میں شام سویرے پابندی کیساتھ ساحل سمندر پر چہل قدمی کا عادی تھا۔ چنانچہ تقریباً تین ماہ قبل جب میں حسب معمول شام کے وقت ہوا خوری سے واپس لوٹ رہا تھا تو ذرا تاخیر ہوگئی تھی اور مبارک مسجد سے اذان کی صدا بلند ہو رہی تھی چنانچہ مجھے اپنی رفتار ذرا تیز کرنا پڑی اور میں دنیا و مافیہاسے بے خبر ایک پگ ڈنڈی پر دندناتا ہوا چلا جا رہا تھا اتنے میں میری بدقسمتی سے آپس میں دوڑ لگاتی ہوئی دو گاڑیوں کے درمیاں میں ’’سینڈوچ‘‘ ہوگیا۔
وہ تو کہیے خیر ہوئی کہ میرے ستم گروں میں سے ایک شخص مسجد مبارک کا پابند نمازی تھا اور مجھے پہچانتا تھا چنانچہ اس نے یہ کرم کیا کہ مجھے میرے گھر پہنچا دیا۔ پھر اسکے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی میری جب آنکھ کھلی تو میں نے اپنے آپ کو اس حال میں پایا کہ میرا پورا جسم پٹیوں میں لپٹا ہوا تھا مگر انجیکشنوں کا یہ فیض تھا کہ اس وقت درد کا احساس نہ تھا اور میری آنکھیں کھل گئی تھیں اور میرے گھر والوں کے چہرے کھل گئے تھے۔
میری ٹانگوں کی متعدد ہڈیاں جواب دے چکی تھیں اور یہ بڑا سوالیہ نشان تھا کہ میں پھر اپنی ٹانگوں پر کبھی کھڑا ہو سکونگا۔ مگر ’’ضیاء الدین‘‘ ہسپتال کے عملہ کی داد دینی پڑتی ہے کہ انہوں نے دن رات کی محنت شاقہ کے بعد مجھے اس قابل کر دیا کہ میں کوئی سہارا لیکر اپنے پیروں پر کھڑا ہو سکوں مگر مجھے چلنے پھرنے کی صلاحیت میرے ایک ماتحت نے بخشی جو میرے پاس 1964ء سے ہے۔
عبدالمالک اپنی خوشی سے میر ے ساتھ مشرقی پاکستان بھی چلا گیا تھا جہاں پر ہم سقوط ڈھاکہ کے بعد جنگی قیدی بنا کر بھارت کے شہر بریلی میں ڈھائی برس تک زیر حراست رکھے گئے تھے۔
اس نے یہ کمال کیا کہ جب وہ مقید ہوا تو کسی طرح ہمارا کھوج لگاتا ہوا ہمارے ’’پنجرے‘‘ میں بھارت کے شہر بریلی پہنچ گیا۔ ہمارا قید خانہ 29 VIP Cage کہلاتا تھا۔ یعنی نہایت اہم لوگوں کا پنجرا نمبر 29 ہم ان کمبختوں کی نظر میں جنگلی جانور تھے۔
یہاں پر اس پنجرے اور اسکے کارستون کا کچھ حال بے محل نہ ہوگا۔
قیام پاکستان سے قبل میرے والد بزرگوار بریلی میں ڈسٹرکٹ جج رہے تھے اور میں نے وہاں اپنی تعلیم کی ابتدا کی تھی۔
مگر سب سے زیادہ زیادتی سید علمدار رضا کے ساتھ ہوئی تھی جو اسیری سے قبل کمشنر ڈھاکہ تھے۔ وہ نہ صرف بریلی کی پیداوار تھے بلکہ اس شہر میں اپنی تعلیم بھی مکمل کی تھی۔ ان کے یوم ولادت پر مفلسی کے سبب کوئی تحفہ تو پیش نہ کر سکا مگر حسب حالات مندرجہ ذیل قطعہ نذر کر دیا۔
ہو مبارک تمہیں یہ یوم ولادت اپنا
یہ بریلی ہے نہیں دیکھ رہے ہو سپنا
پاک بھارت کی ہوئی جنگ تمہاری خاطر
بن گیا جشن جو تھی درگھٹنا
