فتح مبین
مولانا محمد الیاس گھمن
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایک آزمائش ہجرت کے چھٹے سال ذوالقعدہ کے مہینے میں آئی ، آپ 1400 جانثاروں کی ہمرکابی میں عمرہ کرنے کی غرض سے مکہ مکرمہ کی طرف روانہ ہوئے ،شہر مکہ سے 9 میل پہلے حدیبیہ کے مقام پر پہنچے تو کفار مکہ نے رسول مکی صلی اللہ علیہ وسلم کو عمرہ کرنے سے روک دیا، بالآخر فریقین کی رضا مندی کے ساتھ درج ذیل شرائط پر ایک ’’عہد نامہ‘‘مرتب ہوا۔
1: دس سال تک فریقین کے درمیان کوئی لڑائی نہیں ہوگی۔
2: اگر کوئی شخص اپنے وارثوں کی اجازت کے بغیر مسلمان ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے گا آپ اسے واپس کریں گے۔
3: جو شخص مسلمانوں میں سے قریش کے پاس آئے گا اسے نہیں لوٹایا جائے گا۔
4: اس سال آپ عمرہ کیے بغیر ہی واپس جائیں اور آئندہ سال آکر عمرہ ادا کریں۔
5: مسلمان صرف تین دن مکہ میں ٹھہر سکتے ہیں اور اپنے ہتھیاروں کو نیاموں میں بند رکھنے کے پابند ہوں گے۔
:6 قبائل متحدہ کو اختیار ہے کہ جس معاہدہ اور صلح میں شریک ہونا چاہیں ، ہو جائیں ۔
چنانچہ مسلمانوں نے قربانی کے جانوروں کو اسی مقام پر ذبح کیا اور احرام کھول دیا۔ مسلمان کچھ اور سوچ کر سفر کے لیے نکلے تھے لیکن معاملہ بالکل برعکس ظاہر ہوا تو بے انتہاء صدمے سے دوچار ہوئے،حدیبیہ سے واپسی پر سورۃ فتح کی ابتدائی آیات نازل ہوئیں کہ اے محمدؐ ہم آپ کو کھلی اور واضح فتح عطاء فرمائی۔ حالات کے تناظر میں حضرت عمرؓ نے ازراہ تعجب عرض کی : او فتح ھو؟ کیا یہ بھی فتح کہلاتی ہے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں یہ فتح ہے۔
چونکہ جس وقت یہ عہد نامہ مرتب ہوا اس وقت دوسرے قبیلوں کو مکمل طور پر یہ اختیار دیا گیا کہ وہ جس کسی کے عہد میں شامل ہونا چاہیں ،ہوجائیں۔ قبیلہ بنو خزاعہ حضورؐ کے عقد میں جبکہ قبیلہ بنو بکر قریش کے عہد میں شامل ہوا۔شروع میں معاہدہ صلح ہوجانے کے بعد فریقین ایک دوسرے سے بے خطر ہوگئے ، لیکن بنو بکر معاہدہ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بنو خزاعہ پر حملہ کیا اور قریش کے لوگ بھی اپنے چہروں پر نقاب ڈالے اس میں شریک ہوئے یہاں تک کہ ان کے گھروں میں گھس گھس کر اْن کو قتل کیا اور اْن کا مال و اسباب لوٹ لیا۔ مظلومین نے بنوبکر کے اس عہدخلافی پر نبی کریم ؐ سے شکایت کی جس کاآپؐ کو سخت دکھ پہنچا۔ متکبرانہ مزاج نے قریش کو جنگ پر اکسایا تونبی کریم ؐ نے مکہ جانے کی تیار یاں مکمل کرلیں اور اپنے اتحادی قبائل کو مکہ کی طرف ہمراہ جانے کا پیغام بھیج دیا یہاں اس بات کی پوری کوشش کی گئی کہ قریش مکہ کو اس تیاری کی اطلاع کسی صورت نہ ہونے پائے۔ اسی دوران ایک ایسا معاملہ پیش آیا جس سے کافی تشویش پیدا ہوئی ، صحابی رسول حضرت حاطب بن ابی بلتعہؓ (غزوہ بدر کے شرکاء میں سے ہیں) اْنہوں نے خفیہ طور پر قریش کو ایک خط لکھ کر روانہ کردیا ،جس میں انہوں نے لکھا :’’ اے قریش کے گروہ ! اللہ کے رسول ؐرات کی مانند تم پر ایک بہت بڑا لشکر لے کر آنے والے ہیں جو سیلاب کی طرح بہتا ہوا ہوگا۔ انبی کریم ؐ کو اطلاع ہوئی،آپؐنے فوراً چند صحابہ کو روانہ فرمایاکہ وہ خط چھین کر لے آئیں، ایسا ہی ہوا، خط لایا گیا،دیکھا گیا تو معلوم ہوا کہ حضرت حاطب ؓ کا خط ہے ، صحابہ کرام کو غیر معمولی حیرت ہوئی ،حضرت عمر ؓ نے عرض کی اجازت ہو تو میں اِس کی گردن اْڑادوں! نبی کریم ؐ نے فرمایا: حاطب بدری ہے اور اللہ تعالیٰ نے اہل بدر کو مخاطب کرکے فرمایا ہے جو چاہو کرو میں نے تمہاری بخشش کردی۔حضرت حاطبؓ کو بلایا انہوں نے آکر عرض کی:یا رسول اللہ ؐ میرے معاملہ میں جلدی نہ فرمائیں ، میری مجبوری سن لیں! میرے اہل و عیال آج کل مکہ میں ہیں جن کو ایذا اور تکلیف نہ پہنچے، اس لئے ایسا احسان سمجھ کر کیا۔ لہٰذارحمت عالمؐ نے حضرت حاطب ؓ کو اپنے دامن رحمت میں لے لیا۔
مسلمانوں اور ان کے لشکر کی حالت کو دیکھ کر ابوسفیان نے پناہ مانگ لی چنانچہ حضرت عباس ؓ فرماتے ہیں : میں ابوسفیان کو سواری پر بٹھا کرلے چلا ۔ پیچھے سے حضرت عمر ؓ بھی تشریف لے آئے اور رسول اللہ ؐ وسلم سے عرض کی : اجازت دیجیے! میں ابو سفیان کی گردن مار دوں۔ مگر آپ ؐنے ان کو امن عطا فرمایا۔ دوسرے دن ابو سفیان حاضر خدمت ہوئے اور صدق دل سے ایمان لا کر حلقہ بگوش اسلام ہو گئے تو نبی رحمت نے اپنے چچا حضرت عباسؓ سے فرمایا: ابو سفیان رضی اللہ عنہ کو پہاڑ کی چوٹی پر لے جائو تاکہ وہ مجاہدین اسلام کے جاہ و جلال کا خوب اچھی طرح مشاہدہ کر سکیں، چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا اور ابوسفیان ؓ کو پہاڑی کی چوٹی پر لا کھڑا کردیا۔آپ ؐ نے حضرت ابوسفیان ؓ کو حکم دیا کہ ہمارے مکہ میں داخل ہونے سے پہلے قریش کو لشکر اسلام کی خبر کر دواور معافی کا اعلان بھی سنا دو۔ چنانچہ ابو سفیان نے بیت اللہ میں کھڑے ہو کر قریشیوں کو خطاب کیا : لشکر اسلام آ گیا ہے جس کا تم مقابلہ نہیں کر سکتے۔ قریشیوں نے کہا : پھر کیا کریں؟ تو ابو سفیان نے معافی کا اعلان بھی ساتھ ہی سنا دیا۔
چنانچہ جب آپؐ حرم کعبہ میں داخل ہوئے ،آپؐ کے ہاتھ مبارک میں ایک کمان تھی ، وہی بیت اللہ جو ساری دنیا میں اللہ کی وحدانیت کا مرکز تھا اسی کے گرد اور چھت پر 360 بت رکھے ہوئے تھے،آپ ایک ایک بت کو کمان مارتے اور فرماتے:’’ حق آگیا اور باطل مٹ گیا اور باطل مٹنے ہی کی چیز ہے۔‘‘ آپ نے تمام بت حرم سے نکال دینے کا حکم فرمایا۔ اِس کے بعد آپ نے اونٹنی پر بیٹھ کر ہی طواف کیا ، حجر اسود کا بوسہ لیا۔
آپ کے حکم پر خانہ کعبہ کھولا گیا آپ اس میں داخل ہوئے پھر کعبہ شریف کو زم زم سے دھویاگیا یہ رمضان المبارک کی بیس تاریخ تھی جب آپ ؐ کے ہاتھ مبارک میں کعبۃ اللہ کی چابی تھی ،قریش مسجدِ حرام میں گردنیں جھکائے کھڑے تھے آپ ؐقریش سے مخاطب ہو ئے: اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ تنہا ہے اس کا کو ئی شریک نہیں اس نے اپنا وعدہ سچ کر دکھایا اپنے بندے کی مدد کی اور تنہا سارے گروہوں کو شکست دی۔ اے قریش! اللہ نے تم سے جہالت کی نخوت اور باپ دادے پر فخر کا خاتمہ کر دیا۔ سارے انسان آدم کی اولاد ہیں اور حضرت آدمؑ مٹی سے بنائے گئے۔نبی رحمت ؐ نے حضرت بلال حبشیؓ کو حکم دیا کہ کعبہ کی چھت پر چڑھ کراذان دیں ، اذان ہو چکی تو آپؐ نے نماز کی امامت فرمائی۔
عام اہل مکہ کو تو معافی مل گئی البتہ نو مرد اور چار خواتین کو اس معافی سے دور رکھا گیا۔ ان کے بارے میں حکم دیا کہ جہاں بھی ملیں قتل کر دیں۔ مگر ان میں بھی سوائے چند کے باقی لوگ اسلام لے آئے اور انہیں بھی معافی دی گئی۔