بھارت کی جے پورجیل میں شہید کیے جانے والے پاکستانی قیدی شاکراللہ کے جسم سے ان کا دل اور دماغ بھی نکال لیا گیا، یہ انکشاف شہید پاکستانی قیدی کی پوسٹ مارٹم رپورٹ میں ہوا۔
ابتدائی میڈیکل رپورٹ کے مطابق شہید کے سر میں گہری چوٹ اُن کی موت کی وجہ بنی، شاکر اللہ کا بھارت میں بھی ایک پوسٹ مارٹم ہو چکا تھا۔
رپورٹ کے مطابق سر پر لگنے والی چوٹ اتنی شدید تھی کہ اس کا اثر کھوپڑی کے نیچے تک ہوا، اُن کے جسم کے مختلف حصوں کے نمونے فرانزک لیب لاہور بھجوا دیے گئے۔
پلواما واقعے کے بعد بھارتی انتہاپسندوں کے تشدد سے جیل میں شہید ہونے والے شاکراللہ کا پوسٹ مارٹم گورنمنٹ علامہ اقبال ٹیچنگ اسپتال میں کیا گیا۔
ابتدائی میڈیکل رپورٹ میں شاکر اللہ پر تشدد ثابت ہوگیا۔ سر میں گہری چوٹ موت کی وجہ بنی، سر پر چوٹ اتنی شدید تھی کہ کھوپڑی کے نیچے تک اثر ہوا۔
رپورٹ کے مطابق شہید شاکراللہ کا ایک پوسٹ مارٹم پہلے بھی ہوچکا تھا، ان کے جسم سے دماغ اور دل غائب تھے۔ اس حوالے سے ڈپٹی کمشنر کی ہدایت پر 6 رکنی میڈیکل بورڈ بنایا گیا ہے۔
پاکستانی قیدی شاکر اللہ کی بھارتی جیل میں بہیمانہ تشدد سے قتل کی سینیٹ میں شدید الفاظ میں مذمت کی گئی۔
وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری نے کہا کہ ہم جائزہ لے رہے ہیں کہ شاکر اللہ کیس پر کونسا کنونشن لاگو ہوتا ہے اور اس کیس کو اُٹھانے کا کونسا بہترین فورم ہے۔
یاد رہے کہ پلوامہ حملے میں 45 سے زائد بھارتی فوجیوں کی ہلاکت کے بعد بھارت میں ہر سطح پر پاکستان کے خلاف نفرت انگیز اور شدت پسندانہ رد عمل اختیار کیا گیا یہاں تک کہ بھارتی جیل میں موجود انتہا پسند بھارتی قیدیوں نے شاکر اللہ پر پتھروں سے حملہ کر کے اسے قتل کردیا تھا۔
2 مارچ کو شاکر اللہ کی میت واہگہ بارڈر پر پاکستانی حکام کے حوالے کی گئی، میت وصول کرنے کے لیے شاکراللہ کے فیملی ارکان بھی موجود تھے جس کے بعد 3 مارچ کو انہیں آبائی گاؤں جسر والا میں سپرد خاک کردیا گیا۔
پاک بھارت حالیہ کشیدگی کا پس منظر
14 فروری 2019 کو مقبوضہ کشمیر کے ضلع پلوامہ میں بھارتی فوجی قافلے پر خود کش حملہ ہوا تھا جس میں 45 سے زائد اہلکار ہلاک ہوئے تھے۔ اس کے بعد بھارت نے بغیر کسی ثبوت کے حملہ کا ذمہ دار پاکستان کو ٹھہرانا شروع کردیا تھا۔
اس کے بعد 26 فروری کو شب 3 بجے سے ساڑھے تین بجے کے قریب تین مقامات سے پاکستانی حدود کی خلاف ورزی کی کوشش کی جن میں سے دو مقامات سیالکوٹ، بہاولپور پر پاک فضائیہ نے ان کی دراندازی کی کوشش ناکام بنادی تاہم آزاد کشمیر کی طرف سے بھارتی طیارے اندر کی طرف آئے جنہیں پاک فضائیہ کے طیاروں نے روکا جس پر بھارتی طیارے اپنے 'پے لوڈ' گرا کر واپس بھاگ گئے۔
پاکستان نے اس واقعے کی شدید مذمت کی اور بھارت کو واضح پیغام دیا کہ اس اشتعال انگیزی کا پاکستان اپنی مرضی کے وقت اور مقام پر جواب دے گا، اب بھارت پاکستان کے سرپرائز کا انتظار کرے۔
بعد ازاں 27 فروری کی صبح پاک فضائیہ کے طیاروں نے لائن آف کنٹرول پر مقبوضہ کشمیر میں 6 ٹارگٹ کو انگیج کیا، فضائیہ نے اپنی حدود میں رہ کر ہدف مقرر کیے، پائلٹس نے ٹارگٹ کو لاک کیا لیکن ٹارگٹ پر نہیں بلکہ محفوظ فاصلے اور کھلی جگہ پر اسٹرائیک کی جس کا مقصد یہ بتانا تھا کہ پاکستان کے پاس جوابی صلاحیت موجود ہے لیکن پاکستان کو ایسا کام نہیں کرنا چاہتا جو اسے غیر ذمہ دار ثابت کرے۔
جب پاک فضائیہ نے ہدف لے لیے تو اس کے بعد بھارتی فضائیہ کے 2 جہاز ایک بار پھر ایل او سی کی خلاف ورزی کرکے پاکستان کی طرف آئے لیکن اس بار پاک فضائیہ تیار تھی جس نے دونوں بھارتی طیاروں کو مار گرایا، ایک جہاز آزاد کشمیر جبکہ دوسرا مقبوضہ کشمیر کی حدود میں گرا۔
پاکستان حدود میں گرنے والے طیارے کے پائلٹ کو پاکستان نے حراست میں لیا جس کا نام ونگ کمانڈر ابھی نندن تھا جسے بعد ازاں پروقار طریقے سے واہگہ بارڈر کے ذریعے بھارتی حکام کے حوالے کر دیا گیا۔