دھمکیوں سے خوفزدہ ہوئیں نہ ہم پر ڈر اور خوف حاوی ہونے دیا
عنبرین فاطمہ
’’عاصمہ جہانگیر ‘‘کی شخصیت اپنے چاہنے والوں میں جہاں ہمیشہ ایک عمدہ مثال رہے گی وہیں ان کے اہل خانہ کے لئے ان سے وابستہ لمحے کبھی فراموش نہ کئے جا سکیں گے اور بچوں کے لئے ماں کے ساتھ گزرا ہوا ایک ایک لمحہ تو واقعی کبھی بھلایا نہ جا سکے گا ۔عاصمہ کی دونوں بیٹیوں کا کہنا ہے کہ ہماری والدہ بہت ہی مضبوط اعصاب کی مالک تھیں ان کو کبھی روتے نہ دیکھا لیکن جب بے نظیر بھٹو کا قتل ہوا اس وقت وہ روئیں اور کافی دن تک اپنے کمرے میں بند رہیں ۔کہا کرتی تھیں اس ملک میں بے آسرا بچوں کی نمائندگی کرنے والا کوئی نہیں ان کی تو کوئی ضمانت تک نہیں دیتا ۔جب کبھی ہم نے اپنی والدہ سے کہنا کہ امی آپ کے خلاف کسی اینکر پرسن نے اپنے پروگرام میں فلاں بات کی ہے تو کہا کرتی تھیں کہ میں ان کو جواب کیوں دوں لہذا تم لوگ بھی نظر انداز کر دیا ۔ہماری ماں اپنے بچوں کو کبھی نہ بتاتی تھیں کہ ان کو جان سے مارنے کی دھمکیاں مل رہی ہیں ۔جوائنٹ فیملی سسٹم میں رہیں اور پورے خاندان کو جوڑ کر رکھنے میں پُل کا کردار ادا کیا ۔شادی کے بعد وکالت کی تعلیم حاصل کی اور پہلی گاڑی بائیس ہزار کی لی جس میں اے سی تو دور کی بات، جگہ جگہ بند ہوجاتی تھی ہم سب بہن بھائی دھکا لگا کر چلاتے ۔گزشتہ دنوں ہم نے عاصمہ جہانگیر (مرحومہ)کی بیٹیوں منیزے جہانگیر اور سُلیما جہانگیر سے نوائے وقت کے لئے انٹرویو کیا ۔اس میں ہونے والی باتیں کچھ یوں ہیں ۔سُلیما جہانگیر منیزے سے چھوٹی ہیں اور وکیل ہیں ۔لندن میں ایک لاء فرم میں کام کرتی رہیںہیں والدہ کی وفات کے بعد آج کل اُن کے تمام معاملات کو دیکھ رہی ہیں ۔انہوں نے ہم سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جس اتوار کو امی کا انتقال ہوا اس سے پچھلے ہفتے وہ لندن آئیں تھیں انہیں بے نظیر بھٹو پر آکسفورڈ یونیورسٹی میں لیکچر دینا تھا لیکچر کے بعد وہ بہت ہی خوش تھیں اُن کا کہنا تھا کہ جو بے نظیر کو جانتے ہیں ان کو ضرورت نہیں کہ وہ بی بی پر بات کرنے کے لئے تیاری کریں ۔منگل کے روز وہ مجھ سے مل کے ڈھیر ساری باتیں کرکے واپس پاکستان کے لئے روانہ ہوئیں ،میری بیٹی کی چونکہ سکول سے چھٹیاں تھیں اس لئے میں امریکہ چلی گئی ابھی پہنچی ہی تھی کہ میری بہن کا فون آیا کہ امی کا انتقال ہو گیا ہے بس میں فورا پاکستان آگئی ۔وہ آخری ملاقات میں مجھے باربار کہہ رہی تھیں کہ دستور سازی کا شعبہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے تم اس شعبے میں تحقیق اور مطالعے کے ذریعے نئے مواقع تلاش کرو ۔انہوں نے مجھ سے 62ون ایف والے کیس کوکو ڈسکس کیا ۔