سینٹ الیکشن میں جیت،کیانواز شریف کو یہ خوشی راس آئے گی؟
کہتے ہیں کہ ہر تاریک رات ایک روشن صبح کے ساتھ جڑی ہوتی ہے آزمائیشوں اور سختیوںکے بعد کامرانی و راحت بھی مل ہی جاتی ہے مگر یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہر خوشی راس بھی نہیں آتی۔ملک میں ہونے والے موجودہ سینٹ انتخابات کے بارے میں اول تو یہی کہا جاتا رھا ہے کہ شاید ہوں یا نہ ھوںیعنی افواہوں کا نہ ٹھنڈا ہونے والا سلسلہ قومی و چاروں صوبائی اسمبلیوں میں ہونے والی پولنگ پہ ختم ہوا۔کل ۱۰۴ اراکین پر مشتمل ہاوس میں سے نصف ایوان ۱۲ مارچ کو رٹیائر ہونے جا رہا ہے۔انہی ۵۲ نشستوں پر ۳ مارچ کو انتخاب ہوا،نتائج توقعات سے کچھ زیادہ مختلف نہیں تھے۔پنجاب کل ۱۲ میں سے حکمران جماعت نے ۱۱ نشستیں حاصل کرکے اپنے ناقابل تسخیر ہونے کا طبل بجا دیا۔ایک نشست سابق گورنر اور پی ٹی آئی کے مرکزی رھنما چوہدری سرور جیتنے میں کامیاب ھو گئے۔ان کی فتح کو ن لیگ کی ہارنے والی امیدوار عظمی بخاری نے چوہدری سرور کی بے پناہ دولت کا کرشمہ قرار دیا کیونکہ انہوں نے اپنی جماعت کے کل ۳۱ ووٹ کے علاوہ ۱۳ووٹ بھی حاصل کیے اور یوں ان کا مجموعہ ۴۴ رہا۔اب یہاں یہ بات اہم نہیں کہ وہ بوجہ سر مایہ میدان مار گئے بلکہ اہم یہ ہے کہ وہ حکومتی مشینری کو توڑ کر گھنٹی بجا چکے ہیں کہ ن لیگ کو جاگتے رہنا چاہیے۔وفاق کی دونوں نشستیں ن لیگ نے جیتی۔مشاہد حسین سید اور جنرل اختر عبدالرحمان کے فرزند ہارون اختر بھی ن لیگ کی حمایت سے ایوان کا حصہ بن گئے۔ساتھ ہی پیراں پور کے محمود الحسن بھی معرکے سر کرنے والوں کی صف میں شامل ہوگئے۔
دوسرے بڑے صوبے سندھ میں کافی گہماگہمی رہی۔متحدہ قومی موومنٹ وقت ضرورت بھی متحد نہ ہو سکی جس کا فائدہ پاکستان پیپلز پارٹی نے کل۱۲ میں دس نشستیں جیت کر اٹھایا۔ایک نشست ایم کیو ایم اور ایک فنکشنل لیگ کے حصے میں آئی،ایم کیو ایم نے صوبائی حکومت پر ہارس ٹریڈنگ کا الزام لگایا کہ ان کی چار خواتین ممبران اسمبلی ایک اقلیتی اور ایک اندرون سندھ سے منتخب ہونے والے رکن کو پی پی پی نے پیسے کے زور پر خرید کر اپنے حق میں استعمال کیا۔حالانکہ پولنگ سے ایک دن پہلے دونوں گروپس نے ایکساتھ پریس کانفرنس کر کے یہ تاثر دیا کہ وہ سینٹ الیکشن ملکر لڑیں گے اور کم از کم دو نشستیں ضرور جیت جائیں گے مگر نتائج نے ثابت کر دیا کہ متحدہ اب منتشر قومی موومنٹ بن چکی ہے۔یوں صوبے کی حد تک پی پی پی قدرے کامیاب قرار دی جاسکتی ہے بلکہ ن لیگ کے پنجاب کو سکور کو زرداری نے سندھ میں تقریبا برابر کر دیا جو ان کی سیاسی بصیرت کے ساتھ ساتھ سندھ میں ابھی بھی پی پی پی کی مقبولیت یامضبوط ترین ہونے کاایک اورثبوت ہے۔
کے پی کے میں بھی پی پی پی نے کسی حد تک اپ سیٹ کیا،دوسرے صوبوں کی نسبت یہاں پرویز خٹک اور ان کی جماعت تحریک انصاف کی گریپ کمزور رہی۔مولانا سمیع الحق بھی اپنی نشست ہار گئے۔اس سارے مرحلے میں بہت سے قابل ستائش مناظر بھی دیکھنے کو ملے جیسا کہ ارشد خان لودھی بوجہ علالت ویل چئیر پر ووٹ کاسٹ کرنے آئے اور سب سے بڑھ کر روبینہ قائم خانی اپنے جوان بیٹے کی میت گھر میں چھوڑ کر ووٹ ڈالنے آئیں،ان کے صاحب زادے حمزہ قائم خانی ایک دن پہلے روڈ ایکسیڈنٹ میں جاں بحق ہو گئے تھے جنہیں بعد ازاں حیدر آباد میں سپرد خاک کیا گیا۔یقینا ایسے لوگ ہی جمہوریت کے حقیقی وارث ہیں جو ووٹ کی اہمیت اور پارلیمان کے تقدس کے قائل ہیں۔جبکہ دوسری طرف کپتان ہمیشہ کی طرح اپنے کھلاڑیوں کو میدان میں اتار کر خود غائب پایا گیا۔کتنی عجیب بات ہے کہ نیازی شیخ رشید کو وزارت عظمی کے لیے اور اپنے پارٹی کارکنان کو سینٹ کی نشستوں کے لیے نامزد تو کرتے ہیں مگر خود وٹ نہیں دیتے۔دوسروں کو کبھی ہار نہ ماننے کا لیکچر دینے والا خود ہر معرکے سے اس لیے غائب ہو جاتا ہے کہ ہار یقینی ہے اس لیے میں نہیں آوں گا۔یہی چھوٹ دوسرے اراکین کو بھی ملنی چاہیے کیونکہ جب سپہ سالار ہی ہتھیار ڈال دے تو فوجیوں کا کیا دوش؟عمران نیازی نے آج تک پارلیمنٹ ہاؤس کو عزت نہیں بخشی ماسوائے اس کے کہ وہ تنخواہ اور مراعات باقاعدگی سے وصول کر تے ہیں۔
قارئین۔سینٹ کے انتخابات ہو چکے،مسلم لیگ ن نے اپنے انتخابی نشان شیر کی بجائے آزاد حثیت سے الیکشن جیت تو لیا ہے مگر کیا وزارت عظمی کے بعد پارٹی صدارت سے محروم ہونے والے میاں نواز شریف کو یہ خوشی راس بھی آئے گی یا نہیں؟کیونکہ احتساب کرنے والوں کی توجہ ان سے ہٹ ہی نہیں رہی۔ کیا اب تک متحد رہنے والی ن لیگ یکجا ن رہے گی ؟یا پھر تاریخ ایک بار پھر ملک و قوم کو ان طاقتوں کے حوالے کر دے گی جو ملک و قوم سے مخلص ہوں نہ ہوں اقتدار سے ضرور مخلص ہوتے ہیں۔اور کیا بڑے کے بعد چھوٹے میاں صاحب بھی نشانے پر ہیں یا وہ نشانہ بازوںکو سمت بدل لینے پر قائل کر لیں گے۔ان سب سوالوں کا جواب ہمیں آنے والا کل ہی دے گا۔