دیا جلانے کا مطلب ہے شام ہو چکی ہے
دلاور علی آزراردو شاعری کے افق پر چمکتا ہواوہ ستارہ ہے جس نے اپنی چمک دمک سے ایک عالم کو مسحور کررکھا ہے۔اس کی شاعری کے اب تک تین مجموعے شائع ہو چکے ہیں جن میں ’’پانی‘‘، ’’مآخذ ‘‘اور ’’کیمیا‘‘ شامل ہیں۔دلاور نے محفل ِشعر میں قدم رکھتے ہی جو عزت کمائی ہے وہ کسی کسی کو نصیب ہوتی ہے۔حال ہی میں اس کی شاعری کا انتخاب’’تمثال گر‘‘ کے نام شائع ہوا ہے جسے محمداورنگزیب اور اسامہ امیر نے مرتب کیا ہے ۔اس خوبصورت انتخاب پر دونوں مرتب مبارکباد کے مستحق ہیں کہ انھوں نے ایک نوجوان اوراچھے شاعرکا منتخب کلام شائقین ادب کے سامنے رکھا ہے ۔دلاور علی آزر کے ہاں تخلیقی وفور ،مضمون آفرینی اورزبان و بیان کی سحرکاری سے ہم آہنگ ہوکر جو فضا بناتا ہے ،اس کی مثال اس کے معاصرین میں نہیں ملتی۔ دلاور کے ہاں جو سلیقہ ہے اورجو بات کرنے کا انداز ہے،یہ بغیر ریاضت حاصل نہیں ہوتا ۔ دلاور علی آزر اس ضمن میںخوش نصیب بھی ہے کہ اس کے شعر کو عام قاری کے ساتھ ساتھ ناموراہل ِعلم و فن کی توجہ حاصل ہے ۔قارئین ! درج ذیل اشعار دیکھیے اور اندازہ کیجے کہ اس نوجوان نے کیا کیا نکتہ آفرینی کر رکھی ہے اور کیا کیااسرار ہیں جو دیدہ و دل پر حیرتوں کے در وا کرتے چلے جاتے ہیں۔
مجھ کو مٹی سے علاقہ ہے اسے پانی سے
گویا مل سکتے ہیں دونوں بڑی آسانی سے
گھر میں گلدان سجائے ہیں تری آمد پر
اور ایک پھول بہانے سے الگ رکھا ہے
چلے بھی آؤ کہ حجت تمام ہوچکی ہے
دیا جلانے کا مطلب ہے شام ہو چکی ہے
کمال یہ ہے مجھے دیکھتی ہیں وہ آنکھیں
ملال یہ ہے انھیں دیکھنا نہیں آتا
اٹھنے کے لیے قصد کیا میں نے بلا کا
اب لوگ یہ کہتے ہیں مقدر سے اٹھا میں
دور کے ایک نظارے سے نکل کر آئی
روشنی مجھ میں ستارے سے نکل کر آئی
سائے کو شامل ِ قامت نہ کرو آخرِکار
بڑھ بھی جائے تو یہ گھٹنے کے لیے ہوتا ہے
میری تنہائی نے پیدا کیے سائے گھر میں
کوئی دیوار کوئی در سے نمودار ہوا
ٹوٹ کر نیند نے آنکھوں کا بھرم توڑ دیا
صبح کے شور میں اک خواب نے دم توڑ دیا
اس نے پوچھا کہ کوئی آخری خواہش آزر
میں نے اک نام لکھا اور قلم توڑ دیا
پھینکونہ یوں ہی کم نظرو،سنگ ہوا میں
اڑتے ہیں پرندے بھی اسی تنگ ہوا میں
ممکن ہے کہ ملتے کوئی دم دونوں کنارے
اک موج کے محتاج تھے ہم دونوں کنارے
تاعمر کسی موجہ ء خوش رو کی ہوس میں
بیدار رہے دم ہمہ دم دونوں کنارے
ہوس سے جسم کو دوچار کرنے والی ہوا
چلی ہوئی ہے گنہ گار کرنے والی ہوا
کوئی صدا نہ کوئی نوحہ کان پڑتا ہے
عجب سکوت ہے کیا کیا گمان پڑتا ہے
تمام روشنی سورج سے مستعار نہیں
کہیں کہیں تو ہمارے چراغ جلتے ہیں
ہم شام کی دہلیز پہ بیٹھے ہیں ابھی تک
اک قافلہ نکلا تھا مدینے سے ہمارا
کسی منظر میں ہم دونوں کھڑے ہیں
کسی منظر میں ویرانی ہماری
سارا دن ساتھ رہو سائے کی صورت اپنے
شام ہوتے ہی بہانے سے الگ ہو جاؤ
دھوپ کی شدت سہہ کر مجھ کو سایہ بہم پہنچاتا ہے
کتنا اچھا پیڑ ہے بالکل جیسے میرے ابو تھے
اس کی آنکھیں دیکھنے والو تم پر واجب ہے
شکر کرو اس دنیا میں کچھ اچھا دیکھ لیا
حدِ ادب کی بات تھی حدِ ادب میں رہ گئی
میں نے کہا کہ میں چلا، اس نے کہا کہ جائیے
سطر در سطر یہاں لفظ سے لو پھوٹتی ہے
یہ جو تحریر ہے تصویر چراغوں کی نہ ہو
اسے تو صبحِ ابد کی نوید ہونا تھا
وہ روشنی جو مرے ساتھ ساتھ ختم ہوئی
میں نے اک رات کی رعایت سے
اپنی مرضی کا دن بنا لیا ہے
وہ مجھے دیکھتا رہے اور میں
دیکھنا دیکھتا رہوں اس کا
وہ زخم جسم پہ آیا نہیں ابھی جس کے
کریدنے کو یہ ناخن سنبھال رکھا ہے
ہم جب سے بجھ گئے ہیں،خود میں الجھ گئے ہیں
نقلیں اتارتے ہیں دیوار ودر ہماری
یہ خستگی نہیں ہے وابستگی ہے آزر
تصویر ابھر رہی ہے دیوار پر ہماری
دل و نگاہ کو عادی نہیں کیا اس کا
سو دیکھ لیتے ہیں جب دیکھنے میں آتا ہے
وہ باغ چھوڑ کے جاتا ہے اور اسی لمحے
یہ رنگ پھول سے بیزار ہونے لگتے ہیں