بھارت کی قید سے رہائی کے بعد پھر عبدالمالک میرے ساتھ نتھی ہوگیا ہے اور آج جو میں دوبارہ اپنی ٹانگوں پر کھڑا ہوگیا ہوں اس میں اللہ تعالیٰ کے فیض کے علاوہ اسکی خدمت کا بھی بڑا عمل دخل ہے۔ وہ نہ صرف تقریباً چوبیس گھنٹے میری خدمت پر مامور رہتا ہے بلکہ وقتاً فوقتاً میری ٹانگوں کی مالش کرتا ہے اور صبح و شام چھڑی کے سہارے مجھے ٹہلاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ عبدالمالک کو اجر عظیم دے۔
وہ تو کہیے خیر ہوئی کہ میرے ستم گروں میں سے ایک شخص مسجد مبارک کا پابند نمازی تھا اور مجھے پہچانتا تھا چنانچہ اس نے یہ کرم کیا کہ مجھے میرے گھر پہنچا دیا۔ پھر اسکے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی میری جب آنکھ کھلی تو میں نے اپنے آپ کو اس حال میں پایا کہ میرا پورا جسم پٹیوں میں لپٹا ہوا تھا مگر انجیکشنوں کا یہ فیض تھا کہ اس وقت درد کا احساس نہ تھا اور میری آنکھیں کھل گئی تھیں اور میرے گھر والوں کے چہرے کھل گئے تھے۔
میری ٹانگوں کی متعدد ہڈیاں جواب دے چکی تھیں اور یہ بڑا سوالیہ نشان تھا کہ میں پھر اپنی ٹانگوں پر کبھی کھڑا ہو سکونگا۔ مگر ’’ضیاء الدین‘‘ ہسپتال کے عملہ کی داد دینی پڑتی ہے کہ انہوں نے دن رات کی محنت شاقہ کے بعد مجھے اس قابل کر دیا کہ میں کوئی سہارا لیکر اپنے پیروں پر کھڑا ہو سکوں مگر مجھے چلنے پھرنے کی صلاحیت میرے ایک ماتحت نے بخشی جو میرے پاس 1964ء سے ہے۔
عبدالمالک اپنی خوشی سے میر ے ساتھ مشرقی پاکستان بھی چلا گیا تھا جہاں پر ہم سقوط ڈھاکہ کے بعد جنگی قیدی بنا کر بھارت کے شہر بریلی میں ڈھائی برس تک زیر حراست رکھے گئے تھے۔
اس نے یہ کمال کیا کہ جب وہ مقید ہوا تو کسی طرح ہمارا کھوج لگاتا ہوا ہمارے ’’پنجرے‘‘ میں بھارت کے شہر بریلی پہنچ گیا۔ ہمارا قید خانہ 29 VIP Cage کہلاتا تھا۔ یعنی نہایت اہم لوگوں کا پنجرا نمبر 29 ہم ان کمبختوں کی نظر میں جنگلی جانور تھے۔
یہاں پر اس پنجرے اور اسکے کارستون کا کچھ حال بے محل نہ ہوگا۔
قیام پاکستان سے قبل میرے والد بزرگوار بریلی میں ڈسٹرکٹ جج رہے تھے اور میں نے وہاں اپنی تعلیم کی ابتدا کی تھی۔
مگر سب سے زیادہ زیادتی سید علمدار رضا کے ساتھ ہوئی تھی جو اسیری سے قبل کمشنر ڈھاکہ تھے۔ وہ نہ صرف بریلی کی پیداوار تھے بلکہ اس شہر میں اپنی تعلیم بھی مکمل کی تھی۔ ان کے یوم ولادت پر مفلسی کے سبب کوئی تحفہ تو پیش نہ کر سکا مگر حسب حالات مندرجہ ذیل قطعہ نذر کر دیا۔
ہو مبارک تمہیں یہ یوم ولادت اپنا
یہ بریلی ہے نہیں دیکھ رہے ہو سپنا
پاک بھارت کی ہوئی جنگ تمہاری خاطر
بن گیا جشن جو تھی درگھٹنا
بھارت کی قید سے رہائی کے بعد پھر عبدالمالک میرے ساتھ نتھی ہوگیا ہے اور آج جو میں دوبارہ اپنی ٹانگوں پر کھڑا ہوگیا ہوں اس میں اللہ تعالیٰ کے فیض کے علاوہ اسکی خدمت کا بھی بڑا عمل دخل ہے۔ وہ نہ صرف تقریباً چوبیس گھنٹے میری خدمت پر مامور رہتا ہے بلکہ وقتاً فوقتاً میری ٹانگوں کی مالش کرتا ہے اور صبح و شام چھڑی کے سہارے مجھے ٹہلاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ عبدالمالک کو اجر عظیم دے۔