پولیس … کھرے سے سی سی کیمرے تک
پولیس میں سماجی اور معاشرتی امور کے حوالے سے حکمت عملی بنانے میں ہمیشہ ہی مسائل رہے ہیں اپنی طرف سے کئے گئے اچھے کام بھی اکثر اس کے گلے پڑ جاتے ہیں اس کی بڑی وجہ پہلے تو جامع پلاننگ نہ ہونا اور اس پلاننگ پر عمل درآمد کیلئے وسائل کی تسلسل سے عدم دستیابی ہوتے ہیں راولپنڈی پولیس نے مری روڈپر لیاقت باغ میں بنے ریسکیو15 میں ایک چھت تلے تھانے،سیکیورٹی اور ٹریفک سے متعلق عوام کو سہولت تو دے دی لیکن وہ جگہ اس قدر چھوٹی ہے کہ اپنے کام کیلئے آنے والے شہری دن بھر گیٹ کے باہر سڑک پر ہی کھڑے رہتے ہیں لمبی لائنیں اور اپنے کام میں پولیس کی مہارت میں کمی شہریوں کے مسائل اور بڑھا گئی ہے کریکٹر سرٹیفکیٹ ،گاڑیوں کی کلیئرنس ، ایف آئی آراور رپٹ کی نقول کے حصول سمیت اس ایک چھت تلے جتنی سہولتیں ہیں اس کے مطابق نہ تو وہ جگہ اتنی کشادہ ہے کہ شہر بھر کے لوگ وہاں سما سکیں اور نہ ہی موسمی شدت بارش ، دھوپ ، آندھی سے بچنے کیلئے کوئی شیلٹر بنایا گیا ہے یہاں تک کہ سائلین کیلئے پینے کے پانی کا بھی کوئی بندوبست نہیں ہے بزرگ شہریوں کیلئے تو سرے سے کوئی سہولت نہیں اور نہ ہی ریسکیو15 میں ایسا کوئی مشہور اور معروف پولیس افسر تعینات ہے جس کے نام سے شہری واقف ہوں اور اس سے فوری داد رسی کیلئے رجوع کرسکیں ایک عرصہ سے راولپنڈی پولیس کا سب سے بڑا بحران یہ ہے کہ راول ڈویژن سے لے کر شہر کے اکثر سرکلز میں بھی کوئی ایسا سینئر افسر نہیں جس کی عوام میں شناسائی ہو دفاتر اور اپنے کمروں میں بیٹھے بیٹھے پولیسنگ نہیں ہواکرتی یہی وجہ ہے کہ عوام کے مسائل بڑھتے ہیں اور آئے روز پولیس کو کسی انہونے واقعے کا سامنا کرنا پڑجاتا ہے سارا سال پنڈی پولیس آتشبازوں اور پتنگوں کے خلاف ایکشن میں رہتی ہے لیکن اچانک پتنگ بازوں کا ایسا لاوا پھوٹتا ہے کہ اس سے ایس پی راول ، ڈی ایس پی سٹی سرکل اور ایس ایچ او تھانہ سٹی معطلی کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں آئی جی پنجاب کیپٹن (ر) عارف نواز کی ذمہ داری ہے کہ وہ راولپنڈی ضلع اور ڈویژن کی پولیس کو سینئر افسر ان کی ضرورت کے مطابق فراہم کریں کئی ماہ بعد راولپنڈی پولیس کو عرفان طارق کی جگہ نئے ایس ایس پی آپریشنز محمد بن اشرف ملے ہیں ایس ایس پی آپریشنز کوتعیناتی کے بعداپنے مینڈیٹ میں کچھ روز میل ملاپ یعنی اوری اینٹیشن میں بھی صرف کرنے چاہئیں تاکہ انہیں معلوم ہوسکے انہیں کیا کرنا ہے کیونکہ جو افسر ایسا نہیں کرتا بالآ خر اسے پیشہ ورانہ امور میں کئی مشکلات دیکھنی پڑتی ہیں آر پی او وصال فخر سلطان نے ڈویژن بھر اور سی پی او اسرار عباسی نے ضلع راولپنڈی میں عوام فرینڈلی پولیسنگ کیلئے بڑا کام کیا لیکن سیف سٹی کی عمارت بنانے کیلئے سی پی او کا دفتر ہی گرادیا گیا جس کی تعمیر اس رفتار سے نہیں ہو رہی جو اس منصوبے کی تکمیل کیلئے مقرر کی گئی تھی جس سے عوام بھی مشکلات سے دو