اونٹ کی کروٹ
حکومت کی معیاد پوری ہوئی اور اسلام آباد میںنگران وزیر آعظم نے اپنامنصب بھی سنبھال لیا،2002ء سے 2018ء تک تیسری حکومت نے اپنی مدت کو مکمل کیا ہے ،عام طور پر 2002ء سے 2008ء تک کے عرصے کو جمہوری کہلانے والے غیر جہہوری سمجھتے ہیں ،ان کے پاس اس کے بہت سے جواز ہوں گے ،لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اسی اسمبلی میں یہ سب موجود تھے،15سال کے بعداب پھر نگرانوں کا دور دورہ ہے ۔سندھ میںنگران وزیر اعلی آ چکے ہیں،مرکز اور سندھ میں کوئی مسلہ نہیں ہوا ،باقی صوبوں میں بھی چند دن کی بات ہے طے شدہ مکنزم کے تحت نگران حکومتیں بن جائیں گی،25جولائی انتخابات کی تاریخ بھی مقرر ہو چکی ہے، بظاہرسب ٹھیک دیکھائی دے رہا ہے ،لیکن سوشل میڈیا پر جیسی آرا ء سامنے آرہیں ہیں اور جس شدومد سے حلقہ بندیوں اور نامزدگی فارمزکے ایشوز بن رہے ہیں،نگران حکومت کی طرف سے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلہ کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کے اعلان کے ساتھ ہی سوشل میڈیا پر ایک مہم نظر آرہی ہے جس میں عوام سے کہا جا رہا ہے کہ وہ امیدوار سے کاغذات نامزدگی میں معلومات کے حصول کے بارے میں لاہور ہائی کورٹ کے فیصلہ کے تحفظ کے لئے فریق بنیں،مسلم لیگ ن ،پیپلز پارٹی کی چوٹی کی قیادت کی طرف سے بار بار 25جولائی کو انتخابات ہر صورت میں منعقد کرانے کا مطالبہ ہو رہا ہے،اس سے خدشات سر اٹھا رہے ہیں کہ کہیں نہ کہیں کچھ نہ کچھ ضرور غلط ہے،تقدیر کیا دیکھانے والی ہے،کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ کمہار اور گھسیارے نے ساجھے میں ایک اونٹ خریدا ،گھسیارے نے اونٹ کی پیٹھ کے ایک طرف گھاس لادی اور کمہار نے دوسری جانب اپنے مٹی کے برتن لادے،دونوں اونٹ کے ساتھاپنا اپنا مال فروخت کرنے کے لئے شہر کے بازار کی جانب روانہ ہوئے،راستے میں اونٹ گردن گھماگھما کر گھسیارے کی گھاس کھاتا جارہا تھا،اونٹ کو گھاس کھاتا دیکھ کر کمہار ہنسنے لگا،گھسیارے نے سوچا کہ عجیب آدمی ہے ،میرے نقصان پر ہنس رہا ہے،گھسیارہ کہنے لگا کہ میرے نقصان پر کیوں ہنس رہا ہے،دیکھیے اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے،آخر کار جس وقت دونوں اونٹ کے ساتھ شہر پہنچے تو اونٹ اس کروٹ بیٹھ گیا جس طرف کمہار کے برتن لدے تھے،سارے برتن چور چور ہوگئے،جمہوریت کا اونٹ بھی نگران کی نگرانی میںچل پڑا ہے 25 جولائی کا پڑائو راہ میں پڑے گا ،اس کے ایک طرف کچھ آرزوئیں،تمنائیں اور ارمان ہیں،جو خدشات کے ورق میں لپٹی ہوئی ہیں،کسی پر تیر بنا ہے ،تو کسی پر ٹائیگر،کسی ہر بلا ہے تو کسی پر کتاب،ٹریکٹر کا ورق بھی نظر آتا ہے،کہیں پتنگ،اور اس کے دوسری جانب ،قانون ہے ،ماضی ہے،کچھ فیصلے ہیں ،کچھ اور ہو ں گے اور ان کو بھی اس جانب رکھ دیا جائے گا ،اس نے منزل تک جانا ہے ،اونچے نیچے راستے ہیں،اس کو چلاتے رہنے کے لئے ،ان کی ذمہ داری ذیادہ بنتی ہے جن کی آرزوئیں ایک جانب لدی ہوئی ہیں،چند