چَکرا میں کَچرا
صفائی بہت اچھی چیز ہے لیکن معلوم ہوتا ہے کہ حکومتِ سندھ کے اہل کار صرف شہریوں کی جیبوںکی صفائی پر اپنی توجہ مرکوز رکھتے ہیں۔اس معاملے میں اگر کوئی ان کا ثانی ہے تو ان کے اپنے ہی بھائی بند ہیں۔گذشتہ روز اخبارات میں کراچی کی ایک نواحی بستی چکرا گوٹھ کی ایک تصویر شائع ہوئی جس میں جگہ جگہ کچرے کے ڈھیر لگے دکھائی دے رہے تھے۔یہ دیکھ کر ہمیں اپنے نوجوان اورکارکردگی سے بھرپوروزیر اعلیٰ سائیں مراد علی شاہ کی وہ حالیہ تصویر یادآگئی جس میں وہ جیکب آباد کے’’ہارس اینڈ کیٹل شو‘‘کے دوران اونٹ کی سواری سے لطف ہورہے تھے۔کاش وہ اسی اونٹ کوہنکاکرچکراگوٹھ تک لے آتے اس لیے کہ اس غریب،خدائی خوار بستی میں اورکوئی سواری تو چل ہی نہیں سکتی ۔21ویں صدی میں بھی یہ علاقہ دوسری بنیادی سہولتوں کے ساتھ ساتھ ڈھنگ کی سڑک سے بھی محروم ہے۔سائیں سرکار ،کراچی میں کوچہء ثقافت بنارہی ہے۔بڑی اچھی بات ہے لیکن کچھ توجہ کراچی کی ’’کثافت‘‘پر بھی ہوجائے توکیامضائقہ ہے؟شاہ صاحب نے’’تخت کراچی‘‘سنبھالتے ہی فرمان جاری کیا تھا کہ وہ دو ماہ میں کراچی کے کوڑے کو ٹھکانے لگوادیں گے لیکن ہوا یہ کہ شہر میں کوڑوں کے ٹھکانوں میں اضافہ ہوگیا۔پیپلز پارٹی اپنے منشور کے مطابق عوامی مساوات پر یقین رکھتی ہے۔منشور میں تو روٹی،کپڑا اور مکان کاوعدہ بھی کیا گیا تھامگر یہ وعدہ،کشمیر پر یو این او کی قراردادوں کی طرح’’بوسیدہ اور نا قابلِ عمل‘‘ہوگیاہے۔ہاں،مساوات کے وعدے پر خاصی حد تک عمل ہورہا ہے۔چنانچہ کچرے کے معاملے میں کراچی اور چکرا گوٹھ ایک برابر ہیں۔اس’’منشوراتی صورتِ حال‘‘ کے بطن سے ایک اور مساوات بھی نکلتی ہے کہ سائیں کی قریب کی اور دُور کی نظریں دونوں برابر کی کمزور ہیں۔یہی وجہ ہے کہ کراچی کا نیا، پیار کا نام’’کچراچی‘‘پڑگیاہے۔سندھ حکومت کی ترجیحات عجیب ہیں۔ اب یہی دیکھیے کہ تھر میں بچے بھوک سے مررہے ہیں لیکن کراچی (صدر) میں ایک اور فوڈ اسٹریٹ تعمیر کی جارہی ہے جو اس شہر کی 20ویں فوڈ اسٹریٹ ہوگی۔ ترقی یافتہ ملکوں میں کچرے کو بھی کام میں لایا جاتا ہے اور اس سے بجلی بنائی جاتی ہے۔ہمیں ایسی ترقی پر اعتراض ہے جو ہماری شناخت مٹادے۔علاوہ ازیں،بجلی بنانے کے عمل میں کچرا ختم ہوجاتا ہے۔چونکہ یہ ایک ’’نعمت‘‘ کی بے حرمتی ہے اس لیے ہم پاکستانی، خصوصاً کراچی کے باشعور شہری ،اپنی ہردلعزیز حکومت کی سر پرستی میں کچرے کو سینت سینت کر رکھتے ہیں۔اب اگر اس میں سے بدبُو اٹھتی ہے یا اس کے باعث بیماریاں پھیلتی ہیں تو اس کے بھی کئی مثبت پہلو ہیں۔اس کی وجہ سے ’’ماسک‘‘کی صنعت میں بڑھو تری آئی ہے۔ایک اندازے کے مطابق سارے پاکستان میں ہرماہ جتنے ماسک بکتے ہیں اس کے دگنے صرف کراچی میں بکتے ہیں۔بدبو عوام کو گھروں میں دروازے بند کر کے رہنے پر مجبور کرتی ہے۔ اس طرح آوارہ گردی ختم ہورہی ہے۔گھر آباد اور گلیاں وچوبارے ویران ہورہے ہیں۔یہ حکومت کے ’’اخلاق سدھار‘‘پروگرام کا ایک اہم حصہ ہے۔گھروں میں رہنا امن و سلامتی کے نقطئہ نگاہ سے بھی ضروری ہے۔ ایک سینیر شاعر نے بھی یہی تلقین کی تھی ؎
حادثوںسے بچنا ہے تو یہ یاد رکھنا ہے
زیست کا تحفظ ہے گھر سے کم نکلنے میں
