ہندوستانی سپریم کورٹ کے سابق جج اور پریس کونسل آف انڈیا کے چیئرمین جسٹس مُکندے کی بہکی بہکی باتیں پاکستان اور بانیان پاکستان کے خلاف زہریلا پراپیگنڈا سامنے آیا ہے۔ پاکستان کی سالمیت پر یہ کمزور حملہ کوئی پہلی مرتبہ نہیں ہوا۔ قیام پاکستان کے فوراً بعد اس کے دشمن اور بہی خواہ سر جوڑ کر بیٹھ گئے تھے اور بھانت بھانت کی بولیاں بول رہے تھے کہ پاکستان زیادہ دیر قائم نہیں رہ سکے گا۔ دشمن حسد کی آگ میں جل رہے تھے اور پاکستان کا قیام عمل میں آ رہا تھا۔ کسی نے آگ بگولا ہوکر کہہ دیا کہ ان کا جغرافیہ اور معیشت کی کمزوری بہت جلد پاکستان کو پھر سے ہندوستان سے ملنے پر مجبور کر دے گی۔ کوئی یہ سمجھ بیٹھا کہ پاکستان کے پاس موجود کم وسائل اس کو کمزور کر دیں گے اور بالآخر یہ صفحہ¿ ہستی سے مٹ جائے گا۔ ایخسے عزائم رکھنے والی نسل کی نمائندگی کرتے ہوئے مذکورہ بالا جسٹس اور چیئرمین انڈین پریس کونسل نے پاکستان کے مستقبل کے بارے میں جن بے بنیاد اور حقیقت کے برعکس خیالات کا اظہار کیا ہے۔ ان کو باطل اور گمراہ کُن کہنے میں مجھے کوئی عار نہیں اور اس بے خبر اور تاریخ سے ناواقف شخصیت نے یہاں تک ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ قائداعظم محمد علی جناحؒ کی ذات پر رقیق حملہ کرتے ہوئے انہیں انگریز کا ایجنٹ قرار دیا ہے۔ وہ شاید یہ نہیں جانتے کہ اُن کے اپنے ہندو قائداعظم محمد علی جناحؒ کو اپنے لیڈروں سے ایک سو درجہ زیادہ مضبوط لیڈر شمار کرتے تھے۔ قائداعظم کے کردار پر دلائل دینے کی بجائے میں انہیں یہ ترغیب دوں گا کہ وہ (Quaid-i-Azam in the eyes of his contemporaries) کو ضرور پڑھیں جس میں مسلمانوں کے علاوہ ہندو اور انگریز معاصرین نے بھی بے دھڑک ہوکر محمد علی جناح کی عظمت کو تسلیم کیا ہے اور دادِ تحسین بھی دی ہے۔ جسٹس مُکندے نے پاکستان کے قیام کو ہندوستان کی عارضی تقسیم قرار دے کر اپنی ڈھارس بندھانے کی ناکام کوشش کی ہے۔ ان کی ذہنی کیفیت پر شک ہونے کے باوجود میں انہیں کہتا ہوں کہ آپ پاکستان کے قیام کے مقاصد کو باالکل نہیں جانتے اور نہ ہی آپ ہمارے اساسی نظرےے سے واقف ہیں۔ مسلمانوں کے لیے برصغیر کی سرزمین پر ریاست مدینہ کی طرز پر قائم ہونے والی مملکت پاکستان کا تعلق براہِ راست الوہی نظام سے ہے۔ جو نظام واحدانیت کا قائل ہو وہ کس طرح سے متعصب مشرکین کی معیت میں چل سکتا ہے جن پر مسلمانوں نے ہزار سال تک حکومت بھی کی ہو۔ جب کبھی امن کی آشا اور محبت کے جھوٹے پیامبروں کو اور کوئی بات نہیں ملتی تو وہ عید اور ہولی کو ایک دوسرے سے تشبیہ دے کر راستہ ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یاد رہے مسلمانوں اور ہندوﺅں کے تہواروں کو خلط ملط کرکے انہیں ہرگز نہیں جوڑا جا سکتا کیونکہ تہواروں سے بڑھ کر نظریات اور عقائد کی اہمیت ہوا کرتی ہے۔ ہمارا طرزِ رہن سہن اور ثقافت سے لے کر مذہب کی تمام جزئیات ایک دوسرے سے اس قدر متضاد ہیں کہ باہم اکٹھے ہونا محال ہے اور پھر قائداعظمؒ کی قیادت اور ان کی مذہبی اپروچ پر کسی قسم کا شک و شبہ کرنا کم از کم سمجھدار شخص کے لیے مناسب نہیں۔
