جدہ کی ڈائری ۔ امیر محمد خان
کروناءوائرس سے بیرون ملک پاکستانی ہر ملک سے اپنے وطن کو واپس جانا چاہتے ہیں۔ وہ تمام پاکستانی جو معاشی مشکلات کی بناءپر اپنی ملازمتیں کھو چکے ہیں۔ وہ تمام پاکستانی جو بیمار ہیں اور عام حالات میں پاکستان جانا چاہتے تھے ، وہ تمام میتیں جو کرونا ءوائرس کی بناء پر رضاءالہی سے ہم سے جدہ ہوگیں انکے اہل خانہ وطن میں منتظر تھے ، جہازوں کو سعودی عرب میں مسافر لانے کی اجازت نہیں تھی ۔اسلئے جب ہوائی سفر یک طرفہ ہوگا تو ائرلائنز کو نقصان تو ہوگا ، مگر بہ حیثیت پاکستانی ہم کسی دوسر ے ملک کی ائر لائنز کو پابند تو نہیں کرسکتے کہ وہ یہ خصارہ برداشت کرے۔ مگر اپنی ملک کی ائر لائنز کو ضرور پابند کرسکتے ہی چونکہ یک طرفہ سفر کرنے والے پاکستانی ہیں جنہوں نے اس ملک کو ایک خطیر ذرمبادلہ فراہم کیا ہے ۔ اس ائر لائنز کو اچھے حالات میں اربوںروپے فراہم کئے ہیں جس سے اس ائرلائینز میں اربوں روپے کی کرپشن بھی ہوئی، بڑی بڑی تنخواہیں بھی وصول کیں۔ عوامی زبان میں یوں کہا جاسکتا ہے کہ خوب جی بھر کے ”عیاشی کی “ اور اسکا سلسلہ تاحال جاری ہے اس ہنگامی صورتحال میں اب اس ائرلائن کا فرض ہے کہ وہ ان تارکین وطن جنکا ”راگ “ اور اعلی مقام دینے کا راگ ہر حکومت دیتی ہے ۔ اگر اسکا وزیر یہ کہے کہ اگر بیرون ملک سے آنے والوںکے پاس مہنگا کرایہ نہیں ہے تو وہ پاکستان نہ آئین ، یہ ایک نہائت شرم انگیز بیان ہے ، جسے وہ ہی محسوس کرسکتا ہے جسے شرم آتی ہو۔ ایک طرف وزیر اعظم پاکستان عمران خان ہر بیان و تقریر میں بیرون ملک پاکستانیوں کے دھک کو رحم کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ان ہی کی کابینہ کا ایک وزیر اسطرح کا اونٹ پٹانگ بیان دے دیتا ہے حکومت بنانے کیلئے ”مانگے تانگے “ کے وزراء اور اراکین اسمبلی ہوںتو ایسا ہی ہوتا ہے ۔ وطن جانے والوںکو اسوقت بھی لیٹرون نے بہت لوٹا ، قرنطینہ کے نام پر ہوٹلوںکی رہائش گاہ ، کھانے پینے کے نرخون پر خوب چاندی کی گئی ، حکومت کے چونکہ ہاتھ پیر پھولے ہیں وہ ہر جگہ بیٹھے کرپٹ اورانسانیت دشمن لوگوں کو روک نہ سکی ، قرنطین کرنے کی سہولیات کم ہیں جس بناءپر بڑی تعداد میں حکومت انہیں ملک میں خوش آمدید نہیں کہہ سکتی ، اس صورتحال سے ایک عام آدمی واقف نہیںہوتا اور تمام پریشانیوں ، اور شکائت کا محور سفارت خانہ یا قونصلیٹ بن جاتاہے ، حکومت دسترس سے باہر ہے اسلئے بیرون ملک تعنیات سفارت کار ہی نشانہ بنتے ہیں اور مشکلات کا شکار ہوتے ہیں یہ اور بات ہے کہ نوکر شاہی کو crises managent کا تجربہ کم ہی ہوتا ہے ۔ سعودی عرب میں گزشتہ دنوں سفیر پاکستان راجہ علی اعجاز کے خلاف کچھ نابلد اور صحافت کا تجربہ نہ رکھنے والوں نے ایک مہم چلائی ، جس میں وہ کسی معتبر اخبار یا الیکٹرانک چینل کو تو استعمال کرنے کی سکت نہیں رکھتے تھے سو شل میڈیا جو ا نکی دسترس میں تھا اسے استعمال کیا گیا ، جو ایک بہت ہی افسوسناک اور قابل مذمت اقدام تھا ۔ پاکستانی حکومت کی منظوری سے میزبان ملک نے نہ تمام تر سہولیات پہنچائیں، سعودی حکومت نے نہ صرف پاکستان بلکہ اس ہنگامی دور میں خادم حرمین الشریفین کی ہدائت پر تمام تارکین وطن کیلئے علاج مفت کردیا چاہے وہ یہاں قانونی طور پر رہائش پذیر یہ غیر قانونی طور پر ، سعودی اداروںنے بڑے بڑے کیمپس میں جہا ں کارکنوںکی بڑی تعداد موجود تھی اور لاک ڈاﺅن کی وجہ سے گھروںپر بیٹھے تھے انہیں خوراک پہنچائی، ضرورت مند پاکستانیوںکی بڑی تعداد میں پاکستان سفارت خانہ اور قونصل خانہ نے جہاںجہاں اطلاعات آئیں ، پاکستانی مخیر حضرات کے تعاون سے کھانا گھرون خو پہنچایا ، ویلفئیر قونصلر ماجد میمن ، قونصل کمرشیل واحد شاہ اور دیگر افسران کو جدہ میں قونصل جنرل خالد مجید کی ہدائت پر سرگرم پایا ، یہ ہی صورتحال ریاض اور قرب جوار یہاں تک مدینہ المنورہ جو سفارت خانہ کے علاقے میں نہیں آتا وہاں بھی کھانا پہنچانے کا انتظام سفارت خانہ اور قونصل خانہ نے کیا ، مخیر پاکستانیوں، یہاں PTI کے چند کارکنوں کی مدد سے یہ پاکستانیوںکی مدد کا کام انجام دیا ، فہرستیں مرتب کیں ان پاکستانیوںکی جو وطن جانا چاہتے تھے ، ی سلسلہ ا ب تک جاری ہے ، مطلوبہ ائرکرافٹ حاصل کرنے کیلئے اسلام آباد میں متعلقہ محکوموں سے رابطہ کیا گیا۔اور یہ سلسلہ اب تک جاری ہے ،یہ اقدامات قابل ستائش ہیں ، ( کبھی کبھی تو کام کرنے کا موقع ملتا ہے ) اپنی جانب سے سفارت کاروں اور دیگر افسران ، نے بھر پور کوششیں کیں ان مثبت پہلوﺅں کو اجاگر کرنا نہائت ضروری ہے تاکہ مثبت کام کرنے والوں کی حوصلہ افزائی ہو۔یہاں ایسے سفارت کار بھی دیکھے ہیں جو صرف تنخواہ سے مطلب رکھتے ہیں اور اپنا دورانیہ مکمل کرکے ، اور کچھ تو اپنا ”ٹارگیٹ “ حاصل کرکے( مثبت یا منفی طریقوں سے )گھر وںکو روآنہ ہوگئے، سفیر پاکستان ریاض میں اور قونصل جنرل جدہ میں ہر پاکستانی فلائت پر خدا حافظ کہنے کیلئے ہوائی اڈوں پر اپنے افسران کے ہمراہ موجود رہے ۔ ائیر پورٹ پر پاکستانی سفیر راجہ علی اعجاز نے مسافروں کو روانہ کرتے ہوئے بتایا کہ اب تک دارلحکومت ریاض سے آٹھ مختلف پروازوں کے ذریعے 1434 پاکستانیوں کو وطن بھیجا جاچکا ہے اور آج پشاور کی خصوصی پرواز میں 20 ڈیڈ باڈیز بھی بھیجی گئی ہیں جبکہ آئندہ دنوں میں بھی خصوصی پروازوں کے ذریعہ میتوں کو بھیجا جاے گا ہماری کوشش ہے کہ ایسے وہ تمام افراد جن کی جاب ختم ہوچکی ہے یا وہ کسی ایمرجنسی کی وجہ سے وطن واپس جانا چاہتے ہیں انہیں ترجیح دی جا رہی ہے ائیر پر مسافروں کی جانب سے وطن واپسی پر جذباتی مناظر بھی دیکھے گئے متعدد افراد نے قومی پرچم کو بوسہ دیا اور پاکستانی سفیر کا شکریہ ادا کیا۔سفیر پاکستان جب کسی ہسپتال یا ائر پورٹ جاتے تھے تو پاکستانی نہ صرف انکا شاندار استقبال کرتے تھے بلکہ انکی گاڑی پر لگے سبز ہلالی پرچم کو بوسہ دیتے تھے ۔
