چیئرمین سینیٹ کیلئے جوڑ توڑ ، بلوچستان کے 6 آزاد سینیٹرز کا پی پی میں شمولیت سے انکار
کراچی/کوئٹہ/اسلام آباد (بیورو رپورٹ+اسٹاف رپورٹر+ایجنسیاں)کوئٹہ سے بیورو آفس کے مطابق آصف زرداری کے خصوصی نمائندے عبدالقیوم سومرو، خیبر پی کے کے جنرل سیکرٹری فیصل کریم کنڈی کا دورہ کوئٹہ ناکام ہوگیا۔ سینیٹ کے 6نومنتخب آزاد سینیٹروں نے پیپلز پارٹی میں شمولیت سے انکار کردیا۔ پی پی وفد نے خواہش کا اظہار کیا کہ بلوچستان سے جو 6آزاد سینیٹر منتخب ہوئے ہیں وہ پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کریں تاکہ سینیٹ میں ہماری اکثریت ہوجائیگی اور آنیوالے عام انتخابات میں ملکر حصہ لیں گے تاہم بلوچستان سے منتخب ہونیوالے 6سینیٹر نے فوری طورپر پیپلزپارٹی میں شمولیت سے انکار کردیا اور سینیٹ میں اپنی حیثیت آزادانہ طورپر رکھنے کا فیصلہ کیا ہے جس سے آصف علی زرداری کو بلوچستان سے نومنتخب 6آزاد سینیٹروں کے جواب سے سخت مایوسی ہوئی ہیں۔ ادھر قیوم سومرو کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی طرف سے کوئی رابطہ کیا گیا نہ ہم ان سے رابطہ کریں گے۔وزیراعلی بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو نے کہا ہے کہ بلوچستان میں سینیٹ انتخابات میں کسی قسم کی ہارس ٹریڈ نگ نہیں کی مخالفین کہتے ہیں حکومت اتحادی جماعتوں نے ووٹ خرید کر کامیابی حاصل کی اگر ہم پیسے لگاتے تو ایک جماعت کا امیدوار بھی کامیاب نہیں ہوتا پیپلزپارٹی کے رہنماء صرف مبارکباد دینے آئے تھے ان سے کسی اور ایجنڈے پر بات نہیں ہوئی ، ہمارے دروازے تمام سیاسی جماعتوںکیلئے کھلے ہیں۔ گوادر کے عوام کی فلاح کے لئے 1 ارب روپے جاری کر دئے گئے ہیں، گوادر کے عوام کے لئے جس طرز پر کام کرنا چائیے تھا وہ نہیں ہوا،یہ بات انہوں نے اتوار کو وزیراعلی سیکرٹریٹ میں میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہی، اس موقع پر نومنتخب سینیٹرز انوار الحق کاکڑ،احمد خان ،صادق سنجرانی ،نصیب اللہ بازئی ،ثناء جمالی و دیگر بھی انکے ہمراہ تھے، وزیراعلی میر عبدالقدوس بزنجو نے کہا کہ تحریک عدم اعتماد کے وقت ہم پر انگلیاں اٹھیں کہ قدوس بزنجو سینٹ انتخابات ملتوی کرادینگے مگر آج ہمارا موقف درست ثابت ہوا کہ بلوچستان میں حکومت کی تبدیلی صرف اقتدار کاحصول یا الیکشن سبو تاژ کرنا نہیں بلکہ صوبے میں جاری بد عنوانی اور حکومتی مشینری بحال کروانے کے لئے تھی۔کراچی سے اسٹاف رپورٹر کے مطابق صباح نیوز کے مطابق زرداری نے حکومتی اتحادی جماعت کے سربراہ مولانا فضل الرحمن سے بھی رابطہ کر لیا اور ملاقات کی دعوت دیدی۔ زرداری کے معاون خصوصی عبدالقیوم سومرو نے اتوار کو مولانا فضل الرحمن سے رابطہ کیا اور انہیں بتایا کہ آصف علی زرداری فوری طور پر ان سے چیئرمین سینیٹ اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے انتخابات کے بارے میں مشاورت کرنا چاہتے ہیں۔ ذرائع کے مطابق مولانا فضل الرحمن اس معاملے پر متحدہ مجلس عمل کی دوسری بڑی پارلیمانی جماعت جماعت اسلامی کو اعتماد میں لینا چاہتے ہیں۔ ذرائع نے دعویٰ کیا ہے کہ جماعتوں میں داخلی طور پر مشاورت کے بعد زرداری ہائوس اسلام آباد میں چیدہ چیدہ پارلیمانی جماعتوں کا مشترکہ مشاورتی اجلاس متوقع ہے جبکہ دونوں بڑی جماعتوں کے مشترکہ دوستوں کی طرف سے یہ تجویز بھی اہم جماعتوں کو دیدی گئی ہے کہ چیئرمین سینیٹ کے حوالے سے موجودہ سٹیٹس کو کو برقرار رکھا جائے اور ڈپٹی چیئرمین کا عہدہ مسلم لیگ (ن) سے لے لیا جائے تاہم اس تجویز کو تاحال پذیرائی نہیں مل سکی ہے۔ اپوزیشن کی دو اہم جماعتوں کی کوشش ہے کہ اپوزیشن متحد ہو جائے تا کہ چیئرمین سینیٹ اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے انتخابات کے حوالے سے نا پسندیدہ سرگرمیوں(لین دین کے مالی معاملات ) سے بچا جا سکے۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینٹ کے عہدوں پر اپنے امیدوار لانے کے لئے مختلف پارلیمانی جماعتوں اور آزاد امیدواروں سے رابطے تیز کر دئیے ہیں اس حوالے سے آصف علی زرداری نے قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ کو خصوصی ٹاسک دے دیا ہے اور انہیں ہدایت کی گئی ہے کہ وہ چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینٹ کے لئے مختلف پارلیمانی جماعتوں اور آزاد امیدواروں سے جلد سے جلد رابطے مکمل کریں تاکہ پیپلز پارٹی سینیٹ میں دوبارہ سے اکثریتی جماعت بن کر چیئرمین سینٹ پر اپنا امیدوار کامیاب کرا سکے۔پیپلز پارٹی کے ذرائع نے بتایا کہ پیپلز پارٹی پارلیمنٹرین کے صدر آصف علی زرداری خود بھی چیئرمین سینیٹ کے عہدے پر پیپلز پارٹی کے امیدوار کو کامیاب بنانے کے لئے متحرک ہوگئے ہیں۔ذرائع کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی کے رہنماء سید خورشید شاہ اور پی ٹی آئی کے رہنماء شاہ محمود قریشی سے رابطہ بھی اسی سلسلے کی کڑی بتایا جاتا ہے اور امکان ہے کہ پیپلز پارٹی اس حوالے سے ایم کیو ایم پاکستان سے بھی رابطہ کر سکتی ہے۔ذرائع نے بتایا کہ پیپلز پارٹی کی پہلی ترجیح یہ ہے کہ سینٹ کے انتخاب میں آزادسینٹرز سے رابطہ کر کے ان کی حمایت حاصل کی جائے۔پیپلز پارٹی کے ذرائع کا دعویٰ ہے کہ بلوچستان کے بعد فاٹا کے سینٹرز کی بھی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ذرائع کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی نے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سیٹ کے عہدوں کے لئے مختلف پارلیمانی جماعتوں کا اجلاس بلانے کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے اور اس حوالے سے پیر سے پس پردرہ رابطوں کے بعد ملاقاتوں کا باضابطہ سلسلہ شروع کر دیا جائے گا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی اس بات پر غور کر رہی ہے کہ اگر مختلف پارلیمانی جماعتوں اور آزاد سینیٹرز نے چیئرمین سینٹ کے عہدے پر پیپلز پارٹی کے امیدوار کی حمایت کی تو ڈپٹی چیئرمین سینٹ کا عہدہ ہم خیال جماعتوں کے مشترکہ امیدوار کو دیا جا سکتا ہے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی کا فی الحا ل چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینٹ کے حوالے سے مسلم لیگ ( ن ) سے کوئی رابطہ نہیں ہوا ہے اگر ن لیگ کی جانب سے چیئرمین سینٹ کے عہدے پر ممکنہ طور پر چیئرمین سینٹ کے لئے پیپلز پارٹی کے امیدوار حمایت عندیہ دیا گیا تو پیپلز پارٹی کی قیادت ن لیگ سے سینیٹ میں ان عہدوں پر متفقہ طور پر کوئی لائحہ عمل طے کرے گی۔
جوڑ توڑ