بس یہی کہا کرتی تھیں کہ قانون کو لوگوں کی بہبود کے لئے استعمال کرنا چاہیے ۔وہ بچوں اور خواتین کے قوانین سے مطمئن نہیں تھیں ان کا کہنا تھا کہ ان قوانین کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے ۔ورکنگ لیڈیز کو لیکر یہ ایک مجموعی تاثر ہے کہ گھریلو معاملات کو اچھی طرح نہیں دیکھ پاتیں ہماری والدہ کے بارے میں بھی بہت سارے لوگوں کا کہنا تھا کہ شاید یہ اپنی مصروفیت کی وجہ سے اپنے بچوں کو وقت نہیں دے پاتیں لیکن ہماری ماں جتنی کامیاب اپنے کیرئیر میںتھیں اس سے کہیں زیادہ کامیاب وہ بطور ماں ،بطور بیوی اور بہو تھیں ۔میری کوشش ہے کہ اپنی والدہ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ان کے مشن کو جاری رکھوں ۔منیزے جہانگیر جو کہ عاصمہ جہانگیر کی بڑی بیٹی ہیںان سے جب ہم نے بات کی تو ان کی آنکھیں دو تین بار نم ہوئیں ۔ان کا کہنا تھا کہ میری والدہ کی شادی چونکہ بہت ہی کم عمر میںہوئی تھی لہذا اپنی پڑھائی مکمل نہیں کر پائیں تھیں میری پیدائش کے بعد انہوں نے قانون کی تعلیم حاصل کرنا شروع کی۔ میں نے تو اپنی ماں کو اس سوسائٹی کی فرسودہ رسم و رواج ،تنگ نظری اور ظلم کے خلاف لڑتے دیکھا انہوں نے جس طرح ضیاء الحق کے زمانے میں ’’عورت کی آدھی گواہی‘‘ کو لیکر جلوس نکالا وہ آج بھی لوگوں کو یاد ہے ۔اسی چکر میں میری والدہ کو پولیس نے گرفتار بھی کیاگرفتاری کے بعد اُنہیں جیل میں رہنا پڑا ہمیں لوگوں نے کہا کہ آپ کی والدہ تو جیل میں ہیں ہم بہت پریشان ہوئے میں اس وقت بہت چھوٹی تھی امی جب آئیں تو میں نے کہا کہ امی آپ جیل میںرہ کر آئی ہیں لوگ باتیں کر رہے ہیں تو انہوں نے مجھے اور میری بہن کو بہلانے کیلئے کہا کہ جیل میںہم سب نے بہت مزہ کیا گانے گائے کیک کھائے لیکن حقیقت اس کے برعکس تھی ۔مال روڈ کے جلوس کی ایک یاد یہ بھی ہے میری والدہ ،حبیب جالب ،بشری اعتزاز ،مہاراج غلام حسین کتھک جو کہ مجھے ڈانس بھی سکھاتے تھے یہ سب اکٹھے تھے انہوں نے پلان بنا رکھا تھا کہ اگر پولیس آگئی تو ہم نے کہاں سے اور کیسے بھاگنا ہے لیکن پولیس نے ان کو چاروں طرف سے گھیر لیا ۔میں ، میری بہن اور ہماری ملازمہ سائیڈ پہ کھڑی گاڑی میں بیٹھے تھے میری گود میں میرا چند ماہ کا بھائی تھا ،ایک دم پولیس نے آنسو گیس پھینکنی شروع کر دی ہماری ملازمہ نے گاڑی کا شیشہ اوپر کرنے کی کوشش کی لیکن میری آنکھوں میں آنسو گیس پڑ گئی وہ پہلی بار تھا جب میں آنسو گیس کا شکار ہوئی ۔