سابق ایڈیشنل سیشن جج راجہ خرم علی خان کی سزا کے خلاف درخواست، دلائل مکمل
اسلام آباد ( وقائع نگار) اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق ایڈیشنل سیشن جج راجہ خرم علی خان کی سزا کے خلاف دائر درخواست دلائل مکمل ہونے پر فیصلہ محفوظ کرلیا ہے عدالت آئندہ ہفتے اپیل پر فیصلہ سنائے گی کیس کی سماعت اسلام آباد ہائیکورٹ ڈویثرن بنچ پر مشتمل جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس میاں گل حسن نے کی سابق ایڈیشنل سیشن جج راجہ خرم علی خان اپنے وکیل راجہ رضوان عباسی کے ساتھ عدالت میں پیش ہوئے اور موقف اختیار کیا کہ میڈیکل رپوٹ میں بھی کوئی تشدد ثابت نہیں ہواغیر دانستہ طور پر اگر کسی بچے کو مارا جائے تو قابل سزا جرم نہیں ہے آئین کی شق 328 اے کے تحت دانستہ طور پر مارنے کی سزا موجود ہے ویسے اگر غیر دانستہ طور پر سزا دی جانے لگے تو ہر گھر میں موجود والدین سزا کے مرتکب ہیںطیبہ کے والدین کی جانب سے راجہ ظہور الحسن ایڈووکیٹ عدالت میں پیش ہوئے راجہ خرم علی خان کے کونسل نے کہا کہ پولیس کی جانب سے درج کردہ ایف آئی آر غیر قانونی ہے راجہ خرم اور انکی اہلیہ کے خلاف درخواست میں طیبہ شکایت کنندہ نہیں درخواست پر طیبہ کے دستخط اور انگوٹھا کا نشان نہیںقانون کے مطابق طیبہ کے مبینہ بیان کی تصدیق نہیں کرائی گئی میڈیکل رپورٹ بھی تشدد کے الزامات کی نفی کرتی ہے رپورٹ کے مطابق طیبہ کو زخم جلنے سینہیں بلکہ گرنے سے آئے طیبہ نے جرح کے دوران اعتراف کیا کہ اسے تشدد کا جھوٹا الزام لگانے کو کہا گیاایف آئی آر اور فرد جرم غیر قانونی ہے سنگل بنچ کی جانب سے سنائے جانے والی سزا غیر قانونی ہے سنگل بنچ کا فیصلہ کالعدم قرار دیا جائے جوابی دلائل مکمل ہونے پر عدالت نے فیصلہ محفوظ کر لیا ہے