نئے منظر نامے کے مطابق امریکہ افغان جنگ میں ایک ٹلین ڈالرز کی کثیر رقم کے ضیاع ہزاروں فوجیوں کی ہلاکت کرانے کے بعد موجودہ صدی کی بدترین شکست سے دوچار ہے ۔ وہ اس خفت وپشیمانی سے اپنے چہرے کو بچانے کے لئے دوسروں خصوصاً پاکستان کوذمہ دار ٹھہرا کر افغانستان میں مزید قیام کے بہانے تلاش کر رہا ہے۔ دراصل اب امریکہ کے مقاصد تبدیل ہو چکے ہیں۔ عالمی منظرنامہ تبدیل ہونے کے باعث امریکہ افغانستان کو ایک معلوماتی کیمپ کے طور پر استعمال کرنا چاہتا ہے۔ امریکہ اس کیمپ سے ایشیاء میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کا قریب سے مشاہدہ کرکے اپنی عالمی حیثیت کے دفاع کا خواہشمند ہے۔ کچھ عرصہ قبل امریکی وزارت دفاع کا پالیسی بیان ہے کہ اب امریکہ کا افغانستان میں بیٹھنے کا مقصد خطے میں روس اور چین کے تیزی سے پھیلتے ہوئے اثر و رسوخ کا تواتر سے مقابلہ کیا جا نا ہے۔ بھارت کو پاکستان کے خلاف مضبوط کریں تاکہ پاکستان چین تعلقات متاثر ہو سکیں۔ دوسری جانب ایران کو بھی جوہری طاقت کے حصول کی منزل تک نہ پہنچنے دیا جائے۔ چینی حکومت کی اقتصادی پرکشش پالیسی کے باعث ایشیائی ممالک کے مفادات چین سے منسلک ہونا شروع ہوگئے ہیں اور امریکی اثر و رسوخ روز بروز کم ہوتا جا رہا ہے جو امریکیوں کی برداشت سے باہر ہے۔ جہاں تک افغانستان کا تعلق ہے وہاں بھی نیٹو افواج اور افغان حکومت کی عمل داری کابل تک محدود دکھائی دیتی ہے ۔ تقریباً 70 فیصد افغان سرزمین پر طالبان کا راج ہے لہٰذا امریکہ پاکستان کو شدید دبائو میں لانے کی پالیسی پر کاربند ہے۔ اسی حوالے سے ایف اے ٹی ایف کا جال بچھایا گیا جس میں سینکڑوں مندوبین کے علاوہ عالمی بینک ، اقوام متحدہ ، آئی ایم ایف کے نمائندے بھی شریک ہوئے ۔ فنانسشل ایکشن ٹاسک فورس ایک بین الاقوامی ادارہ ہے جس کا قیام 1989ء میں ہوا ۔اس ادارے کا بنیادی مقصد بین الاقوامی مالیاتی نظام میں شفافیت کی نگرانی کرنا ، اسے کالے دھن اور دہشت گردی میں استعمال سے روکنا۔ یہ ادارہ انہی مقاصد کے لئے قانونی مالی اور عملی امداد فراہم کرتا ہے۔ یہ ایک پالیسی ساز ادارہ ہے جو دہشت گردی کے خلاف کام کرتا ہے ۔ یاد رہے پاکستان نے ایف اے ٹی ایف کی پالیسی کے مطابق عمل درآمد کرتے ہوئے متعدد اقدامات کئے جن میں اقوام متحدہ کی طرف سے دہشت گرد قرار دی جانے والی تنظیموں پر پابندیاں عائد کی گئیں، انہیں ہر سطح پر کام کرنے سے روکا گیا ۔ ان تنظیموں میں حقانی نیٹ ورک ، جماعت الدعوۃ ، راحت لمیٹڈ، حاجی ستار منی ایکسچینج ، حرکت الجہاد السلامی ، فلاح انسانیت فائونڈیشن ، ام تعمیر نو ، اختر ٹرسٹ اور رشید ٹرسٹ وغیرہ وغیرہ شامل ہیں ۔ علاوہ ازیں ضرب العضب اور ردالفساد کے ذریعے کاروائیوں اور ان کے مثبت نتائج کو بھی پوری دنیا سرا رہی ہے ۔