سینٹ کے انتخابات کے سلسلے میں جوڑ توڑ اور خاص طور پر ووٹوں کی خرید و فروخت پورے زور اور شور سے شروع ہے۔ اسے عرفِ عام میں Horse Trading کا نام دیا جاتا ہے۔ اس اصطلاح کا پس منظر کچھ یوں ہے کہ روم کے تیسرے بادشاہ کا ایک بہت ہی لاڈلا گھوڑا تھا جس کا نام Ingitatus تھا اور بادشاہ جس کا نام Caligula تھا اس سے اس قدر محبت کر تا تھا کہ اس نے اس گھوڑے کو رومن سینٹ کا رکن بنا دیا۔
صوبہ بلوچستان کی اسمبلی کے 65 (پینسٹھ)ارکان جو کہ کل سات سینٹروں کا انتخاب کریں گے۔ اس سلسلے میں گھوڑوں کی خرید و فروخت زوروں پر ہے اور شنید ہے کہ بولی 30 (تیس) ملین روپے تک ہے جبکہ سینٹ کے امیدوار 20 (بیس) ملین پر اصرار کر رہے ہیں۔ فرض کریں اگر سودا 250 (دو سو پچاس) ملین پر ہوتا ہے تو اس طرح کل 2 (دو)بلین روپے کا لین دین ہوگا۔
KPK کی اسمبلی کے 124 ارکان جو 7 (سات) سینٹروں کو منتخب کریں گے خبر ہے کہ اس کیلئے مطالبہ 20 (بیس) ملین روپے ہے اور اگر سودا 350 (تین سو پچاس) ملین روپے ہے تو یہاں بھی 2 (دو) بلین روپے کا کاروبار ہوگا۔ادھر FATA میں توڑ جوڑ اور ملاقاتیںجاری ہیں اور خبر ہے کہ یہاں کے سینٹ کے امیدوار نے 500 (پانچ سو) ملین کی پیشکش کی ہے۔اس وقت پی پی پی کے 26 سینٹر ہیں جن میں سے 18 ریٹائرڈ ہو رہے ہیں۔ چونکہ اس پارٹی کو اس وقت کافی پیسے کی ضرورت ہے تاکہ سینٹ میں زیادہ سے زیادہ سیٹیں حاصل کرسکیں۔ شنید ہے کہ اس پارٹی نے 1.5 (ڈیڑھ) بلین روپے بلوچستان میں خرچ کرنے کیلئے مختص کردئیے ہیں۔ جناب زرداری جو اکثر بدعنوانی کے خلاف بیان دیتے رہتے ہیں پوری شد و مد سے اس کوشش میں ہیں کہ بلوچستان اسمبلی میں 3 (تین) سے 6 (چھ) سیٹیں حاصل کرلیں اور KPK میں بھی ان کو سینٹ کی ایک دو نشستیں ہاتھ لگ جائیں۔ جہاں تک پنجاب کا تعلق ہے تو وہاں مقابلتاً کم ہیرا پھیری اور دولت کا لین دین ہورہا ہے اور وہاں 53 (تریپن) ایم پی اے ایک سینیٹر کو منتخب کریں گے۔ اب آپ خود ہی فیصلہ کریں کہ دولت کے بل بوتے پر انتخاب جیتنے والے کیا عوام کی خدمت کریں گے۔ یہی وجہ ہے کہ 47 سالوں میں 10 (دس) دفعہ انتخابات میں 2017 ء کی رائے شماری کے مطابق ملک کے 30.2 (تیس اشاریہ دو) ملین کنبوں میں سے 1174 (گیارہ دو چوہتر) خاندان والوں نے اس میں حصہ لیا اور وہی لوگ ہر دفعہ اسمبلیوں اور سینٹ میں براجمان رہتے ہیں۔ ایک عام آدمی تو انتخابات میں حصہ لینے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ ویسے بھی ہمارے یہاں ووٹ امید وار کی قابلیت کی بجائے اپنے مفاد، ذات برادری اور رشوت لیکر دئیے جاتے ہیں۔اس سے واضح ہوتا ہے کہ عام آدمی کے مسائل کی ترجمانی کے لیے بھی سینٹ میں کوئی رکن نہیں ہوتا کیونکہ عام سینٹر ہی عام آدمی کا سوچ سکتا ہے۔ قارئین ! ملک میں خوشحالی عوامی بہبود اور ترقی کیلئے جو عناصر درکار ہیں وہ یہ ہیں۔
اول: آئینی تحفظ
دوم : اس کیلئے اداروں کا قیام Physical Infrastruture
سوم : اور سب سے اہم اور ناگزیر عنصر ایمان دار اور بے لوث خدمت کا جذبہ رکھنے والی قیادت کا ہے۔ اس کے بغیر ملک میں جمہوریت جو کہ Govt of the people, by the people & for the people. ہے کبھی قائم نہیں ہو سکتی اس وقت ملک کے پڑھے لکھے افراد کا کردار بنیادی اہمیت کا حامل ہے ان کو چاہئے کہ اپنے گھر خاندان اور اردگرد کی سوچ کو تبدیل کرنے میں مثبت روئیے کا مظاہرہ کریں تاکہ عوام ایک درد مند با صلاحیت اور وفادار ممبر کو سینٹ کی سیٹوں تک لے کر جائیں۔ علاوہ ازیں ایک اہم بات یہ کہ سینٹ کے انتخابات Indirect یعنی بالواسطہ کے بجائے Direct براہ راست ہونے چاہیں۔ بالواسطہ انتخابات کا طریقہ کار پہلے امریکہ میں بھی رائج تھا مگر وہاں بھی ان میں پیسے اور دولت کا استعمال ہوتا تھا جس کی وجہ سے اس نظام کو بدل کر براہِ راست انتخابات کا طریقہ اپنایا گیا۔ ہمارے ملک میں جہاں سیاست میں روپے پیسے کا استعمال اور ووٹوں کی خرید و فروخت ایک معمول سا بن چکا ہے۔ اس میں براہ راست انتخابات کا نظام لازمی ہے تا کہ انتخابات میں شفاعیت قائم کی جاسکے۔
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024