چلتا رہے یہ کارواں
رکاوٹیں آتی رہتی ہیں ۔مشکلات دامن گیر ہوتی ہیں۔ مخلص لوگ بھی مخاصمت پر اتر آتے ہیں ۔ چہار سو سے سنگ باری بھی ہوتی ہے ۔موسموں کی سختیاں بھی راستہ روک لیتی ہیں ۔لسانی بدکاری اور دشنام طرازی سے بھی بچنا محال ہوتاہے ۔ قافلے میں بددلی اور بداعتمادی پیدا کرنے والوں کی بھی کمی نہیں ہوتی ۔ حد تو یہ ہے کہ کتے کاٹنے کو دوڑتے ہیں اور حملہ آور خوف پھیلاتے ہیں ۔ لیکن حوصلہ مند اوردور اندیش سالار قافلہ رکتا ہے نہ ٹھٹھکتا ہے ۔ وہ اپنے ہمسفروں کی ہمت مسلسل بڑھاتا رہتا ہے ۔ اوریوں قافلہ چلتا رہتا ہے ۔
کیا نہیں کہا گیا ۔ کسطرح یاس کی چادر تانی گئی ۔ حسرت بھرے مرثیے لکھے گئے ۔کیسے بد اعتمادی اور قنوطیت کے ٹسوے بہائے گئے ۔ غنیم تو غنیم اپنے شہ سواروں نے بھی ہڑبونگ مچانے والوں کا ساتھ دیا ۔کہاگیا کہ مارچ سے پہلے مارچ ہوجائے گا ۔ عدالتی فیصلوں اور جج صاحبان کے طنزومزاح نے مخالفین کے منہ میں لمبی زبانوں کا کام کیا ۔ یہی نہیں عین وقت پر ’’بادشاہ ‘‘سے بادشاہی چھین لی بلکہ بادشاہ سے ’’بادشاہ گری‘‘ کا اختیار بھی چھین لیا گیا ۔بدخواہوں نے کہا کہ اب حکمران جماعت زچ ہوکر سینیٹ کے انتخابات کا بائیکاٹ کردے گی۔ کسی نے کہا کہ وہ ٹریپ میں آئیںگے اور الیکشن کمشن کے فیصلے کے خلاف عدالت جانے سے الیکشن ملتوی ہوجائیں گے ۔ سیاست کے ابلیسوں کونئی راہ سجھائی۔ انتخابی امیدوار کے فارم کے نامکمل ہونے پر اسلام آباد ہائی کورٹ کوچکمہ دینا چاہا۔ لیکن کوئی چال کار گر نہ ہو سکی ۔کوئی تُھڑدلا ہوتا، کوئی حرماںپرست ہوتا ،کوئی اپنی ذات میں قید ہوتا تو وہ کہتا جب میں وزیراعظم نہیں تو بھاڑمیں جائے یہ نظام ۔مفاہت کوراستہ بناتا اوراپنی باری کا انتظارکرتا ۔ انتخابات سے بھاگنے کے سو بہانے تھے ۔لیکن قدرت کو منظور یہ ہے کہ یہ ملک چلتا رہے ۔ اس کا نظام پٹڑی پر رواں دواں رہے ۔ خدا نے انسان کا دل پھیرا۔ جس شخص کو بزدلی کے طعنے دئے جاتے تھے وہی شخص طالع آزما دماغوں کے ایجنٹوں کے سامنے ڈٹ گیا ۔مسلم لیگ کے قائد میاں محمد نواز شریف نے ہر جھٹکے کو خندہ پیشانی کیساتھ برداشت کیا لیکن کاروان کو بکھرنے نہیں دیا ۔یہی قائدانہ صلاحیت ہوتی ہے ۔ اسے ہی رہبری کہتے ہیں ۔
تین مارچ کی ڈیڈ لائن بھی گزر گئی ۔ شیر کے نشان کے بغیر بھی ہرطرف شیر ہی دکھائی دیا ۔وہ جو دوسروںکے سہارے نوازشریف کو سیاست سے بیدخل کرنا چاہتے تھے وہ خود بے خود ہو کرپڑے رہے۔ انہیں اتنی توفیق بھی نہ ہوئی کہ وہ اپنے امیدواروں کو ووٹ ہی ڈال سکتے ،اورجیتنے والوں کو مبارک باد ہی دے سکتے ۔روحانیت نے انہیں اسقدر بے روح بنا دیا کہ وہ ایوان بالا کی حقیقت ہی بھول گئے ۔ ملک کی قسمت کے فیصلے ووٹ کی پر چی سے ہورہے تھے اور وہ اپنے من میں ڈوب کر سراغ زندگی پارہے تھے ۔ اب کی بار انہوں نے زبان سے نہیں بلکہ اپنے عمل سے اپنے ممبراں پر لعنت بھیجی۔یہ خودپسندی کی انتہا ہے ۔
