فیشن کہیں جسے
فیشن کا لفظی مطلب ’’نیا انداز‘‘ ہے۔ اس سے مراد وہ رواج‘ دستور یا طریقہ ہے جو وقت کے ساتھ ساتھ ڈھلتا اور بدلتا رہتا ہے۔ اس میں نئی نئی اختراعات ہوتی رہتی ہیں اور جو چیز ایک وقت میں ہردلعزیز سمجھی جاتی ہے کچھ ہی دنوں بعد اسے متروک سمجھ کر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ پہلے پہل فیشن کو صرف لباس کی حد تک ہی لیا جاتا ہے۔ ڈیزائنرز لباس میں اوٹ پٹانگ تبدیلیاں کر کے اسے جدت دیتے رہتے تھے۔ اب یہ کام بالوں‘ جوتوں‘ بیگز‘ موبائل فونز‘ جرابوں‘ دستانوں سے ہوتا ہوا دیکھنے اور چلنے کے انداز تک پہنچ گیا ہے۔ اب تو صبح کو دیر تک سونا اور رات دیر تک جاگنا بھی فیشن بن گیا ہے۔ میکسیکو کے بارے خبر ہے کہ وہاں کے نوجوانوں نے لمبے بوٹ پہننے کا انداز اپنا لیا ہے۔ یہ بوٹ اتنے لمبے ہوتے ہیں کہ پاؤں سے ڈیڑھ دو فٹ آگے تک بڑھے ہوتے ہیں۔ نوجوان سرپر ہیٹ‘ چست پاجامے اور ایسے لمبے جوتے پہن کر تقریبات میں شرکت کرتے نظر آتے ہیں۔ ان کا مقصد الگ تھلگ نظر آنا اور لوگوں سے داد و تحسین وصول کرنا ہوتا ہے۔ یوں کہہ لیجئے یہ تیر نما لانگ شوز پاؤں کی خوبصورتی کی علامت سمجھے جانے لگے ہیں۔ سب نوجوان ان کے شیدائی نظر آتے ہیں۔ عام حالات میں جوتے پاؤں کی حفاظت کے لئے پہنے جاتے ہیں۔ ان کا مضبوط ہونا بھی ضروری ہوتا ہے تاکہ چلتے وقت پاؤں کو کیل یا کانٹوں سے بچایا جا سکے۔ کچھ لوگ خصوصاً خواتین ان جوتوں کو بطور ہتھیار بھی استعمال کر لیتی ہیں۔ ان کے جوتوں کی ایڑھی کچھ اضافی خصوصیات رکھتی ہے جو لڑائی کی صورت میں مخالف کو جلد ناک آؤٹ کر سکتی ہے۔ ویسے تو کف گیر‘ چمچ‘ مدھانی ‘ وائپر اور جھاڑو بھی عورتوں کے ہتھیار ہوتے ہیں لیکن یہ صرف گھروں میں بگڑے ہوئے بچوں اور غیر سدھائے ہوئے شوہروں کی کانٹ چھانٹ کے لئے استعمال کئے جاتے ہیں۔
میکسیکن نوجوانوں کے لمبے جوتے بھی ان کے لئے ہتھیار کا کام کر سکتے ہیں۔ جونہی کسی سے لڑائی ہو وہ اپنے جوتوں کے ساتھ مخالف کو پرزور ٹھڈے مار سکتے ہیں۔ ان کے جوتوں کی تلوار جیسی دھا رمخالفین کو ان سے دوچار فٹ دور رہنے پر مجبور کرتی ہے۔ امریکہ میں عام حالات میں مختصر اور دیدہ زیب لباس پہننے کا رواج ہے جس میں کم از کم نفاست ضرور ہوتی ہے۔ تاہم اب کرسٹن نامی ایک لڑکی نے کوڑا کرکٹ سے استعمال شدہ چیزیں اکٹھی کر کے ان سے خوبصورت لباس بنانا شروع کر دئے ہیں ۔ کرسٹن کے مطابق اس نے نوٹ کیا کہ لوگ استعمال شدہ چیزیں پھینک دیتے ہیں جن میں بہت سی چیزیں کارآمد بھی ہوتی ہیں۔ اس نے فیصلہ کیا کہ ان بظاہر استعمال شدہ چیزوں سے لباس بنائے گی۔ کرسٹن نے اپنے دوستوں سے مل کر کوڑا کرکٹ کے ڈھیروں سے شاپنگ بیگز‘ پرانے گتے اور پیکنگ مٹیریل اکٹھے کئے اور ان کو دیدہ زیب لباسوں میں تبدیل کر دیا۔ یہ لباس دیکھنے میں تو خوبصورت لگتے ہیں لیکن کیا کوئی نفیس آدمی خراب اور گندی چیزوں سے بنے ہوئے ایسے لباسوں کو پہننا گوارہ کر سکتا ہے؟ یقیناً نہیں۔ ہم شہر کی مہنگی ترین دکانوں پر جا کر مہنگے ترین لباس خرید کر زیب تن کرنے والے لوگ بھلا کوڑے کرکٹ سے بنے لباس کو کیسے پہن سکتے ہیں۔
کرسٹن کے لباس کو کتنے لوگوں نے پہنا ہو گا یہ جاننا ضروری نہیں ہے لیکن ایک بات واضح ہے کہ کرسٹن نے خود کو سوشل میڈیا پر مشہور کر لیا ہے اور اس کے لباسوں کو بھی پذیرائی ملی ہے۔ لوگوں نے اس کے خیال کو پسند کیا ہے اور ہو سکتا ہے مستقبل قریب میں کوڑا کرکٹ ڈریس مارکیٹ بھی وجود میں آجائے۔ یہ فیشن کی سب سے کم قیمت اختراع ہو گی جو اگر کامیاب ہوئی بھی تو غریب امریکیوں میں ہی ہو گی جہاں تک جنوبی ایشیاء کا تعلق ہے تو یہاں کپڑوں سے بنے لباسوں کو ہی ترجیح دی جاتی ہے۔
٭٭٭٭