سعودی عرب میں زلفی بخاری نے ٹائیگر فورس قائم کردی
وزیر اعظم پاکستان کے معاون خصوصی برائے سمندر پار پاکستانی سید زلفی بخاری معاون خصوصی برائے اوورسیزز منسٹری نے کورونا وائرس کی عالمی وبا کے باعث سعودی عرب میں رہنے والے پاکستانیوں کی معاونت کے لئے اپنی وزارت کی جانب سے فوکل پرسن مقرر کیے۔تاکہ وہ اپنے ہم وطنوں کو لاک ڈاون کے باعث کام نہ ہونے کیوجہ سے راشن وغیرہ کی قلت تھا جس پر سید زلفی بخاری نے
نوید شریف فوکل پرسن اوورسیز منسٹری آف پاکستان کی سربراہی میں راشن ریلیف ٹائیگرز فورس قائم کی جسکی سعودی عرب میں راشن تقسیم کرنے اور باقی مسائل میں معاونت کے لئے انجم اقبال وڑائچ صدر راشن ریلیف ٹائیگرز فورس نے مملکت سعودی عرب کے ہر شہر میں ایک ٹیم تشکیل دی انجم اقبال وڑائچ نے بتایا کہ اس میں معفصر نبیل دمام شہر ، ، اشفاق وحید خان ویسٹرن ریجن ، شیراز حسین مکہ المکرمہ ، میاں افضال عزیز مدینہ المنورہ، مالک امجد اقبال اعوان ریاض شہر ، انصر اقبال مغل بحرہ ، یاسر عرفات گوندل رابغ ، محترمہ شمایلہ شہزاد۔ جدہ ،اور بدر عالم بھٹی مغربی صوبہ کیلئے نامزد کئے ہیں جو ہم وطنوں کو راشن کیساتھ ہر قسم کی معاونت بھی فراہم کررہے ہیں اس میں پاکستانی سفارتخانہ اور قونصل جنرل جدہ کی جانب سے بھی معاونت اور رہنمائی فراہم کی جارہی ہے ۔
سعودی عرب میں مساجد میں احتیاطی تدابیر
ادھر سعودی عرب میں کورونا سے بچا¶ کے لیے کرفیو اور لاک ڈاون محدود کر کے احتیاطی تدابیر کے ساتھ حرمین کے علاوہ دیگر مساجد میں باجماعت نمازوں کی اجازت دیے جانے کے بعد مسجد نبوی میں انتظامیہ کی جانب سے کیے جانے والے خصوصی انتظامات پر عمل جاری ہے۔مسجد نبوی میں نمازوں کی ادائیگی کے لیے آنے والوں کی سکریننگ جہاں خودکار مانیٹرنگ سسٹم کے ذریعے کی جا رہی ہے وہیں ہلال الاحمر کے اہلکار بھی انفرادی طور پر آنے والوں کے جسمانی درجہ حرارت نوٹ کر رہے ہیں۔مساجد میں آنے والے نمازیوں کے جسمانی درجہ حرارت کو نوٹ کر کے انہیں نماز باجماعت میں شرکت کی اجازت دی جاتی ہے۔اس ضمن میں خواتین رضا کار اہلکاروں کو بھی تعینات کیا گیا ہے جو نماز کی ادائیگی کے لیے آنے والی خواتین کے جسمانی درجہ حرارت کو نوٹ کرتی ہیں۔مسجد نبوی میں خواتین کے حصے میں خودکار سینیٹائزنگ یونٹ بھی نصب کیا گیا ہے جس کی تیاری میں جدید ترین ٹیکنالوجی استعمال کی گئی ہے۔یاد رہے سعودی وزارت صحت کی جانب سے مساجد میں باجماعت نماز کی ادائیگی کے لیے ایس او پیز جاری کیے گئے ہیں جن کے تحت ہر نمازی اپنی جائے نماز ساتھ لانے کا پابند ہے جبکہ مسجد آنے والوں کےلیے لازمی ہے کہ وہ ماسک استعمال کریں اگر ماسک نہیں ہے تو عربی رومال جسے ’شماغ‘ کہا جاتا ہے اس کے ذریعے بھی منہ اور ناک کا حصہ لپیٹا جاسکتا ہے۔