خیر میری امی کو کوٹ لکھپت جیل لیجایا گیا کہا جا رہا تھا انہیں ایک ایسی مثال بنایا جائیگا کہ دنیا دیکھے گی ،ان کا کورٹ مارشل کیا جائیگا ،وہ بین الاقوامی میڈیا جو افغان جنگ کی وجہ سے ضیاء الحق کے گُن گا رہا تھا وہی اس کے خلاف لکھنا شروع ہو گیا بلکہ ugly face of zia ul haqکے نام سے ایک آرٹیکل بھی چھپا ۔میری والدہ دو ہفتوں تک جیل میں رہیں مجھے یاد ہے کہ میں بڑی تھی میں اور میری بہن تیارہو کر کھانا لیکر جایا کرتے تھے اِس امید کیساتھ کہ امی باہر آکر ہمیں ملیں گی لیکن ہمیں ملنے نہیں دیا جاتا تھا اور ہم روتے واپس گھر آجاتے تھے ۔میری ماں کو میں نے ہمیشہ صبر کرتے دیکھا لوگوں کی اچھائیوں پر یقین کرتے دیکھا ۔وہ کہا کرتی تھیں کہ ریاست نے اس ملک کو کچھ نہیں دیا ہے یہاں کے لوگ بہت با ہمت ہیں زرا مشکل وقت آتا ہے تو ایک دوسرے کے لئے چھائوں بن جاتے ہیں ۔ہماری قوم ایک ہیرے کی طرح ہے بس اسے تراشنے کی ضرورت ہے ۔ان کی یہ بات بالکل سچ تھی میں نے امی کے انتقال کے بعد دو ہفتوں میں پاکستان کے لوگوں کی محبت دیکھی ،کہاں کہاں سے لوگ ہمارے گھر تعزیت کرنے آئے کیا بتائوں ۔مجھے ان کی صحت کو لیکر بہت ڈر لگا رہتا تھا ،نظر آرہا تھا کہ ان کی صحت تیزی سے گِر رہی ہے لیکن اپنے کام اور زندگی کے مقصد کو لیکر بہت ہی پُر عزم تھیں آخری وقت تک حق اور سچ کے لئے لڑتی رہیں ۔میںنے کبھی فون کر کے کہنا کہ امی اپنی صحت کا خیا ل رکھا کریں یا آپ کی طبیعت کیسی ہے تو کہا کرتی تھیں کہ میں سمجھی تمہارا کسی اہم کام کے لئے فون آیا ہے ۔یعنی ان کے لئے اپنی صحت اہم نہیں لگتی تھی لوگوں کی خدمت کرنا اہم لگتا تھا ۔آٹھ برس قبل ان کو سٹنٹ لگا یا گیاتھا ،چھاتی کا سرطان ہوا تو ریڈی ایشن لگوا کر سیدھا دفتر پہنچ جایا کرتی تھیں انہوں نے ہمیں مرتے دم تک ذرا برابر بھی تکلیف نہیں دی ۔بے نظیر کے زمانے میں امی نے ایک بچے کا کیس لڑاجس پر توہین مذہب کا الزام تھا اس کے نتیجے میں اس لڑکے کے چچا کو کورٹ کے احاطے میںقتل کر دیا گیا ،امی کو جان سے مارنے کی دھمکیاں ملیں ، اس کے بعد امی نے مجھے بورڈنگ سکول بھیج دیا،لندن جانے سے پہلے میرے ساتھ ساری تیاریاں کروائیں اس وقت میری عمر پندرہ برس تھی،امی میرے ساتھ لندن گئیں وہاں کمرہ سیٹ کروایا اور مجھے سمجھایاکہ اب دل لگا کر پڑھنا ہے ۔میرا سونے کا وقت نو بجے کا تھا پہلی رات میں بے چین تھی دس بجے سوئی تو امی نے مجھے کال کی اور کہا کہ رات نو کی بجائے دس بجے کیوں سوئی تھی ،میں نے امی سے کہا کہ آپ کو کیسے پتہ چلا امی نے کچھ نہ بتایا ۔ بہت برسوں کے بعد میں نے میری والدہ سے پوچھا کہ آپ کو کیسے پتہ چلتا تھا کہ میں رات دیر سے سوئی ہوں تو کہنے لگیں کہ تمہارے کمرے کے باہر ایک چھوٹی سی گلی تھی جہاں سے سب نظر آتا تھا میں وہاں کھڑی رہتی تھی اور دیکھتی رہتی کہ تم کب سو رہی ہواور ساتھ روتی رہتی کہ اپنی بیٹی کو اپنے دور کر دیا ہے ۔