قومی معیشت پر حکومت اور اپوزیشن کی پوائنٹ سکورنگ کی سیاست
قومی معیشت کے اعداد و شمار کے حوالے سے گزشتہ روز حکومت اور مسلم لیگ (ن) کے مابین ایک دوسرے پر پوائنٹ سکورنگ کی سیاست گرم ہو گئی۔ مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں شہبازشریف‘ سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی‘ سیکرٹری جنرل احسن اقبال اور دوسرے پارٹی قائدین نے اپنی پارٹی کے زیراہتمام منعقدہ پری بجٹ سیمینار میں شرح نمو بڑھنے سے متعلق حکومتی اعداد و شمار کو جعلی قرار دیا اور کہا کہ حکومت نے مہنگائی میں تین گنا اور کھانے پینے کی اشیاء میں پانچ گنا اضافہ کیا ہے۔ قومی معیشت کا حجم 313‘ ارب ڈالر تھا جسے حکمرانوں نے نیچے لا کر 296‘ ارب ڈالر کر دیا۔ انکے بقول شرح نمو منفی ہو گئی ہے۔ اس بارے میں حکومت کے اعداد و شمار محض الفاظ کا گورکھ دھندا ہیں۔ انہوں نے بجٹ میں نئے ٹیکس نہ لگانے اور بجلی‘ گیس کے نرخ نہ بڑھانے کا تقاضا کیا۔
اسکے برعکس وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین اور دوسرے وفاقی وزراء حماداظہر اور مخدوم خسرو بختیار نے گزشتہ روز مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کے پری بجٹ سیمینار کو آڑے ہاتھوں لیا اور کہا کہ ملکی معیشت کا بیڑہ غرق کرنیوالی مسلم لیگ (ن) کی ٹیم نے اس سیمینار کا انعقاد کیا ہے جس میں غلط ڈیٹا پیش کرکے حکومت کی کارکردگی عوام کی نگاہوں میں گھٹانے کی کوشش کی گئی ہے۔ انکے بقول مسلم لیگ (ن) کے دور میں ملکی معیشت کو 20‘ ارب ڈالر کا نقصان ہوا جبکہ اسحاق ڈار کی غلطیاں عمران خان نے بھگتیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم دکھائیں گے‘ غربت کیسے ختم ہوتی ہے‘ ہم ریونیو کا ہدف سات ٹریلین روپے مقرر کرینگے اور ٹیکس پر ٹیکس کی بجائے ٹیکس نیٹ وسیع کرینگے۔ انکے بقول شرح نمو آئندہ سال پانچ اور اس سے اگلے برس چھ فیصد تک لے جائینگے۔ مسلم لیگ (ن) نے مصنوعی طریقے سے روپیہ کو کنٹرول میں رکھا اور قرضے لے کر معیشت بہتر دکھائی جبکہ ہم نے شارٹ اور لانگ ٹرم دونوں پالیسیاں اختیار کی ہیں۔
اس وقت جبکہ وفاقی اور صوبائی میزانیوں کی تیاریاں آخری مراحل میں ہیں حکومت کیلئے ان میزانیوں کو عوام دوست بنانا بہت بڑا چیلنج ہے۔ یہ پی ٹی آئی حکومت کا تیسرا بجٹ ہے اور اسکے پہلے دو میزانیوں کو پیش نظر رکھا جائے تو عوام فطری طور پر اس تشویش میں مبتلا ہیں کہ اگر پہلے دو میزانیوں کی طرح موجودہ آنیوالے بجٹ میں بھی مروجہ ٹیکسوں کی شرح بڑھا کر اور نئے ٹیکس لگا کر مہنگائی کے دروازے کھولے گئے تو ان کیلئے سکھ کا سانس لیتے ہوئے زندہ رہنا عملاً دشوار ہو جائیگا۔ شوکت ترین کو وزارت خزانہ کا قلمدان سنبھالے بمشکل تین ماہ کا عرصہ گزرا ہے جس سے قبل وہ بھی حکومت کی اقتصادی پالیسیوں سے مطمئن نہیں تھے۔ بالخصوص آئی ایم ایف سے مشروط قرضوں کی حکومتی پالیسی کے وہ ناقد تھے اور انہوں نے وزارت خزانہ کا قلمدان بھی اپنی شرائط پر قبول کیا چنانچہ اقتصادی امور میں انکے وسیع تجربے کی بنیاد پر حکومت ہی نہیں‘ عوام کو بھی ان سے قومی معیشت کی بحالی کیلئے بے پناہ توقعات وابستہ ہوئیں۔ انہوں نے وزارت خزانہ کا قلمدان سنبھالنے کے بعد پہلا اعلان قرض کے ساتھ منسلک آئی ایم ایف کی شرائط پر نظرثانی کا کیا اور سرکاری ملازمین پر ٹیکس بڑھانے کی آئی ایم ایف کی شرط مسترد کردی۔
