والدین نے د رس دیا یہ تیرا ماما، چچا ہے، یہ نہیں بولا مسلمان یا سکھ ہے: موہن لال
اسلام آباد ( بی بی سی) موہن مالہی بچپن سے درگاہ قاسم شاہ کے عقیدت مند ہیں لیکن چچا کے انتقال کے بعد اب وہ اس مزار کے مجاور بھی بن گئے ہیں۔صحرائے تھر کے شہر مٹھی کے وسط میں واقع اس درگاہ پر روزے داروں کی افطاری کا بندوبست کیا جاتا ہے۔ درگاہ کے اندر ہی باورچی خانہ موجود ہے، جہاں ہندو مالہی برادری کے نوجوان خود چاول کی دیگیں تیار کرتے ہیں، جو آلو اور چنے کی بریانی پر مشتمل ہوتی ہیں۔ موہن لال خود پورے رمضان روزے رکھتے ہیں جبکہ ان کے اہل خانہ حضرت علی ؓ کی شہادت یعنی 21واں روزہ اور شب قدر کا 27واں روزہ رکھتے ہیں۔ موہن لال نے تیسری جماعت سے روزے رکھنے شروع کیے اور انہیں یہ عقیدت وراثت میں ملی۔ یہ درگاہ مالہی برادری کے محلے کے درمیان میں واقع ہے۔ 30، 35 سال قبل یہاں ایک درخت تھا اور اینٹوں کے ساتھ قبر بنی ہوئی تھی۔ جو منتی آتا تھا اس کی منت پوری ہو جاتی تھی تو وہ چڑھاوا چڑھاتا تھا۔ موہن لال کے مطابق بزرگ قاسم شاہ کی بچوں کے ساتھ محبت تھی۔ ’وہ بچوں کو خود پر سوار کرتے اور کھیلتے، اسی سلسلے کو یہاں جاری رکھا ہوا ہے۔ روایتی ساڑھی اور چولی گھاگھرا پہنے خواتین بھی سلام کے لیے آتی ہیں جو افطار تک موجود رہتی ہیں۔ تھر کے ہندو مسلمانوں کے ساتھ عید کی خوشی اور محرم کے غم میں شریک ہوتے ہیں جبکہ مسلمان ان کے ساتھ دیوالی اور ہولی مناتے ہیں۔ موہن لال کا کہنا ہے کہ تھرپارکر میں مذہب کی بنیاد پر تفریق نہیں ہے۔ ’والدین نے ایک درس دیا تھا جو محبت کا تھا کہ یہ تیرا ماما ہے، یہ تیرا چچا ہے، یہ نہیں بولا کہ یہ مسلمان ہے، ہندو ہے، سکھ ہے یا مینگھواڑ ہے۔ آج بھی ہم ہندو مسلم یہاں بھائیوں کی طرح رہتے ہیں۔