ان کو جب بھی جان سے مارنے کی دھمکیاں ملیں انہوں نے اپنے اس ڈر اور خوف کو اپنے بچوں پرحاوی نہ ہونے دیا بلکہ یہی کہا کہ ڈرو مت بہادری سے حالات کا مقابلہ کرو اور میری فکر نہ کیا کرو ۔میں جب باہر سے پڑھ کر آئی تو دیکھا کہ امی کے بارے میں جہاں بہت سارے لوگ اچھی بات کرتے تھے وہیںان کی حُب الوطنی پر بھی سوال اٹھائے جاتے تھے ،مجھے بہت حیرت ہوئی کہ دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہے اور ہمارے ملک میں آج بھی اس چیز پر بحث ہوتی ہے کہ کون کیا کر رہا ہے یا کتنا محب الوطن ہے ۔میں کبھی اپنے کیرئیر کو لیکر امی سے کچھ ڈسکس کرتی یا پوچھتی کہ بتائیے میںیہ کروں یا نہ کروں تو کہا کرتی تھیں کہ تم خود فیصلہ کرو ۔میری والدہ جوائینٹ فیملی سسٹم میں رہتی تھیں انہوں نے اپنی فیملی کو جوڑ کر رکھنے میںایک پل کا کردار ادا کیا میرے دادا نے آخری وقت پر بھی اپنی اولاد کی بجائے میری امی پر انحصار کیا ۔میری والدہ کو سوسائٹی نے وہ اعتماد نہیں دیا جو ایک ایسی عورت کو ملنا چاہیے یہاں عورت گھر اور باہر کو جتنا مرضی اچھی طرح چلا لے لیکن اس کی حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی ہے ۔سرکاری اعزاز کے ساتھ دفنانے کے سوال پر منیزے کا کہنا تھا کہ ہم نے سرکاری اعزاز کا مطالبہ نہیں کیا تھابلکہ ہمارے خیر خواہوں نے اس اعزاز کا مطالبہ کیا جو کہ ہمارے لئے فخر کی بات ہے ہم اس سرکار سے کیسے سرکاری اعزاز مانگ سکتے تھے جس کے خلاف ساری عمر ہماری ماں لڑتی رہیں،آمروں کیساتھ لڑتی رہیں ۔ماضی کے جھرکوں میں جھانکتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میری والدہ نے اپنے بچوں کی پرورش میںکسی قسم کی کمی نہیںآنے دی بچوں میں تو ان کی جان تھی ۔مجھے یاد ہے کہ ایک مرتبہ ہم سب انگلینڈ کے ایک چھوٹے سے گائوں میں گئے میرے بھائی کو آلو قیمہ اور پراٹھا کھانے کی عادت تھی اس نے شور مچا دیا کہ میں تو آلو قیمہ اور پراٹھا ہی کھائوں اب وہاں ایسا انتظام نہ تھا ایک انڈین کے پاس پوٹلی میں کچھ مصالحے دیکھے تو امی نے اس سے مصالحے لئے قیمہ کسی بھی طرح منگوا کر بھائی کو آلو قیمہ بنا کر دیا وہ جس طرح سے اپنے کام سے مخلص تھیں اسی طرح ان کی کوشش ہوتی تھی کہ میری فیملی کو بھی مجھ سے کوئی شکایت نہ ہو میرے بچوں کو میری کمی محسوس نہ ہو ۔ بھٹہ مزدور کون ہوتے ہیں مجھے نہیں پتہ تھا ،امی باہر سے آتیں تو ان کے ہاتھ اکثر گندے دیکھتی ایک بار پوچھا کہ آپ کے ہاتھ گندے کیوں ہوتے ہیں تو کہنے لگیں کہ میں بھٹہ پر گئی تھی وہاں تمہارے جیسے چھوٹے چھوٹے بچے کام کرتے ہیںان کی حوصلہ افزائی کرنے جاتی ہوں ان کے حقوق کے لئے لڑ رہی ہوں ،چاہتی ہوں کہ یہ بھی معاشرے میںسر اٹھا کر جئیں ۔