اب جہاں تک بیماریوں کا تعلق ہے ان کے باعث دوا سازی کی صنعت کو فروغ حاصل ہوگا (اور ہورہا ہے)،لوگوں کو زیادہ روزگار کے مواقع ملیں گے(جوکہ مل رہے ہیں)۔اس طرح روزگار کی فراہمی کے تعلق سے عوامی حکومت کے منشور کی ایک شِق پر تیزی سے عمل ہورہا ہے۔کچھ لوگ کچرے کی بدبو سے تنگ آکر پورے پورے ڈھیروں کو بے دردی سے آگ لگادیتے ہیں۔اس کے نتیجے میں جو فضائی آلودگی پیدا ہوتی ہے اس سے حکومت کا کام مزید آسان ہوجاتا ہے۔اول توکچرا اٹھانے کے اخراجات بچتے ہیں جو دیگر’’مستحقین‘‘کی جیبوں میں چلے جاتے ہیں۔ دوسرے، آلودگی کا پیغام ہوا کے ذریعے دور دور پہنچتا ہے تو بیماریوں،خصوصاً ناک، کان اور حلق کے امراض میں دن دونارات چوگنا اضافہ ہوتا ہے۔یوں ،دوائیں زیادہ بکتی ہیں اورڈاکٹروں اور نیم طبّی عملے کے لیے نئی اسامیاں بھی پیدا ہوتی ہیں۔عوامی نمائندے اپنے اپنے حلقوں میں سرخ رو ہوتے ہیں تو انتخابی سیاست پَر بہارآجاتی ہے۔رہے کراچی کے’’باشعور عوام‘‘ تووہ غالبؔ کے اس شعر کے مطابق’’شاک پروف‘‘ بن چکے ہیں ؎
رنج سے خُوگرہواانساں تو مٹ جاتا ہے رنج
مشکلیں مجھ پر پڑیں اتنی کہ آساں ہوگئیں
لگتا ہے چکرا گوٹھ کے بھولے بھالے باسیوں کے اعصاب ابھی اتنے مضبوط نہیں ہوئے ہیں چنانچہ انھوں نے کچرے کے چھوٹے چھوٹے ڈھیروں کی تصویربنوادی اور دوسری غلطی یہ کی کہ چھپوادی۔گھر کی بات گھر تک ہی رہنی چاہیے تھی۔یوں اپنے بے صبرے پن کی تشہیر مناسب نہ تھی۔ ایسی تصویروں اور خبروں سے سائیں مراد علی شاہ اور ان کے سیاسی پیشوائوں کی دل آزاری ہوتی ہے اور ہم سب جانتے ہیں کہ کسی کے دل کو تکلیف پہنچا نا کتنا بڑا پاپ ہے۔سچی بات تو یہ ہے کہ ہمیں یہ تصویر دیکھ کر ہنسی آئی۔ہمارے یہاں تو کچرے کی پہاڑیاں بنی ہوئی ہیں۔حکومت کوچاہیے کہ چکراگوٹھ کے ایک نمائندہ وفد کو کراچی کا دورہ کرادے۔جب وہ اپنی آنکھوں سے اس کوڑھ زدہ شہر کے کوڑے کو دیکھیں گے تو دل میں اﷲ کا شکر اور شاہ سائیں کا شکر یہ ادا کریں گے کہ ہم تو اس بین الاقوامی شہر،سندھ کے دارالحکومت(جسے شہرِ قائد کہہ کر قائد کی روح کے ساتھ مذاق کیا جا تا ہے)سے بدرجہا بہتر ہیں۔اس میں شک نہیں کہ صحت و صفائی کے مسائل بلدیاتی اداروں کے دائرہ کارمیں آتے ہیں۔کراچی کے میئر صاحب اسی جماعت(ایم کیو ایم) کے پروردہ ہیں جس پراب محمد رفیع کے ایک قدیم فلمی گیت کے بول صادق آتے ہیں :
اک دل سے ٹکڑے ہزار ہوئے
کوئی یہاں گرا کوئی وہاں گرا
وہ وہ لوگ تو’’بچارے‘‘اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ان کی اپنی صفوں میں ’’کثافت‘‘داخل ہوگئی ہے ۔وہ بھلا شہر کی کثافت پر کیا توجہ دیں گے۔ہاں،فوٹوسیشن کی خاطر کبھی کبھار مئیرصاحب یا کوئی یوسی ناظم ہاتھ میں جھاڑو پکڑ کر جھک جاتا ہے۔اب تو کیفیت یہ ہے کہ میئرکے دورے کے دوران یوسی ناظم غائب ہوتا ہے۔وہ بھی مطمئن ہوتے ہیں اس لیے کہ فوٹوگرافر ساتھ لاتے ہیں۔کہنے کا مقصد یہ ہے کہ بلدیاتی اداروں کی ناکامی، حکومت کی نااہلی کا جواز نہیںبن سکتی۔حکومت کو بطور بزرگ اور سرپرست اپنا کام کرتے رہناچاہیے لیکن یہاں تو آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ایسا معلوم ہوتا ہے کہ چکرا گوٹھ سے کراچی تک،وہاں سے منوڑے تک اور وہاں سے جیکب آباد تک کچرے کے ڈھیر ابھی کئی ماہ اور اپنی بہار دکھاتے رہیں گے۔بآلاخر ان ہی ڈھیروں کے بَل پر صوبائی اور بلدیایی الیکشن لڑے جائیں گے۔پی پی اور ایم کیو ایم کے تمام دھڑے ان ڈھیروںکو بطور نعرہ استعمال کریں گے۔ اس لیے کچرے کی سیاست کی ان علامتوں کو برقرار رکھناضروری ہے۔کالم کا اختتام اقبالؔ کے اس شعر پر کرتا ہوں ؎
اندازِ بیاں گرچہ بہت شوخ نہیں ہے
شاید کہ اتر جائے ترے دل میں مری بات