وائٹ ہائوس کی سینئر مشیر ایوانکا نے افغان طالبان اور امریکا کے درمیان تاریخی امن معاہدے پر ردِعمل دیتے ہوئے ایک پیغام شیئر کیا جس میں ایوانکا کا کہنا تھا کہ افغانستان میں دیرپا امن کے قیام کی راہ میں یہ ایک تاریخ ساز موقع ہے۔ ایوانکا نے جلال الدین رومی کے قول کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ’’صحیح اور غلط کی حد سے پرے ہے ۔ جونہی امریکہ اور طالبان کے درمیان معاہدہ ہوا ۔ اشرف غنی نے طالبان کے قیدیوں کو رہا کرنے سے انکار کر کے معاہدے کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کی ہے۔ اللہ جس کو چاہے عزت دے اور جس کو چاہے ذلت دیکرمتراف افغان امن معاہدے میں پاکستان کے اہم کردار اور اہمیت سے ہندوستان کے تمام عزائم خاک میں ملتے نظر آ رہے ہیں۔ ہندوستان اور افغانستان کی کٹھ پتلی حکومتوں کے باہمی گٹھ جوڑ کی وجہ سے مغربی سرحد پر پاکستان نے دہشت گردی کی بھاری قیمت ادا کی۔ پہلے پاکستان نے امریکا کے فرنٹ لائن سٹیٹ کا کردار ادا کر کے سوویت یونین کو شکست سے دوچار کیا اور پاکستان کے معاشرتی سٹرکچر کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیا۔ کلاشنکوف کلچر اور منشیات کے دھندے نے پاکستان کے معاشرتی فیبرک کو برباد کرنے میں اہم کردار ادا کیا اور اس کے بعد 9/11 کے واقعہ کے بعد پاکستان میں دہشت گردی کی وجہ سے 60 ہزار سویلین اور 7 ہزار سیکورٹی اہلکاروں کو شہید ہونا پڑا۔ اور معیشت کو 103 ارب ڈالرز کا شدید نقصان اُٹھانا پڑا۔ آج افغان تنازعے کے بات چیت کے ذریعے حل نے پاکستان کا موقف درست ثابت کیا ہے۔ وگرنہ امریکا نے پاکستان کو طالبان کیخلاف اقدامات تیز کرنے کیلئے ہمیشہ ڈومور کی رٹ لگائے رکھی۔ ہندوستان کے ساتھ مل کر پاکستان کیخلاف معاشی اور فوجی پابندیاں عائد کیں۔ پاکستان کا نام FATF کی گرے لسٹ میں شامل کیا گیا۔ مگر آج امریکہ اور طالبان کے درمیان امن معاہدے کی وجہ سے پاکستان دنیا کی نظروں میں سرخرو ہو گیا ہے اور یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ چاہے امریکہ ہو ، سویت یونین ہو یا برطانیہ افغانوں کی مزاحمت ہر طاقت کے زور پر قابو نہیں پا سکتی ہیں۔ آج مجیدنظامی مرحوم کی پشین گوئی سچ ثابت ہو گئی ہے۔
’’افغان باقی کہسار باقی ، الحکم للہ الملک للہ ‘‘
جب بھی افغان جہاد کی بات ہو گی تو انشا اللہ نوائے وقت اور مجید نظامی کا نام تاریخ میں سنہری الفاظ سے لکھا جائیگا۔
جب 9/11 کے بعد امریکہ نے افغانستان کے خلاف فوجی کارروائی شروع کی تو تین ہفتوں کے بعد ہی یہ حقیقت واضح ہو گئی تھی کہ امریکہ اپنے منصوبے کے مطابق طالبان کے خلاف پیش قدمی نہیں کر رہا ہے بلکہ اس بے حد مہنگے اور گراں قیمت تصادم میں امریکہ ایک دلدل میں پھنستا چلا گیا۔ حالانکہ پاکستان کے پرویز مشرف بقول محترم مجید نظامی کے ’’رچرڈ آرمیٹج کی ایک فون کال پر سرنڈر کر گئے‘‘ جب مجید نظامی صاحب نے پرویز مشرف کے منہ پر یہ بات کہی تو وہ بہت سیخ پا ہوئے۔ پرویز مشرف نے امریکہ کو شمسی ائیر بیس اور ہر طرح کی لاجسٹک فراہم کی۔ جس کی وجہ سے پاکستانی طالبان نے پاکستان کی فوج کے ساتھ بھی جنگ شروع کر دی اور ہم امریکہ کی جنگ میں ایک فریق بن کر طالبان کے غیض و غضب کا شکار بنتے رہے۔ ہمارے پھول جیسے 170 بچے آرمی پبلک سکول میں شہید کر دئیے گئے اور اسکی واضح ذمہ داری افغانستان میں موجود اسلام کے نام پر دہشت گردی کرنے والوں نے قبول کی۔ اس افغان امن معاہدے میں طالبان نے یہ قبول کیا ہے کہ افغان سرزمین امریکا اور اُسکے اتحادیوں کے خلاف استعمال نہیں ہو گی لہٰذا اب یہ امید واضح ہو گئی ہے کہ افغانستان سے پاکستان کیخلاف دہشت گردی کی سرپرستی میں کمی آ جائیگی۔ وہاں پر دہشت گردوں کے ٹھکانے طالبان کو خود ختم کرنے ہونگے اور را کے ایجنٹوں کو پاکستان کیخلاف تخریب کاریوں سے بھی طالبان ہی کو روکنا ہو گا۔ امریکہ نے افغانستان کے ساتھ لڑائی میں ایک ہزار ارب ڈالرز سے زیادہ جھونک دئیے۔ افغانستان کے پہاڑوں پر لاکھوں پائونڈ بم، جن میں انسان کش کلسٹر بم بھی شامل ہیں گرائے گئے۔ یہ وہ جنگ تھی جہاں دونوں فریقوں میں برابر کا مقابلہ نہیں تھا۔ کمزور فریق کی کامیابی صرف اس حقیقت سے ظاہر ہوتی ہے کہ وہ میدان جنگ میں ثابت قدمی سے قائم رہا اور دشمن کیخلاف ڈٹا رہا اور وہ شکست کے بغیر جیت گیا۔ اس امن معاہدے میں زلمے خلیل زاد کا کردار قابل تعریف ہے۔ وہ افغان نژاد امریکی ہیں اور وہ صدر اوبامہ کے وقت سے افغانستان امن لانے کیلئے کوشاں ہیں۔ صدر ٹرمپ بھی امریکی عوام کو امن معاہدے سے باور کرانا چاہتے ہیں کہ وہ امریکا کو بلامقصد جنگجوں میں الجھانے کے قائل نہیں ہیں۔ عراق ، شام اور افغانستان میں امریکی فوجوں کی واپسی کے بعد کاش صدر ٹرمپ ایران کے ساتھ بھی محاذ آرائی ختم کرنے کی طرف راغب ہو جائیں اور اوبامہ کے وقت کا ایران اور پانچ دوسرے ممالک کے ساتھ معاہدے کو بحال کر دیں تو وہ یقیناً دنیا میں ایک امن پسند لیڈر کے طور پر یاد رکھے جا سکتے ہیں۔ وہ 2020 ء میں ہونے والا امریکی الیکشن جیت سکتے ہیں اور اپنی دلی خواہش کے مطابق نوبل پرائز کے بھی حقدار بن سکتے ہیں۔
19 سالہ اس جنگ میں افغانستان نے جانی اور امریکہ نے مالی قربانی دی۔ فروری 2019ء کی اقوام متحدہ کی رپورٹ کیمطابق اِس جنگ میں 32 ہزار شہریوں نے جانوں کے نذرانے پیش کئے۔ 42 ہزار جنگجوئوں کی ہلاکت ہوئی۔ امریکہ اور نیٹو کے 3500 ہزار فوجی ہلاک ہوئے افغانستان میں امریکہ کا 900 ارب ڈالرز کا نقصان ہوا۔ 3500 ہلاک ہونیوالے فوجیوں میں 2300 امریکی فوجی ہلاک ہوئے۔ طالبان کے امیر مولانا ہیبت اللہ نے اپنے تمام مخالفین کیلئے عام معافی کا اعلان کیا ہے اور اپنے حامیوں کو عجزو انکساری اختیار کرنے کو کہا ہے مگر اب طالبان اشرف غنی کے قیدی رہا نہ کرنے کے اعلان سے یہ سوچ رہے ہیں کہ وہ افغان فورسز پر حملے جاری رکھیں۔ اشرف غنی جو ہندوستان کی زبان بولتا ہے اور امریکہ نے اُس کو اپنی کٹھ پتلی حکومت کا سربراہ بنایا ہوا ہے۔ اُس کو ہر حال میں افغانستان میں امن کیلئے امریکی ڈکٹیشن پر عمل کرنا ہو گا۔ وگرنہ جب بھی امریکی فوجیں افغانستان سے نکل جائیں گی ، افغان طالبان اپنی فوجی طاقت کے زور پر پہلے کی طرح دوبارہ افغانستان پر قابض ہو سکتے ہیں لہٰذا افغانستان میں مستقل امن اور اقتدار کے حصول کیلئے کسی سیاسی میکانزم پر افغان حکومت ، طالبان اور دوسرے متعلقہ فریقین کا متفق ہونا بے حد ضروری ہے وگرنہ افغانستان سے غیر ملکی فوجوں کاانخلا رک بھی سکتا ہے اگر معاہدے کی شقوں پر طالبان نے عمل کیا تو امریکہ 14 ماہ کے اندر پانچ فوجی اڈوں سے 8500 ہزار کے قریب فوج نکال لے گا۔ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے کہا ہے کہ اگر طالبان امن معاہدے کی پاسداری کریں گے تو عالمی برادری کا ردعمل مثبت ہو گا۔ افغانوں کی فتح اس وقت ہو گی جب وہ امن اور خوشی سے رہنا سیکھ لیں گے۔ مائیک پومپیو نے مذاکرات کامیاب بنانے پر پاکستان کا خاص شکریہ ادا کیا۔ افغانستان کے کئی شہروں میں شہریوں نے جشن منایا۔ پاکستان نے چالیس برس پہلے 30 لاکھ سے زائد افغانیوں کو پناہ دے کر اخوت اور بھائی چارے کے اسلامی جذبے کو زندہ رکھا حالانکہ ان افغان پناہ گزینوں کی وجہ سے پاکستان میں دہشتگردی کی بڑی لہریں ابھریںاور دفاعی مسائل پیدا ہوئے۔ پاکستان میں سیاحت تباہ ہوئی۔ سمگلنگ اور منشیات کے پھیلائو میں اضافہ ہوا۔ بہرحال پاکستان چالیس سال تک ثابت قدم رہا اور افغانیوں کو اپنا بھائی سمجھ کر اُنکے ساتھ دامے درمے سخنے تعاون کرتا رہا اور اب بھی پاکستان افغانستان کی تعمیرنو میں اپنا بھرپور کردار ادا کرنے کیلئے تیار ہے۔
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024