کچھ روز قبل ہی امریکی افواج کی سنٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل جوزف ووٹل نے امریکی ایوان نمائندگان کو بتایا ’’پاکستان کی جانب سے بہت مثبت اشار ے مل رہے ہیں ، وہ اب بہت درست سمت جا رہا ہے ، ہم سمجھتے ہیں کہ امریکیوں کو اس امر کا بخوبی ادراک و احساس ہوگیا ہے کہ آپریشن ضرب العضب اور آپریشن رد الفساد کے نتیجے میں افواج پاکستان نے مؤثر کاروائی کرتے ہوئے مقامی و بین الاقوامی پلانٹ شدہ دہشت گردوں کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے ، ان کے نیٹ ورک بکھرتے نظر آرہے ہیں ۔‘‘ مزید براں امریکی سفارت خانے کے بیانیے کے مطابق امریکی صدر کی نائب معاون برائے جنوبی ایشیاء لیزا کرٹس نے سیکرٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ ، وزیر خارجہ احسن اقبال اور چیف آف جنرل سٹاف لیفٹیننٹ جنرل بلال اکبر سے ملاقاتوں میں کہا کہ ہم مل کر ان سب دہشت گرد گروہوں کو شکست دیں گے۔ یاد رہے کہ دہشت گردوں کے تمام ٹولے آپریشن ضرب العضب اور ردالفساد کے موقع پر ہی شمالی وزیر ستان سے فرار ہو کر افغان سرزمین کے ان گوشوں میں روپوش ہوگئے ہیں جن کے بارے میں افغان وزیر اعظم عبداللہ عبداللہ تسلیم کر چکے ہیں کہ دہشت گردوں کے علاقے پر افغان حکومت کی گرفت نہیں جس کا باعث مؤثر کاروائی ہونا مشکل ہے ۔ امریکہ ایک ہاتھ سے ایف اے ٹی ایف کے رسے سے پاکستان کا گلا دبانا چاہتا ہے اور دوسرے ہاتھ سے کامیابیوں پر تھپکی دے رہا ہے۔ تازہ صورت حال کے مطابق افغانستان میں ہونے والی کانفرنس سے خطے میں مفاہمت کے نئے امکانات جنم لینے لگے ۔ افغان صدر اشرف غنی نے ایک جانب طالبان گروہوں کو سیاسی قوت تسلیم کرتے ہوئے کابل میں دفتر کھولنے کی دعوت دی ہے دوسری طرف پاکستان سے مفاہمت اور اشتراک عمل کے نئے جذبوں کا اظہار کیا مگر طالبان قیادت نے افغان حکومت کو کٹھ پتلی قرار دیتے ہوئے براہ راست امریکہ سے بات چیت کرنے کا عندیہ دیا۔ افغان طالبان کے مطابق اگر امریکہ افغان عوام کے جائز حقوق اور مطالبات تسلیم کرے تو مذاکرات ممکن ہیں ۔
قارئین کرام ۔ امریکہ کی دو رخی پالیسی کے باعث اس سے خیر کی توقع رکھنا حبث ہے ۔ 9/11کے بعد امریکہ نے اپنے ان محسنوں جن کی قربانیوں کے باعث روس کو شکست دے کر دنیا کی واحد سُپر پاور بنا ان مہربانوں کے احسانات فراموش کرکے 72 ارب ڈالرز سالانہ مسلسل سترہ سال سے انہیں پامال و تاراج کرنے پر خرچ کر رہا ہے جس کے نتیجے میں شکست اور شرمساری کے سوا کچھ حاصل نہ ہوا ۔اگر یہی رقم افغانوں کی بحالی اور تعمیرنو پر خرچ کی جاتی تو پورا خطہ آج امن کا گہوارہ ہوتا اور امریکہ اس پر راج کر رہا ہوتا ۔آج پھر موقع ہے کہ خاک و خون کے کھیل کو ختم کرکے مذاکرات کے ذریعے خطے کو امن کی شاہراہ پر گامزن کیا جا سکتا ہے کیونکہ پرامن افغانستان میں ہی پرامن اور خوشحال ایشیاء کا راز پنہاں ہے ۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024