گرمی کی شدت، رمضان المبارک اور خودنمائی
حضرت علی ؓ بن ابوطالب کا فرمان ہے کہ مجھے سردیوں کی نمازیں شدید گرمیوں کے روزے اور اللہ کے راستے میں تلوار اٹھانا بڑا ہی پسند ہے۔ چونکہ حضرت علیؓ بن ابوطالب اللہ تعالیٰ کے خاص مقرب بندوں میں شمار ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ کے انعام یافتہ یہی لوگ ہی ہوا کرتے ہیں کہ جن کا نفس ہر وقت اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور تابعداری میں منقول رہتا ہے وگرنہ ہم جیسے عام انسان تو نہ جانے کتنی مرتبہ اپنے رب کی نافرمانیاں کرچکے ہیں لیکن پھر بھی انا پرستی عروج پر رہتی ہے۔ آج کل رمضان المبارک کی بابرکت ساعتوں کا سلسلہ جاری و ساری ہے۔ شدید گرمیوں نے انسان، چرند، پرند سب کو نڈھال کرکے رکھ دیا ہے۔ ملک بھرمیں گرمی کی شدت روز بروز بڑھ رہی ہے اور پھر ایسے میں رمضان المبارک کا احترام اور روزہ رکھنا واقعی ایک بہت بڑا مجاہدہ ہے۔ وطن عزیز میں رمضان المبارک کا احترام اور ادب کرنا ہم سب پر فرض ہے لیکن افسوس کہ تین چار سالوں سے اب رمضان المبارک کا احترام ہمارے معاشرے سے ختم ہورہا ہے۔ لوگ بازاروں اور ہوٹلوں میں سرعام سگریٹ اور چائے پیتے نظر آتے ہیں اور ان کو ذرا بھر بھی یہ احساس نہیں ہوتا کہ رمضان المبارک کا مذاق اڑانا کتنا بڑا جرم ہے۔ اسی طرح مہنگائی کا بھی سیلاب آچکا ہے۔ غریب روزہ دار جب شام کو افطاری کرتا ہے تو اس کے سامنے صرف عام سا شربت اور سادہ پانی ہوتا ہے جبکہ سوشل میڈیا پر امیر لوگ اپنی دی جانے والی افطاریوں کی زبردست تشہیر کرکے غریبوں کا مذاق اڑاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ایسی ریا کاری سے بچائے اور اب تو ایک اور ریاکاری بڑی شدت سے زورپکڑ چکی ہے ہم جونہی عمرہ کے لیے روانہ ہوتے ہیں تو روانگی سے ہی سلفیاں اور فوٹو بنانا شروع کردیتے ہیں جہاز سے لے کر خانہ کعبہ کے طواف تک فوٹو ہی فوٹو فیس بک کے ذریعے اپ لوڈ ہو رہے ہیں کچھ تو خوف خدا کرو کم از کم ہم اپنی عبادتوں کو تو تشہیر بازی سے محفوظ رکھیں آخر ہم اپنی عبادت کی تشہیر کرکے کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں صرف یہی کہ اپنے نفس امارہ کو خوش کرنا چاہتے ہیں کہ ہمیں دوران عمرہ کتنے لوگوں نے لائیک کیا ہے اور کتنے لوگوں نے ہماری فوٹو دیکھ کر ہمیں شاباش دی ایسی شاباش ، ماشا اللہ کو پڑ ھ کر ہمارا نفس پلید خوشی سے پھولے نہیں سماتا اور انسان خود پرستی کا شکار ہوکر اپنے آپکو دوسروں سے اعلیٰ اور ارفع تصور کرنے لگتا ہے نفس کی بیماریوں میں سے یہی بیماری ’’حب جاہ ‘‘ بڑی ہی خطر ناک ہوتی ہے یعنی انسان ہر وقت یہی تمنا کرتا ہے کہ میں ہی سب سے اعلیٰ ہوں اور دن رات صرف میرے ہی قصیدے لکھے جائیں سوشل میڈیا ہو یا اخبارات ہوں ہے صدا یہی تجھ کو ہو فیشن نرالہ ہو زینت نرالی‘ ‘ لیکن افسوس کہ اس بیماری کا کوئی علاج نہیں کیا جارہا سب اپنی مستی میں مست ہیں افطار یاں اب ریاکاری اور صرف رسم رواج میں بدل چکی ہے ہیں اور ہاں جو اللہ کے خاص بندے کسی کو افطاری پر مدعو بھی کرتے ہیں تو انتہائی خاموش کے ساتھ اپنا دستر خواں سجاتے ہیں اورپھر اُس دستر خواں کی فوٹو گرافی کراکے اپنی ذاتی خودنمائی نہیں کراتے اور یہ حکم ہے کہ نیکی کردریا میں ڈال بلکہ حضور اقدس ﷺ کا فرمان مبارک ہے کہ قیامت کے رو زسات آدمی ایسے ہونگے جو اللہ تعالیٰ کے عرش کے سایہ میں ہوں گے اُن سات آدمیوں میں سے ایک آدمی ایسا بھی ہوگا جو اپنی سخاوت یا نیکی و غیرہ کرتے وقت دوسرے ہاتھ کو بھی خبر نہیں ہونے دیتا لیکن افسوس کہ نہ جانے لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ ہم سب حب جاہ کی بیماری میں شدت کے ساتھ پھنس چکے ہیں سوشل میڈیا کی وبانے اب ہماری نمازیں ، افطاریاں عمر ے اور نہ جانے کتنی بڑی عظیم عبادات کو تشہیر کا ذریعہ بنا دیا ہے اور ہم خوش ہیں کہ بندوں میں بڑے مقبول ہورہے ہیں اے نادان تجھے یہ بھی خبر ہے کہ تو اللہ تعالیٰ کے سامنے کتنا مقبول ہے؟ اور جب کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں ان مکروہ اور حرام چیزوں یعنی ریا کاری ، حب جاہ سے منع کردیا ہے۔
٭٭٭٭٭