سب سے پہلے میاں نواز شریف نے لوگوں کو اداروں کے خلاف اکسایا۔ اداروں پر الزامات لگائے حالانکہ ان کی جماعت خود حکومت کا حصہ ہے۔ ان کی دیکھا دیکھی پھر ’’بیورو کریسی‘‘ نے ہڑتال کی۔ بانی پاکستان قائد اعظم نے سرکاری ملازمین سے خطاب کرتے ہوئے ہدایت کی تھی کہ وہ سیاسی یا گروہی وابستگی سے بلند ہوکر عوام کے ’’خادمین‘‘ کی حیثیت سے اپنے فرائض ایمانداری سے سرانجام دیں۔ اس طرح عوام کی نظروں میں ان کا مقام بلند ہوگا لیکن آج کے ملازمین ذرا اپنے ’’گریبان میں جھانکیں‘‘ کہ وہ خادم ہیں یا افسران۔ کراچی میں سول و فوجی افسران سے خطاب کرتے ہوئے قائداعظم نے فرمایا ’’میرا پختہ یقین ہے کہ ہماری کامیابی اور فلاح اسلام میں حضرت محمدﷺ جو عظیم قانون دان تھے کے مرتب کردہ ’’سنہری اصولوں‘‘ کو اپنانے میں ’’پنہاں‘‘ ہے۔ آئیے کہ ہم اسلام کے سنہری اصولوں پر مبنی جمہوریت کی بنیاد رکھیں‘‘25مارچ1948 کو حکومت کے افسران سے چٹاگانگ کو ان کی حیثیت یاد دلاتے ہوئے اپنے خطاب میں کہا ’’آپ کو ایک ملازم کی حیثیت سے اپنے فرائض سرانجام دینے ہیں، آپ کا سیاست اور سیاسی جماعتوں سے کوئی سروکار نہیں۔ یہ آپ کا کام نہیں ہے یہ سیاستدانوں کا ذمہ ہے کہ وہ کس طرح موجودہ اور مستقبل کے آئین میں رہتے ہوئے اپنے مقاصد کے حصول کی جنگ لڑتے ہیں۔ جس سیاسی جماعت کو اکثریت حاصل ہو گی وہی حکومت بنائے گی۔ آپ کی کسی سیاسی جماعت سے کوئی وابستگی نہیں ہونی چاہئے۔ آپ صرف قومی ملازم ہیں۔ حکومت کی خدمت ایک خادم کی حیثیت سے کرنی چاہئے۔ آپ کا تعلق حکمران طبقے سے نہیں بلکہ ملازمین کے طبقے سے ہے‘‘ حکومت ملازمین کو عوام کی خدمت کے لئے ’’بھرتی‘‘ کرتی ہے لیکن یہ سرکاری ملازم ’’حکمران‘‘ بن جاتے ہیں۔ قوم کے خون ’’پسینے‘‘ کی کمائی سے ناجائز مراعات حاصل کرنے، ناجائز طور پر عہدوں اور ’’مرتبوں‘‘ کے حصول کیلئے ذاتی خودی اور قومی حمیت کو قربان کر دیتے ہیں تو وہ قوموں کا ایک ایسا ’’ناسور‘‘ ہوتے ہیں جس کا اثر’’زائل‘‘ ہونے کیلئے کئی دہائیاں چاہئیں۔ بظاہر وہ اپنے آپ کو عظیم لوگوں کی صف میں شمار کرتے ہیں مگر درحقیقت وہ اپنے’’منافقانہ رویوں‘‘ کے باعث پستی کی اتھاہ گہرائیوں میں گر چکے ہوتے ہیں۔ قائداعظم نے اپنی جان اور محنت سے حاصل کی ہوئی دولت اپنی قوم پر قربان کر دی۔ انہوں نے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو بتا دیا تھا کہ پاکستان قائم ہوگا اور ضرور قائم ہو گا کیونکہ یہی اللہ کی مرضی ہے۔ پنجاب کی بیوروکریسی سے قبل بلوچستان وزارت خزانہ سے متعلقہ مشیران اور سول سرونٹس کی عجب کرپشن کی غضب ناک داستانیں بھی منظر عام پر آئی تھیں جہاں قانون نافذ کرنے والے اداروں نے مبینہ طور پر سیاسی شخصیتوں اور سول سرونٹس کے گھروں سے کروڑوں روپے کی نقدی بھی برآمد کی گئی تھی۔ قومی خزانے کو لوٹنے کی کچھ ایسی ہی عجب داستانیں وفاق، صوبہ پنجاب اور دیگر صوبوں میں بھی سامنے آ رہی ہیں جبکہ اقتدار کی غلام گردشوں میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین اور قانون سے ماورا پھیلتی ہوئی کرپشن نے عوام الناس، سول سوسائٹی اور قومی دانشور حلقوں میں بھی سوالات کی بھرمار کر دی ہے کہ قومی بددیانتی کے مارے ہوئے ہمارے کچھ سیاست دان اور سول سرونٹ کیا کر رہے ہیں، ریاستی نظام کس مرض کی ’’دوا‘‘ ہے چنانچہ آئین کے آرٹیکل 240/241 کے تحت سول سرونٹ ایکٹ اور سول سرونٹ کنڈکٹ رولز پر عملدرآمد سے گریز کیوں کیا رہا ہے؟ اگر مسلم لیگ (ن) قائداعظم کی وارث جماعت ہے تو گڈگورننس اور کرپشن فری مملکت کے قیام کیلئے بانیِ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کے ارشادات سے پہلو تہی کیوں کی جا رہی ہے؟ اِس دنیا میں اپنے ضمیر سے بڑھ کر اور کوئی انسان کا ’’محتسب‘‘ نہیں ہے۔ آپ کو اِس کیلئے تیار رہنا چاہئے تاکہ جب اللہ تعالیٰ کا سامنا ہو تو یہ کہہ سکیں کہ آپ نے اپنا فرض انتہائی خلوص نیت، دیانتداری، وفاداری اور تندہی سے سے انجام دیا، کسی اقدام سے قبل یہ سوچیں کہ آیا یہ آپ کے ذاتی یا علاقائی مفاد کیلئے ہے یا ملک کی فلاح و بہبود کیلئے؟ اگر ہر فرد اِس طرح اپنا جائزہ لے اور کسی خوف اور لالچ کے بغیر اپنے آپ اور دوسروں کیلئے دیانت داری کو لازم قرار دے تو ہمارا مستقبل روشن ہوگا اور اگر سرکاری ملازمین اور عوام انہی اصولوں پر کاربند رہے تو حکومت، قوم اور ملک کا معیار بلند ہو گا اور پاکستان دنیا بھر کے عظیم ملکوں کی صف میں شامل ہو جائیگا۔ سوال یہی ہے کہ کیا ہم نے قائد کے اِن درخشاں اصولوں پر عمل کیا ہے اور کیا پاکستان دنیا کے عظیم ملکوں کی صف میں شامل ہو گیا ہے؟ ایسا بالکل نہیں ہے کیونکہ پاکستان میں قائد کے جمہوری اصولوں کو ذاتی مفادات کے ایک مافیائی نظام کے تابع کر کے آئین، قانون اور ریاستی نظام یعنی مروجہ سٹیٹ کرافٹس کی گردن مڑور کے قومی خزانے کو ذاتی مفادات کے حصول کیلئے منظم طریقے سے لوٹ مار کی نظر کیا جا رہا ہے اور قومی دولت باہر کے ملکوں میں منتقل ہو رہی ہے۔ مخصوص سول سرونٹس کو اْن کے گریڈاور متعلقہ سہولتوں سے بالاتر ہو کر عملی طور پر سول سرونٹ ایکٹ اور سول سرونٹ کنڈکٹ رولز سے ماورا کر کے اہم اداروں اور وزارتوں میں اہم پوزیشنوں پر تعینات کر کے ذاتی مفادات کے حصول کا ذریعہ بنایا جا رہا ہے۔ دھیلے کی کرپشن نہ کرنے کی دعویدار پنجاب حکومت کی ٹاپ بیوروکریسی نے سول سروس ایکٹ اور سول سروس کنڈکٹ رولز کو پس پشت ڈالتے ہوئے ملک سے کرپشن ختم کرنے میں معاونت کرنے کے بجائے ریاست سے ہی بغاوت کرنے کی ریت ڈال دی۔ اس وقت نیب کے چیئرمین سابق جسٹس جاوید اقبال نے مملکت خداداد پاکستان سے کرپشن کے ناسور کو نکالنے کیلئے قائداعظم کے اصولوں پر چلنے کا اعلان کرتے ہوئے مبینہ طور پر میگا کرپشن میںکیسز میںملوث بڑوں کو کہڑے میں کھڑا کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے اس کے ساتھ ساتھ چیف جسٹس ثاقب نثار بھی جو فیصلے دے رہیں ہیں۔ وہ قابل تحسین ہیں۔ کرپشن کا کینسر خاص طور پر سرکاری اداروں میں جڑوں تک سرایت کر چکا ہے۔ ان سرکاری اداروں میں وہ تمام ادارے شامل ہیں جوعوام کے ٹیکس سے بنے سرکاری خزانے سے تنخواہیں وصول کرتے ہیں۔ اب وقت ہے کہ عوام بھی اٹھ کھڑے ہوں تاکہ ملک کی قسمت بدلی جا سکے۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38