دو ہفتے قبل انہوں نے قومی معیشت کی بحالی اور گروتھ ریٹ (شرح نمو) بڑھ کر چار فیصد تک جا پہنچنے کا دھماکہ کیا۔ جب اپوزیشن کی جانب سے اس پر تنقید کا سلسلہ شروع ہوا تو سٹیٹ بنک نے بھی شرح نمو چار فیصد ہونے کی تصدیق کر دی چنانچہ حکومت کو اپوزیشن پر پوائنٹ سکورنگ اور اپنی کامرانی کے ڈنکے بجانے کا موقع مل گیا۔ خود وزیراعظم عمران خان حکومتی کامرانی کے اس جشن میں پیش پیش رہے جبکہ مسلم لیگ (ن)‘ پیپلزپارٹی‘ جمعیت علماء اسلام (ف) اور دوسری اپوزیشن جماعتوں کے قائدین نے اقتصادی ترقی کے حکومتی دعوئوں کو دیوانے کی بڑ قرار دینا شروع کر دیا۔ حکومت کی جانب سے تو قومی معیشت میں اپنی کامرانیوں کے دعوئوں کا سلسلہ بدستور جاری ہے جس سے فطری طور پر عوام کی غربت اورمہنگائی میں ریلیف کے حوالے سے آنیوالے میزانیوں کے ساتھ توقعات وابستہ ہو گئی ہیں جبکہ حکومتی دعوئوں نے ان توقعات کو مہمیز لگائی ہے۔ اگر حکومت اپنے دعوئوں اور اعلانات کے مطابق اپنے تیسرے بجٹ کو عوام دوست بجٹ بنانے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو عوام کا حکومت پر اعتماد بڑھے گا اور اپوزیشن کی ممکنہ حکومت مخالف تحریک کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہے گی۔ تاہم اگر بجٹ سابقہ میزانیوں کی طرح اعداد و شمار کا گورکھ دھندہ ہی نظر آیا اور آئی ایم ایف کی شرائط کے مطابق بجٹ میں مروجہ ٹیکس بڑھے اور نئے ٹیکسوں کی بھرمار نظر آئی اور اسکے برعکس تنخواہ دار‘ تاجر اور مزدور طبقات کو اپنے لئے ریلیف کی بجائے مایوسی کا سامنا کرنا پڑا تو اس سے عوامی اضطراب کی نئی لہر اٹھ سکتی ہے جس سے آج کی اپوزیشن کو اپنی صفوں میں انتشار کے باوجود عوام کو حکومت مخالف تحریک کیلئے سڑکوں پر لانے کا موقع مل جائیگا۔ عوام تو اس وقت بھی عملاً مہنگائی کے ہاتھوں زچ ہو چکے ہیں اور اب بجلی کی لوڈشیڈنگ کا سلسلہ بھی شروع ہو چکا ہے جو عوامی اضطراب بڑھانے کا باعث بن سکتا ہے۔ اسی طرح سٹیٹ بنک کی سہ ماہی رپورٹ بھی اقتصادی ترقی کے معاملہ میں کوئی زیادہ حوصلہ افزا نہیں جس میں مہنگائی 9 فیصد اور بجٹ خسارہ سات اعشاریہ پانچ فیصد تک رہنے کی توقع ظاہر کی گئی ہے جس کی بنیاد پر عوام دوست بجٹ کی تو ہرگز توقع نہیں کی جا سکتی جبکہ مہنگائی کے حوالے سے وفاقی ادارہ شماریات کی رپورٹ بھی تشویشناک ہے جس کے بقول ملک میں ایک سال کے دوران مہنگائی کے طوفان اٹھے ہیںاور مہنگائی کی شرح دس عشاریہ 87 فیصد پر جا پہنچی ہے۔ اس تناظر میں حکومت کو قومی معیشت کی ترقی کے دعوئوں پر ہی صاد کرکے نہیں بیٹھ جانا چاہیے بلکہ اسے بجٹ میں ریلیف کی صورت میں عوام کو مطمئن کرنے کے چیلنج سے عہدہ برأ ہونا ہے۔ آپ عوام کو مطمئن کرلیں گے تو اپوزیشن کے عوامی تحریک سے متعلق سارے پروگرام دھرے کے دھرے رہ جائینگے۔