نصاب تعلیم یکساں بنانے کے لئے وفاق کو اختیار دیں: مقررین کانفرنس
لاہور (خصوصی رپورٹر) نظریۂ پاکستان ٹرسٹ کے زیر اہتمام ایوان کارکنان تحریک پاکستان، لاہورمیں ہونیوالی دسویں سالانہ سہ روزہ نظریۂ پاکستان کانفرنس کے دوسرے دن پانچویںنشست میں مختلف موضوعات پر گروہی مباحثے ہوئے جن میں شرکاء نے بھرپورحصہ لیااور متفقہ طور پر اپنی سفارشات مرتب کیں۔ ان گروہی مباحثوں کے چیف کوآرڈی نیٹروائس چیئرمین نظریۂ پاکستان ٹرسٹ پروفیسر ڈاکٹر رفیق احمد تھے جبکہ معاون کے فرائض پروفیسر ڈاکٹر پروین خان نے ادا کیے۔پروفیسر ڈاکٹر حمید رضا صدیقی کی زیر صدارت ہونیوالے مباحثیکے شرکاء نے ’یکساں نصاب اور یکساں نظام تعلیم کیسے ممکن ہے؟‘‘کے موضوع پرگروہی مباحثہ میںحصہ لیا۔ اس گروپ کے کوآرڈی نیٹرملک لیاقت علی تبسم تھے۔اس گروپ نے متفقہ طور پریہ سفارشات مرتب کیں کہ نصاب تعلیم کو یکساں بنانے کیلئے وفاق کو آئینی اختیار دیا جائے کیونکہ اگر صوبوں کے پاس نصاب بنانے کا اختیار رہے گا تو یکساں نصاب رائج نہیں ہو سکتا۔نصاب تعلیم ہمارے معاشرے کی تہذیب و تمدن‘ ماضی‘ حال اور مستقبل کو مدنظر رکھ کر مرتب کیا جائے۔ نصاب تعلیم پر مسلسل نظر ثانی کی جائے اور وقت کی ضرورت کے مطابق اُس میں تبدیلیاں لائی جائیں۔ مذہبی مدارس کو قومی دھارے میں لایا جائے اور مطالعۂ پاکستان‘ اسلامیات اور انگریزی کے مضامین اُن کیلئے بھی لازمی قرار دیے جائیں۔محمد عمران ریاض کی زیر صدارت ’’سائبر کرائمز کی روک تھام‘ صورتِ حال اور امکانات‘‘کے موضوع پرگروہی مباحثہ کے کوآرڈی نیٹر معاذ جانباز تھے۔اس گروپ نے اپنی پیش کردہ سفارشات میں کہا کہسائبر کرائم کے شکار افراد وفاقی تحقیقاتی ادارے سے رابطہ کریں۔ اپنی معلومات/خفیہ کوڈز کسی کو مت دیں۔ اپنے پاس ورڈز کو عام فہم نہ رکھیں۔ آسانی سے ہیک ہونے والی معلومات شیئر نہ کریں۔ جن افراد کے زیر استعمال کمپیوٹر ہیںوہ انتہائی محتاط رویہ اپنائیں۔ ڈاکٹر محمد شفیق جالندھری کی زیر صدارت گروپ نے’سماجی نظام کی تشکیل میں سیاسی جماعتوں کا کردار‘‘ کے موضوع پرگروہی مباحثہ میںحصہ لیا۔ گروپ کے کوآرڈی نیٹرڈاکٹر محمد علی ندیم تھے۔ اس گروپ نے متفقہ طور پریہ سفارشات مرتب کیں کہ سیاسی جماعتوں میں نامعقولیت پر مبنی رویہ ختم ہونا چاہئے۔ سیاستدان کو ذمہ دار ہونا چاہئے۔ احتساب قومی سطح پراور یکساں ہونا چاہیے۔ اندھی جذباتیت کو ختم کرکے شعور پیدا کرنا چاہئے اور علمی و فکری لائحہ عمل اختیار کرنا چاہئے۔ چوہدری نعیم حسین چٹھہ کی زیر صدارت ہونیوالے ’دہشت گردی کے خاتمے کے لیے حکومت اور عوام کا باہمی تعاون‘‘کے موضوع پرگروہی مباحثہ کے کوآرڈی نیٹرپرمحمد فیصل ریاض چوہدری تھے۔ اس گروپ نے متفقہ طور پریہ سفارشات مرتب کیں کہ تعلیم کو عام کرکے جاہلیت اور دہشتگردی کا مقابلہ کیا جائے ۔انصاف کی بلاتفریق فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔VIPکلچر کا خاتمہ کیا جائے۔جسٹس(ر) ناصرہ جاوید اقبال کی زیر صدارت ہونیوالے گروپ کے شرکاء نے’’عالمی سطح پر پاکستان کے بارے میں منفی پراپیگنڈہ کا سدباب کیسے ممکن ہے؟‘‘ کے موضوع پرگروہی مباحثہ میںحصہ لیا۔ اس گروپ کی کوآرڈی نیٹر نائلہ عمر تھیں۔ گروپ نے اپنی متفقہ سفارشات میں کہا کہ تعلیم و تربیت اس پراپیگنڈہ کو ختم کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ پہلے اپنی اصلاح‘ پھر دوسروں کی جبکہ حکومتی سطح پر مل کر کوشش کرنا ضروری ہے۔ ڈاکٹر نوید اظہر کی زیر صدارت ’’نئی نسلوں کے لیے تعلیمی اداروں میں سماجی و معاشی برائیوں سے آگاہی ضروری ہے‘‘کے موضوع پر کوآرڈی نیٹرمسز شبانہ شاہد نے متفقہ طور پریہ سفارشات مرتب کیں کہ اداروں میں مختلف قسم کے پروگرام ترتیب دینے چاہئیںجن کے ذریعے بچوں کی تربیت کی جائے۔ مسلم ثقافت کو فروغ دیا جائے۔ انٹرنیٹ کے غلط استعمال کو روکا جائے۔ظفر بختاوری کی زیر صدارت شرکاء نے’دفاع پاکستان کی بنیاد-دفاعی ٹیکنالوجی میں خود انحصاری‘‘کے موضوع پرگروہی مباحثہ میںحصہ لیا۔ گروپ کے کوآرڈی نیٹرپروفیسر شرافت علی نے سفارشات میں کہا کہ پاکستان کو اپنا دفاع دنیا کی باقی ماندہ ریاستوں سے مضبوط بنانے کی ضرورت اس لیے ہے کہ ہمارے ملک کے قیام کے ساتھ ہی بھارت نے ہمارا وجود کمزور یا ختم کرنے کی کوشش شروع کردیں۔ 1948ء میں اگر ہمارے پاس مناسب مقدار میں اسلحہ موجود ہوتا تو بھارتی افواج کو سرینگر میں داخل ہونے سے پہلے روک کر کشمیر کا مسئلہ ہمیشہ کے لیے حل کیا جاسکتا تھا۔(CPEC) کی وجہ سے پاکستان کو بے شمار دشمن کمزور کرنے کے درپے ہیں۔ اس صورتحال کا مقابلہ ایک مضبوط دفاعی نظام کے بغیر ممکن نہیں۔ افتخار علی ملک کی زیر صدارت ’’نوجوانوں میں بامقصد تعلیم کا رجحان پید اکرنے اور سائنس و ٹیکنالوجی کی طرف توجہ دینے کی اہمیت‘‘ کے موضوع پر کوآرڈی نیٹر سلمان نے متفقہ طور پریہ سفارشات مرتب کیں کہ ہماری رسمی تعلیم میں غیر رسمی تعلیم اور ٹیکنالوجی کی تعلیم کو عام کیا جائے۔ نظریاتی تعلیم کے ساتھ ساتھ طلبہ کو فنی تعلیم دی جائے تاکہ وہ روزگار کما سکیں۔ اساتذہ طالب علموں میں گروپ سرگرمیوں کو فروغ دیں۔ زیادہ سے زیادہ فنی ادارے قائم کیے جائیں۔ ابصار عبدالعلی کی زیر صدارت ہونیوالے گروپ نمبر 9کے شرکاء نے’’دنیا کی تیسری بڑی زبان اُردو کا عملی نفاذ کیسے ممکن ہے؟‘‘کے موضوع پرگروہی مباحثہ میںحصہ لیا۔ اس گروپ کی کوآرڈی پروفیسر حلیمہ سعدیہ تھیں ۔ اس گروپ نے اپنی متفقہ سفارشات میں کہا کہ قومی سطح پر سرکاری اداروں میں اُردو زبان کا عملی نفاذ ہو جس کیلئے قانون سازی کی جائے۔محمد اکرم چوہدری کی زیر صدارت نے’’سی پیک کے ثمرات اور پاکستان کا مستقبل ‘‘ کے موضوع پر کوآرڈی نیٹرعابد حسین شاہ نے متفقہ طور پریہ سفارشات مرتب کیں کہ سی پیک کی کامیابی سے تکمیل کے لیے پوری قوم کو مثالی اتحاد کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ بیرونی قوتوں کے مذموم مقاصد پر کڑی نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ خطے میں بھارت کی بالادستی کا توڑ سی پیک کی تکمیل میں مضمر ہے ۔پروفیسر ڈاکٹر راشدہ قریشی کی زیر صدارت شرکاء نے ’’پاکستان کے مسائل کے حل میں اہل علم و دانش کا کردار‘‘ کے موضوع پر کوآرڈی نیٹر فرانسس لوئس نے اپنی متفقہ سفارشات میں کہا کہ گھر میں بہترین مذہبی تعلیم دی جائے۔ اسلامی قوانین کا نفاذ اور انہیں اہمیت دی جائے۔ پرائمری سطح پر ہی تربیت کا انتظام کیا جائے۔ نصاب میں مذہب کو شامل کیا جائے اور اسے جاری رکھا جائے۔ مدرسہ کے نظام کے معیار کو عصر حاضر کے مطابق ترتیب دیا جائے۔محمد آصف بھلی ایڈووکیٹ کی زیر صدارت شرکاء نے’’بھارتی مخاصمت کا مقابلہ کیسے کیا جائے؟‘‘کے موضوع پر کوآرڈی نیٹرپروفیسر محمد یوسف عرفان نے متفقہ طور پریہ سفارشات مرتب کیں کہ ہر گھر میں تلاوت قرآن پاک سے دن کا آغاز اور اسلامی تعلیمات کو فروغ دیا جائے تو ہمارا معاشرہ اسی راستے پر چل نکلے گا جو قیام پاکستان کا مقصد تھا اور یہ ہی اس کا موثر حل ہے۔ سب پاکستانی نظریاتی اور فکری طور پر پاکستانی بنیں۔ میڈیاوار میں بھارت ہم سے آگے ہے‘ اس کو موثر جواب دیں۔بیگم مہناز رفیع کی زیر صدارت شرکاء نے’’خواتین کا سیاسی اور سماجی معاملات میں حصہ لینا کیوں ضروری ہے؟‘‘کے موضوع پر کوآرڈی نیٹر پروفیسر زیب النساء نے اپنی متفقہ سفارشات میں کہا کہ اعلیٰ صفات سے مالا مال خواتین معاشرے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ عورتوں کو صلاحیتوں کے اظہار کا موقع ملنا چاہیے۔ غیر ترقی یافتہ علاقوں میں عورتوں کو مواقع نہیں ملتے ، انہیں آگے بڑھنے کے مواقع ملنے چاہئیں۔ولید اقبال ایڈووکیٹ کی زیر صدارت ’’ معاشرے میں اوپر سے نیچے تک پھیلی ہوئی کرپشن کی بنیادی وجوہ…سدباب کے تقاضے‘‘کے موضوع پر کوآرڈی نیٹر پروفیسرڈاکٹر رضا تیمور نے متفقہ طور پرسفارشات مرتب کیں کہ احتساب کے عمل کو فعال کرنے کی ضرورت ہے۔فرائض کی عدم ادائیگی بھی کرپشن ہے جو ہر سطح پر پائی جاتی ہے۔ افراد کو ایجوکیٹ کیا جائے کہ کرپشن معاشرہ کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر ہارون رشید تبسم کی زیر صدارت ’’ نئی نسلوں میں احساس تفاخر کیسے اُجاگر کیا جائے؟‘‘کے موضوع پر کوآرڈی نیٹرپروفیسر رضوان الحق نے اپنی متفقہ سفارشات میں کہا کہ بچوں کو اپنی تاریخ سے آگاہ کرنا چاہیے۔ پاکستان میں تعلیم حاصل کرکے دوسرے ممالک میں نہیں جانا چاہیے بلکہ پاکستان کی خدمت کرنی چاہیے۔ ذوالفقار احمد راحت کی زیر صدارت شرکاء نے’’ بھارتی دریائی دہشت گردی اور اس کا سدباب‘‘کے موضوع پرگروہی مباحثہ میںحصہ لیا۔ گروپ کے کوآرڈی نیٹر فدا حسین تھے۔ اس گروپ نے متفقہ طور پریہ سفارشات مرتب کیں کہ سندھ طاس معاہدہ کے مطابق پاکستان کو بھارت اور پاکستان کے پانی سے متعلقہ مسائل کو ورلڈ بنک اور دنیا کے ہرفورم پر اٹھانا چاہیے تاکہ ہمیں پانی سے درپیش مسائل سے چھٹکارا مل سکے اور بھارت کو سندھ طاس معاہدہ پر عمل درآمد کا پابند بنایا جائے۔ میاں سلمان فاروق کی زیر صدارت ’’ مضبوط معیشت: ناقابل تسخیر پاکستان کی ضمانت‘‘کے موضوع پر کوآرڈی نیٹرحامد ولید نے اپنی متفقہ سفارشات میں کہا کہ گھریلو صنعت کا قیام اور فری تعلیم ہونی چاہیے۔ سب سے پہلے زراعت اور انڈسٹری ‘دفاع اور تعلیم کو مضبوط کیا جائے اور دور جدید کی تعلیم کو بھی قدیم کے ساتھ لاگو کیا جائے تاکہ ہم پوری دنیاسے مقابلہ کر سکیں۔ زراعت کے ساتھ ساتھ صنعت کو فروغ دیا جائے ۔ چھوٹے پیمانے پر صنعت کاری کا آغاز کیا جائے۔