کہنے کو تو ’’عورت راج‘‘ آرہا ہے یعنی خواتین کے عالمی دن کے موقع پر پاکستان کے مختلف شہروں میں عورتیں اپنے حقوق کے مطالبات کے لیے ریلیاں نکالیں گی۔ پھر عورت مارچ کو لے کر ٹاک شوز اور سوشل میڈیا پر گھمسان کا رن پڑے گا۔ معاشرے کے شیرازہ کو بکھیرنے کی غرض سے شرپسند عناصر متنازعہ پوسٹرز چند خواتین کے ہاتھوں میں تھما دیں گے۔پھر عورت مارچ میں پلے کارڈز پر عوام اپنی عقلی استطاعت کے مطابق اظہار خیال کریں گے۔عجیب و غریب تبصروں کا لا متناہی سلسلہ دوبارہ شروع ہوگا۔ نتیجتاً جنسی ہراسانی، گھریلو تشدد، کیرئیر بنانے میں مسائل یہ سب بنیادی و حقیقی مسئلے ہیں جن سے توجہ ہٹ جائے ہیں۔ ان حالات میں با شعور طبقہ کے ذہنوں میں یہ سوال ابھرتا ہے کہ کیا ریپ اور غیرت کے نام پر قتل کی روک تھام، خواتین کا اغوا،حاملہ خواتین سے کام کی زیادتی،خواتین کو ڈرا دھمکا کر اجرت میں کمی، عوامی مقامات پر خواتین پر قاتلانہ حملوں کی شرح میں کمی کے ساتھ ساتھ تیزاب سے متاثرہ خواتین کو کوئی قانونی مدد بھی مل سکے گی۔؟؟؟دنیا بھر میں خواتین کا عالمی دن اس طرح منایا جاتا ہے کہ سوسائٹی کو کمک بخشنے والی خواتین نے کیسے ترقی کی؟ کس طرح آزمائشوں کے باوجود سیسہ پلائی دیوار کی مانند پختہ حوصلوں کے ساتھ کامیابیوں کی منازل طے کرتے ہوئے اپنے ملک میں اپنا مقام پیدا کیا۔؟ ان اعزازات کے پیچھے کیا کہانی مضمر ہے؟ وغیرہ۔ مگر ہمارے ملک میں طویل لڑائی ہی رہ گئی ہے جو کہ قطعاً نتیجہ خیز نہیں۔ باہمی چپقلش میں خواتین کے بنیادی مطالبات دھندلا سے گئے ہیں۔ خواتین کا عالمی دن ضرور اور بالضرور منانا چاہیئے کیونکہ یہی وہ مخصوص دن ہے جس میں خواتین اپنے حقوق یقینی بنانے کے لیے نعرہ بلند کر سکتی ہیں۔ انتہائی اہم بات یہ ہے کہ 2018 سے اس دن کے حوالے سے جو قبیح تھیم اور کلچر پروان چڑھ رہا ہے اس میں ازسر نو نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ بہت سارے لوگوں کی رائے تو یہ ہے کہ عورت مارچ پر پابندی عائد کر دی جائے لیکن ہائی کورٹ کے احکام کے مطابق آئین و قانون کے مطابق کسی کو ریلی یا مارچ سے روکا نہیں جا سکتا۔
قارئین آپ سوچ رہے ہونگے کہ انتشار سے بچنے کے لیے کیا راستہ اختیار کیا جائے؟ میرے نزدیک اصل خرابی کی جڑ پلے کارڈز ہیں جو سراسر منافرت پھیلانے میں پیش پیش ہیں۔ ان کارڈز کو دیکھ کر یوں لگتا ہے کہ جیسے'' مردوں سے نفرت ''کا دن منایا جا رہا ہو۔ پلے کارڈز کی زبان ذومعنی ہونے کے باعث معاشرتی بے چینی کروٹ لے رہی ہے۔ پوسٹرز کے حوالے سے مختصراً بات یہ ہے کہ پوسٹرز،پلے کارڈز کی زبان شائستہ ہونی چاہیئے۔ ایسا نہ ہو کہ بات صرف اور صرف پوسٹرز کی ہوتی رہے اور حقیقی مدعا یعنی خواتین کے مسائل پر بات پیچھے رہ جائے۔ عورت مارچ کی پہلی تھیم تشدد کا خاتمہ ہونی چاہیے۔ عورت مارچ ریلی ایسی بامقصد ہو جن میں واضح ہو کہ ’’ہمارے مطالبات کیا ہیں؟‘‘سچ تو یہ ہے پاکستانی معاشرے میں انتہا پسندی بہت بڑھ گئی ہے۔ قانونی نظام میں بے شمار پیچیدگیاں پائی جاتی ہیں۔ ایسا رواج ترتیب پا چکا ہے جس کے سامنے اکثر و بیشتر قوانین بے بس ہیں۔ مرد جرم کرکے بھی آزاد ہیں اور متاثرہ خواتین بے قصور ہوتے ہوئے بھی قصوروار ! بے بس خواتین یہ کہہ سکتی ہیں کہ ’’ناحق ہم مجبوروں پر یہ تہمت ہے مختاری کی۔‘‘ جو خاتون اپنے حق کے لیے آواز اٹھاتی ہے اسے ہمیشہ کے لیے خاموش کروا دیا جاتا ہے۔بدقسمتی سے ایک معاشرتی المیہ یہ بھی ہے کہ خواتین کے لیے کیٹ واک کرنا سہل ہے لیکن عزت کی روٹی کمانا مشکل۔ 65 فیصد خواتین یہ شکایت کرتی نظر آتی ہیں کہ ورکنگ پلیس یا دفاتر میں مخصوص سوچ کے حامل افراد کو اگنور کرنے کی پاداش میں مرد ملازمین خواتین کے خلاف خاموش اتحاد کر لیتے ہیں پھر انہیں نیچا دکھانے کے لیے منفی ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں۔اگر پروپیگنڈہ کامیاب نہ ہو تو کردار کشی کرتے ہوئے بدچلنی کا لیبل چسپاں کر دیا جاتا ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا دفاتر میں موجود اینٹی ہراسمنٹ سیلز محض شو پیس ہیں۔اگر ملک میں ہراسانی کے خلاف قانون ہے تو عمل درآمد کیوں نہیں ہوتا؟خواتین کو انصاف کی فراہمی کے لیے ضروری ہے کہ خواتین کے خلاف جرائم اور دھوکہ دہی کے مقدمات کا ایک ہفتے میں فیصلہ کرکے انہیں نشان عبرت بنادیا جائے۔ خواتین کے عالمی دن کے حوالے سے پریشان کن بات یہ ہے کہ خواتین کے حقوق کی بات کرتے کرتے اب مردوں کے ساتھ گھریلو امور سے متعلق تنازعات کی صورت میں مناظرات کی قطار لگ گئی ہے۔ ذرا سوچیئے ! خواتین اگر گھرہستی سے جی چرائیں گی اور مرد حضرات ذریعہ معاش کی صعوبتوں کی ذمہ داری سے بے پرواہی برتیں گے تو معاشرہ کی بنیاد ہی ہل جائے گی۔بلاشبہ مردوعورت دونوں ہی تہذیب کے معمار ہیں تو ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کا فائدہ؟-
دنیا کے تمام معاملات بات چیت سے ہی حل ہوتے ہیں نہ کہ کیچڑ اچھالنے سے۔ خواتین سے التماس ہے کہ وہ جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے خواتین کے عالمی دن پر عزت و وقار کے ساتھ اپنے حقوق کے لیے کھڑی ہوں کیونکہ ہمارامقام اور وقار ہی قوم کا فخر ہے۔ایسے امور سے اجتناب کریں جو سمجھ سے بالاتر ہوں اور قوام عالم میں بے عزتی کا باعث ہوں۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38