میری والدہ نے عورتوں کے لئے تو کام کیا ہی تھا لیکن بچوں کے لئے بہت کام کیا ۔وہ بہت ہی رحم دل تھیں ایک مرتبہ کسی بے سہارا بچے کو گھر لے آئیں اس کو کپڑے جوتے لیکر دئیے وہ بچہ شرارتی تھا مجھے تو اچھا نہ لگا امی چاہتی تھی یہ بچہ یہیں رہے پڑھے لکھے لیکن وہ بچہ کپڑے جوتے سب چھوڑ کر چلا گیا ۔ایک سوال کے جواب میںان کا کہنا تھا کہ میرے والد نے میری والدہ کو بہت سپورٹ کیا اس سے بڑی کیا بات ہو گی کہ بیوی اور بچوں کو جان سے مارنے کی دھمکیاں مل رہی ہوں اور وہ بندہ حالات کا سامنا کر رہا ہو۔مجھے اور میری سہیلیوں کو امی سے ملنے کا بہت زیادہ شوق رہتا تھا آخری بار جب میںامی کیساتھ ملی تو انہوں نے مجھے کہا کہ اپنی سہیلیوں کو بلوائو میں نے کھانا بنایا ہے ہم نے ان کے ہاتھ کھانا کھایا۔امی نوجوانوں میں بیٹھ کر بہت اچھا محسوس کرتی تھیں ۔وہ ہر بات کا ایک نیا پہلو تلاش کر لیا کرتی تھیں ،ہر بحث کو صحیح سمت میں لیکر جاتی تھیں ۔کچھ عرصہ پہلے جب میں سری لنکا جا رہی تھی تو امی نے مجھے کہا کہ میرے پاس کچھ سری لنکن پیسے ہیں میں ڈھونڈتی ہوں کہاں پڑے ہیں ،فون کی سم بھی ڈھونڈ کر دیتی ہوں میں اپنے کمرے میں سونے کے لئے چلی گئی اور بھول گئی کہ امی نے مجھے ایسی کوئی بات کہی تھی لیکن امی آدھی رات کو میرے کمرے میںا ٓئیں اور کہنے لگیں یہ لو پیسے اور سم اس کو استعما ل کر لینا ۔یہ تھی ان کی مامتا ۔منیزے نے کہا کہ بے نظیر بھٹو میری والدہ کی قریبی دوست تھیں ہمارے نانا کے گھر آکر رہا کرتی تھیں اس دوران امی بتاتی ہیں کہ بے نظیر پڑھتی رہتی تھیں صنم اور شاہنواز کھیلتے رہتے تھے شاہنواز تو میری امی کو ’’آزما‘‘ کہا کرتے تھے ۔18اکتوبر کو جب بے نظیر پر حملہ ہوا تو اس سے پہلے میری امی نے مجھے کہا کہ میں نے بے نظیر کے حوالے سے خواب اچھی نہیں دیکھی جس وقت دھماکہ ہوا میں وہیں موجود تھی میںنے امی کو فون پہ کہا کہ امی ااپ پریشان تھیں یہاں ایسی کوئی بات نہیں ،اتنی ہی بات کہہ رہی تھی کہ دھماکہ ہوگیا ،میں بے نظیر بھٹو سے بعد میںملی ان کو بتایا کہ امی پریشان تھیں تو بی بی کہنے لگیں کہ اپنی والدہ کی بات کو غور سے سنا کرو ۔میری امی بے نظیر سے بہت متاثر تھیں جب ان کا قتل ہوا تو کئی روز تک اپنے کمرے میں بند رہیں ۔ہماری والدہ ہمارا فخر تھی امید ہے کہ ان کا چھوڑا ہوا کام رکے گا نہیں چلتا رہے گا عورتیں اپنے حقوق کے لئے لڑیں گی اور حالات کا مقابلہ بہادری سے کریں گی ۔