رمضان المبارک گرمی میں آیا۔ عیدالفطر بھی سخت گرمی میں منائی جائے گی۔ رمضان کا مہینہ عبادت کا تصور پیش کرتا ہے۔ اسکی ٹھیک انجام دہی روزہ دار کو کثافت اور الائش سے پاک کر کے نفس کو ہلکا کر دیتی ہے۔ اسلام سادگی پسند دین ہے، اسکی طرز عبادت خاموشی ہے، شور نہیں، اس کی تبلیغ مثالی عمل سے ہوتی ہے۔ رمضان المبارک میں سحری کیلئے جگانے کی روایت جاری ہے۔ حالانکہ آج سائنسی ایجادات کی وجہ سے رات کے کسی حصے میں نیند سے بیدار کرانے میں سہولتیں مہیا ہیں۔ یہ شب بیدار لوگ خدمت خلق کی خاطر رمضان میں سحری میں اٹھانے کیلئے گلی گلی کوچے کوچے ڈھول، کنستر یا چمٹے کی دھن پر گیت گاتے ہوئے پھرتے ہیں اور لوگوں کو جگاتے ہیں۔ انکی اس شب گشت سے لوگ بیدار ہو کر سحری کرنے میں سہولت محسوس کرتے ہیں۔ اسی ماہ کے آخری عشرے میں شب قدر آتی ہے ۔ شب قدر کی بزرگی اسکے نام ہی سے ظاہر ہے۔ یہ رات سال بھر میں ایک مرتبہ آتی ہے۔ حدیثوں سے پتا چلتاہے کہ شب قدر رمضان المبارک کی آخری دس طاق راتوں میں ہوتی ہے۔ قرآن کریم میں ہے۔ ترجمہ: ’’ہم نے اس کو لیلتہ القدر میں نازل کیا‘‘ اسے شب (لیل) سے اس لیے تعبیر کیا گیا ہے کہ جس زمانے میں انسانوں کے پاس خدا کی وحی کی روشنی نہ رہے، وہ اندھیری رات کی طرح تاریک ہوتا ہے۔ وحی کی روشنی آتی ہی تاریکیوں کے بعد ہے۔ وحی کا مقصد یہی ہوتا ہے کہ نوع انسانی کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لے آئے۔
دوسرا لفظ ’’قدر‘‘ ہے جس کے معنی ہیں پیمانہ۔ یعنی قرآن نے نوع انسان کو حق و باطل کے ماپنے کے صحیح صحیح پیمانے عطا کیے ہیں۔ اس نے وہ مستقل اقدار دی ہیں جن کیمطابق زندگی بسر کرنا مقصود انسانیت ہے۔ لیلتہ القدر جس میں قرآن نال ہوا، اسکو ہزار راتوں سے بہتر کہا گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ نزول قرآن سے انسانی تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ ہوا ہے۔ یہ نعمت دنیا بھر کی نعمتوں کے مقابل میں گراں قدر ہے، جنہیں انسان جمع کرتا رہتا ہے۔ یہ اس تمام علمی سرمائے سے بہتر ہے جسے نوع انسان آج تک جمع کر سکی ہے اور جو وراثتاََ اس تک منتقل ہوتا چلا آ رہا ہے۔ اسکی مثل و نظیر دنیائے فکر و عمل میں کہیں نہیں مل سکتی اس لیے اسکے ملنے پر خوشیاں منائی جاتی ہیں ۔ رمضان اور اسکی عید درحقیقت نزول قرآن کا جشن ہے۔ العید، وہ وقت جس میں خوشی یا غم لوٹ کر آئے۔ عید ہی مسلمانوں کا وہ پہلا بڑا اجتماع ہے جو کہ مسلمانوں کو ایک جنگ کی فتح کے بعد نصیب ہوئی ۔ عید کابڑا اجتماع مسلمانوں میں اخوت، رواداری، بھائی چارے، محبت و مروت اور اتحاد و اتفاق کا آئینہ دار ہے۔ عید کے موقع پر توحید و رسالت کے پیغام کو فروغ دینے کیلئے اور عظمت الٰہی کا اعتراف کرنے کیلئے تکبیریں پڑھی جاتی ہیں تا کہ دین اسلام کا پرچار بھی خوشیوں اور مسرتوں کے ساتھ جاری رہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ عیدالفطر کے اس عظیم الشان موقع پر اس عزم کا اعادہ کریں کہ ہم اللہ تعالیٰ کے احکامات کی پیروی کرینگے اور اسلامی تعلیمات کو زندگی کا طرہ امتیاز بنائینگے۔ پاکستان کا قیام 27 رمضان المبارک کو ہوا اور اسکے بعد 18 اگست 1947ء میں پاکستانی مسلمانوں کو عیدالفطر ادا کرنے کا پہلا موقع ملا۔ گویا رمضان المبارک کی رحمتوں میں پاکستان بھی اللہ تعالیٰ کی رحمت کا ایک نزول ہے۔ اس موقع پر ہمیں اس بات کا عہد کرنا چاہیے کہ وہ اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کرینگے اور اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ اس ملک کی سلامتی کیلئے ہر ممکن کوشش کرینگے۔ اگر کوئی پوچھے کہ وہ سب سے بڑی چیز جو قرآن نے انسان کو دی ہے، کیا ہے؟ تو ایک مختصر سے فقرہ میں اس کا جواب یہ ہو گا کہ قرآن نے انسان کو اسکے صحیح مقام سے آگاہ کیا۔ رشک صد عید ہے وہ ساعت جس میں دنیا کو ایک پیام حیات ملا۔ آپ دنیا بھر کی قوموں کے جشن مسرت کے تہواروں کو دیکھو۔ ان میں یا تو کسی انسان کی یادگار کا جذبہ پنہاں ہو گا یا مظاہر فطرت کی نیرنگیوں کی تقریب یا نئے موسم کا استقبال، لیکن انسانوں کی یادگا ریں مٹ سکتی ہیں۔ دنیاوی واقعات بھلائے جا سکتے ہیں۔ تاریخ کے صفحات گم ہو سکتے ہیں۔ بڑی بڑی چٹانوں پر گاڑی ہوئی لاٹھیں اور ان لاٹھوں پر کندہ کی ہوئی داستانیں زمانہ کے ہاتھوں تباہ ہو سکتی ہیں لیکن خدا کا وہ ازلی و ابدی پیغام جو قرآن کی دفتین میں محفوظ کر دیا گیا ہے، کبھی مٹ نہیں سکتا کیونکہ اسکی حفاظت کی ذمہ داری خود اس نے لی ہے جو زندہ ہے، کبھی مر نہیں سکتا۔ جو قائم ہے، کبھی فنا نہیں ہو سکتا، وہ باقی ہے، اسکا پیام بھی باقی ہے۔ وہ زندہ ہے، اس کا کلام بھی زندہ ہے۔ یہ جشنِ عید اسی خدائے حیّ و قیوم کے زندہ قرآن کے نزول کی یادگار ہے اور جب تک دنیا رہے گی، یہ یادگار بھی باقی رہے گی۔علامہ اقبال کی نظم ’’ہلالِ عید‘‘ کے ابتدائی چند اشعار پیش ہیں:۔؎
غرۂ شوال! اے نورِ نگاہ روزہ دار
آ کہ تھے تیرے لیے مسلم سراپا انتظار
تیری پیشانی پہ تحریر پیام عید ہے
شام تیری کیا ہے، صبح عیش کی تمہید ہے
سرگزشتِ ملتِ بیضا کا تو آئینہ ہے
اے مہ نو! ہم کو تجھ سے الفت دیرینہ ہے
پس نوشت: 15 مئی کو میرا کالم بعنوان ’’چاند اور قمری کیلنڈر‘‘ شائع ہوا۔ اس کالم میں قرآن کریم اور سائنس کے حوالے سے چاند کی منازل کو بیان کیا گیا۔ میرے اس کالم کے بارے میں وزارت سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کی طرف سے لیٹر موصول ہوا ہے جس میں وفاقی وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی چوہدری فواد حسین نے قمری کیلنڈر کی حمایت کرنے پر شکریہ ادا کیا ہے۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38