ہفتوں میں ایسے مراحل ضرور آئیں گے ،ہو سکتا ہے کہ کچھ فیصلے بھی ہوں ،ان کا سامنا بلوغت اور دانش سے کرنا پرے گا ، خدشہ ہے کہ اونٹ راستے میں کہیں اس کروٹ نہ بیٹھ جائے جس جانب تمنائیں لدی ہیں،اس کا پڑاو، وہیں ہونا چاہئے جہان کو قصدہے اور اس کو سیدھا بیٹھانا بھی ان کا کام ہے جن کے ہاتھ میں مہار ہے،گزشتہ چند ہفتے افتتاحی بنے رہے،پریس کانفرنسوں کے ریکارڈ بنائے گئے،اس پر مختار مسعود مرحوم کی کتاب’’لوح ایام‘‘ سے ایک حوالہ کچھ مختصر الفاظ کے ساتھ دینا فرض بن گیا،لکھتے ہیں’’بنڈونگ کانفرنس میںپاکستانی وفد کے ایک رکن کی حیثیت سے شرکت کی تھی،کانفرنس میں ایک غیر رسمی گفتگو سننے کا اتفاق ہوا،صدر سوئیکارنونے پنڈت جواہر لال نہرو سے کہا،یہ تم کس چکر میں پھنس گئے ہو،سٹیل مل ،دریاوں کے بند،نہروںکی کھدائی،کاخانے لگانا صنعت کار کا کام ہے،بند بنانا انجیئنر کا کام ہے،یہ کام ایک عام آدمی کر سکتا ہے،میرا اور تمہارا کام تعمیر ہے،فرد،معاشرے،قوم اور مستقبل کی تعمیر،ہم کارخانہ دار لوگ نہیں،ہم تاریخ ساز لوگ ہیں‘‘اس لئے بہتر عمل یہ کہ خود کو تعمیر قوم اور مستقبل کی تعمیر کے پیمانے پر جانچا جائے ،کارخانے اور بہت کچھ بنانے والے اب تاریخ کی گرد میں دیکھائی بھی نہیں دے رہے ہیں،تمنائیں پوری کرنا ہے تو ’’تعمیرقوم‘‘ کے پلانز ساتھ لائیں، 100 دن کا منصوبہ سامنے آیا،اس پر عمل کا راستہ نہیں،باقیوںنے تو ابھی اتنا بھی نہیں کیا ،جسکی بھی اقتدار میں آنے کی تمنا ہے اس کے پاس ہر شعبہ کا پلان ہونا چاہئے ،اس وقت بیلنس آف پیمنٹ کا ایشو بہت گھمبیر ہے، سابق حکومت نے اپنا کام چلا یا تاکہ یہ کہہ سکے کہ کشکول لے کر آئی ایم ایف کے پاس نہیں گئے،لیکن اگر دو چار ماہ میں عالمی مالیاتی ادارے کے پاس جانا پڑتا ہے تو اس کی ذمہ داری سے بچا نہیں جا سکتا ہے، نگران اوراس کے بعد کی حکومت کے لئے سب سے اہم مسئلہ یہی ادائیگی کا توازن ہو گا ،تیل کی قیمت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے،اس لئے مسلہ اور بھی سنجیدہ ہوتا چلا جائے گا،اس طرح صحت،تعلیم کی حالت کو سدھارنے کے لئے تین سے پانچ سال کا پلان ہو نا چاہئے،پانی کے ایشوز ملکی اور بین الااقوامی سطح پر سر اٹھا رہے ہیں،ان پر ہوم ورک کرنا چاہئے،توانائی درد سر ہے،یہ پھندا ،بھی گلے پڑے گا،اس پر کوئی نہ کوئی دماغ کی کھپائی کر لی جائے تو اپنی ہی عزت بچے گی،ایسے کہا جاتا ہے کہ مفت کے مشوروں کی کوئی اہمیت نہیں ہوا کرتی،پی پی پی کو بھی اپنے پلانز منظر عام پر لانا چاہئے ، نوجوان چیرمین کے تحت ایک اقتصادی مشاورتی حلقہ یا کونسل ترتیب دیا جائے تو ممکن ہے ایسا معاشی منشور بن سکے جو قابل عمل ہو،خوش کن وعدے اور ارادے آخر دلدل میں پھنسا دیتے ہیں،ان سے بچنا چاہئے پالیسیاں اچھی ہوں تو پہیہ چل پڑتا ہے،ان کی تشکیل میں احتیاط برتنی چاہئے،پاکستان کو آگے لے کر چلنا ہے تو سوچ کو بدلنے کی ضرورت ہے،کام وہی کر سکتا ہے جو توازن برقرار رکھ سکتا ہے اور توازن کامیابی کی کنجی ہے۔