چار ہیں اسلام آباد میں نظر دوڑائیں تو وہاں آئی جی ڈاکٹر سلطان اعظم تیموری سے لے کر ایس ایچ او تک پبلک فرینڈلی پولیسنگ میں مگن ہے لیکن اس کے باوجود قتل کے واقعات سب سے زیادہ ہیں پڑھے لکھے شہر میں جب عدم برداشت کا یہ عالم ہوگا تو اس کی اسیسمنٹ بھی تو کسی سطح پر ہونی چاہئے فیض آباد سے کورال چوک تک اسلام آباد ایکسپریس وے عبور کرتے ہوئے روزانہ حادثات میں کئی افراد جاں بحق اور زخمی ہوتے ہیں لیکن اس میں جہاں سی ڈی اے کی ٹریفک روڈ انجینئرنگ کی بڑی ناکامی ہے وہیں پولیس بھی ذمہ دار ہے کہ وہ لوگوں کواس طرح سے ایجوکیٹ نہیں کرسکی کہ پانچ پانچ لین کی ایکسپریس وے پیدل عبور کرنا اپنی ہی زندگی سے دشمنی ہے ایس ایس پی ٹریفک ملک مطلوب نے وفاقی دارالحکومت کی سڑکوں اور شاہراہوں پر حادثات کی روک تھام کیلئیے کئی کام کئے انہیں اب ایکسپریس وے کے اطراف کوئی آگاہی مہم شروع کرنی چاہئے کیونکہ ایکپریس وے کے اس حصے پر سات اوور ہیڈ برج اورتین انٹر چینج بننے کے بعد بھی پیدل چلنے والوں کی زندگیاں اگر خطرے میں ہی رہیں توپھر عوام کے مسائل تو وہیں کے وہیں ہوئے مجموعی لحاظ سے نظر ڈالیں تو ہمارے ہاں پچھلے چند سالوں سے پولیس میں ٹھوس اور عملی اقدامات کی بجائے کاسمیٹک یعنی لیپا پوتی کی پولیسنگ ہورہی ہے جس سے عام آدمی کا ذرہ برابر بھی تعلق واسطہ نہیں پولیس لیڈر شپ کی ذمہ داری ہے کہ عوام کی نظروں اور شعور میں پولیس کی بہادری ، پولیس کے رول کی اہمیت اور وسائل کی فراوانی کے امورکو اجاگر کرے اور لیڈر شپ وہ قائدانہ صلاحیتیں دکھائے کہ ہماری پولیس اور پولیسنگ موم کی گڑیا نہ بن سکیں پولیس صرف پاکستان میں نہیں دنیا بھر میں اہم شعبہ ہے جس کا کام عوام کے جان مال کی دیکھ بھال اور مجرموں پر نگاہ رکھنا ہوتا ہے پولیسنگ کے سارے کام سی سی ٹی وی کیمروں میں ڈھونڈنے کی بجائے دانش اور ذہانت سے دیکھے جانے چاہئیں ہر جرم کی اپنی نفسیات ہے اس کے مجرم بھی مخصوص ہی ہوتے ہیں پولیس کبھی کھرے تلاش کرتی تھی تو اس کی نظر ہمیشہ زمین پر ہوتی تھی لیکن اب پولیس سر جھکار کر زمین پر کھرا نہیں سر اٹھا کرسی سی کیمرہ دیکھتی ہے جس کی وجہ سے جرائم سے متعلق زمینی حقائق اس سے اوجھل رہ جاتے ہیں ہمارے ہاں ایک ہی روائت چلی آرہی ہے کہ جو آئی جی جس صوبے میں لگ گیا بس اسی میں رہ کر کام کیا اور چلے گئے جبکہ آئی جی کو اپنے صوبے کے علاوہ ان صوبوں کے آئی جیز کے ساتھ بھی کانفرنس کرنی چاہئے جن کی حدود اس کے صوبے سے ملتی ہیں یعنی آئی جی پنجاب کو آئی جی سندھ ، آئی جی کے پی کے ، آئی جی اسلام آباد ، آئی جی آزاد کشمیر کے ساتھ مشترکہ میٹنگ طے کرکے جرائم کی نوعیت اور جرائم سے نمٹنے کی مربوط حکمت عملی اپنانی چاہئے اس ضمن میں وفاقی وزارت داخلہ کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے رابطہ اجلاسوں کیلئے اپنی پولیس لیڈر شپ کووہ سہولتیں بہم پنچائے جواس کیلئے قانونی تقاضا ہیں ۔