ہمارا میڈیا خبریت کی چیومنگ چباتا اپنے اینکروں کو ایمانداری کی مچان پر چڑھا کر سینیٹ کے انتخابات کو مال منڈی ثابت کرنے پر تلا بیٹھا ہے ۔’’ بکاؤ مال ،گھوڑے اور گدھے ،لوگ نہیں جیتے کروڑ جیتے ہیں‘‘ ۔اینکرز اپنے مہانوںسے سوال کرتے رہے کہ ریٹ کیا رہا ؟۔ پھر واویلا ہوا کہ ہر پارٹی نے ہارس ٹریڈنگ کی ۔ ثبوت نہیں ہے لیکن شک کو خبر بنانے میں ماہر یہ ڈاکٹر شاہد کے روحانی برادران آخر کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں ؟یہ کہ پاکستانی قوم کا ہر قابل ذکر شخص کرپٹ ہوتا ہے ۔ سیٹھ سے ڈرنے والوں کو خدا کا خوف دلانے کا کوئی فائدہ نہیں ۔ ہوسکتاہے کہ کہیں باہمی مفادات نے کام دکھایا ہو۔ کوئی خریدو فروخت ہوئی ہولیکن ایسے ضمیر فروش چند لوگ ہی ہوسکتے ہیں ۔ پارٹیوں سے وابستہ لوگ کروڑکہاںسے لیں گے اورکیسے لیں گے ۔سیاسی طور پر زندہ کیسے بچیں گے ۔ انہیں تھیلوں میں بھر کر رقم کون دینے جائے گا ۔ جب میڈیا کے منکر نکیر چوبیس گھنٹے سیاستدانوں کے سانس تک گن رہے ہیں تو پھر یہ کروڑوں اور اربوں کے لین دین والی بات سمجھ سے بالا تر ہے ۔ یہ بھی کہاجارہا ہے کہ جناب دس بارہ ارب روپے میں تو پوری سینیٹ خریدی جاسکتی ہے ۔ آج تک تو خریدی جانہیں سکی ،آپ خرید کر دکھا دیں ۔ جہاں اتنے گروپ ہوں وہاں خریداری ممکن ہی نہیں رہتی ۔لیکن میڈیائی مینڈکوں کو تنخواہ ہی ٹرّانے کی ملتی ہے اس لئے وہ ٹرّاتے رہیں گے ۔ ممکن ہے کہ ایک درخواست اس الیکشن کو کالعدم کروانے کیلئے بھی ڈال دی جائے کہ عدالت نہ چاہتے ہوئے بھی سیاسی مقدمات کو سننے کیلئے منتظر رہتی ہے ۔
یہ مراحل بھی طے ہوجائیں گے ۔ محمدنواز شریف کو احساس ہے کہ انہیں سزاہوسکتی ہے اور وہ گرفتارہو کر جیل بھجوائے جاسکتے ہیں۔ لیکن اگر عدل ہوا توشائد یہ ملک اس بہیمانہ مذاق سے بچ جائے ۔ ایک بات اب دعوے سے کہی جاسکتی ہے کہ حالات چاہے جتنے بھی ناسازگار کیوںنہ ہوجائیں ،میاں نوازشریف اور ان کی پارٹی اب نقب زنوںکی آرزو کو پورا نہیں ہونے دے گی ۔ اب بھی وقت ہے کہ سیاسی مخالفین زمینی حقائق کو سمجھیں اور غیر مرئی قوتوں کے اشاروں پر ناچنے کی بجائے اپنے پروگرام کی بنیاد پر آگے بڑھیں ۔ آج کی سیاست ایمپائر کی انگلی مروڑ کر اورنج ٹرین پر چڑھ چکی ہے ۔ کارواں کو اب دوڑلگانے کی ضرورت ہے ۔ باقی قومیں ترقی کی نت نئی منازل طے کررہی ہیں ۔ ہمیں بھی سوچنا ہے کہ ملک بشارتوں کے سہارے آگے نہیں بڑھ سکتا۔ یہ عمل کی دنیاہے اور جو سست پڑا وہ کچلا جائے گا ۔
تیز قدموں سے چلو اورتصادم سے بچو
بھیڑ میں سست چلوگے تو کچل جاؤ گے