دیا گیا تاکہ نہ صرف عمران خان بلکہ حکومتی اتحادیوں سے مشاورت اور ناراض اراکین سے صلح کا وقت مل سکے انتہائی غور و فکر کے بعد اس یقین کی صورت میں کہ سادہ اکثریت حاصل کی جاسکتی ہے پر اسمبلی اجلاس بلوا کر اعتماد کا ووٹ حاصل کرکے پی ڈی ایم کے عزائم کو ناکام بنایا جائے شنید ہے کہ عمران خان نے اپنے قریبی رفقا سے اسمبلی تحلیل کرنے اور ائندہ عام انتخابات کے انعقاد پر بھی مشاورت کی ہے جس پر قریبی رفقا نے انھیں اس انتہائی اقدام کرنے سے روکا ہے۔
یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ سندھ میں جی ڈی اے کے پیر پگاڑا کے بھائی ہار گئے ہیں جہاں سے سیف اللہ ابڑو جیت گئے ہیں پگاڑا کے بھائی کو پی ٹی آئی نے ووٹ نہیں دئیے جس پر جی ڈی اے ناراض ہے ویسے بھی اعتماد کے ووٹ سے زیادہ اہم چیرمین سینٹ کا انتخاب ہے کیونکہ حکومتی اور اپوزیشن جماعتوں میں تین ووٹوں کا فرق ہے گیلانی اس بات پر سینٹ الیکشن میں حصہ لینے پر امادہ ہوئے تھے کہ انھیں چیرمین سینٹ بنوایا جائے گا۔ پی ڈی ایم اب اسکی تیاری کر رہی ہے جس پر بلاول بھٹو مریم نواز سے ملکر حکمت عملی تیار کریں گے۔ اس نازک حکومتی و سیاسی صورتحال میں وزیراعظم عمران خان کو نہائیت سوچ سمجھ سے بردبانہ فیصلے لینے ہونگے۔
٭…٭…٭