جس شاطرانہ انداز میں اس ہندو متعصب لکھاری نے اکبر بادشاہ کی بڑائی بیان کرکے اسے مسلمانوں کا آئیڈیل یا رہنما بنانے کی بات کی ہے تو جان لیجئے کہ تقسیم ہند کے اجلاس کے موقع پر لارڈ ماﺅنٹ بیٹن نے قائداعظمؒ کے سامنے اکبر بادشاہ کو آئیڈیل قرار دینے کی بات کی تھی تو آپ نے فوراً گرجدار لہجے میں فرمایا کہ ہمیں کسی اکبر کی طرف دیکھنے کی ضرورت نہیں اور نہ ہی ہمیں کسی ملاوٹ شدہ دین سے متاثرہ کیا جا سکتا ہے۔ ہمیں 1400 سال قبل دین محمدی کی صورت میں کامل نظام عطا کیا جا چکا ہے اور ہمارے لئے ازل و ابد ایک ہی ہستی ہمارے پیارے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفی رہنما و ہادی ہیں۔ آئندہ20 سالوں میں سرحد کے مٹ جانے کی خواہش رکھنے والے اس نام نہاد صحافی و دانشور کو پچھلے 65 سالوں کی تاریخ کیوں نظر نہیں آتی جس میں 2 یا 3 مرتبہ بھارتی ناپاک عزائم کو بھرپور طریقے سے خاک میں ملایا جا چکا ہے۔
پاکستان کی جری افواج اور غیور عوام کسی بھی سطح پر انتشار و افتراق بنیاد بنا کر ملک کو نقصان پہنچانے والی تمام طاقتوں کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں اور ہمارے پاس اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم اور اولیائے کرام کے فیضان کے باعث کچھ ایسی خصوصیات بھی ہیں جن کا کوئی بھی غیر مسلم‘ ہندو اور دشمن طاقت اندازہ بھی نہیں لگا سکتی۔ اسلام ایک مذہب سے بڑھ کر دین کی حیثیت میں مکمل نظامِ زندگی ہے جس میں سیاست و معیشت‘ کلچر و ثقافت سمیت تمام معاشرتی آداب و اصول مفصل طریقے سے واضح ہیں۔ سیکولرزم کی اصطلاح سے مسلمانوں کو بلیک میل کرنے کا زمانہ پرانا ہو چکا پاکستانی مسلمان اتنے باشعور ہیں کہ وہ اپنے مذہب سے پیوستگی کو برقرار رکھتے ہوئے اپنی مملکت اور اپنے نظریات کا دفاع کرنا جانتے ہیں۔ رہی بات جسٹس مُکندے کی طرف سے دیئے گئے دلائل کی تو اُس کیلئے صرف اتنا کہہ دینا ہی کافی ہے کہ ان کی تحریری خیالات میں کوئی چیز بھی نئی نہیں ان کے تمام تر دلائل وہی پرانے اور گھسے پٹے ہیں جنہیں روایتی طور پر کانگریس اور ہندو نواز گروہ تحریکِ پاکستان کے دوران استعمال کرتے رہے ہیں۔ اگر تب یہ ہتھیار کارگر نہ ہو سکا تو آج یہ کیونکر ممکن ہے؟
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024