مفلر بندی اور سیاست
جب پارلیمنٹ میں ختم نبوت بل کی شقوں کو تبدیل کیا جا رہا تھا، جب نااہل شخص کو سینیٹ سے پارٹی کا سربراہ تسلیم کرنے کا بل پاس ہو رہا تھا اور جب اسی پارلیمنٹ سے آئین کی شق باسٹھ اور تریسٹھ میں سے انتہائی اہم حصوں کو حذف کرنے کا بل منظور ہوا تو تحریک انصاف کیا اس وقت خوابِ خرگوش کے مزے لے رہی تھی؟ قارئین! مجھے پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی سیاسی ملی بھگت تو سمجھ میں آتی ہے کہ دونوں پارٹیاں 1971ءسے لے کر اب تک یک بعد دیگرے اقتدار کے مزے لوٹ رہی ہیں اور کبھی کبھی وہ تھوڑا بریک لینے کے لیے اقتدار کی منتقلی کا رخ فوجی بیرکوں کی طرف بھی کر دیتے ہیں اور ایک عام پاکستانی کے لیے یہ بات سمجھنا بھی مشکل نہیں کہ ایک دوسرے پر الزام تراشیوں کے بعد ان کا آپس میں این آر او بھی ہو جانا عام سی بات ہے ۔ابھی پچھلے دنوں نگران وزیراعظم کی نامزدگی کے موقع پر پیپلزپارٹی نے چوہدری ذکا اشرف کا نام ن لیگ کے سامنے پیش کیا اگرچہ دو دوسرے امیدواران بھی تھے مگر بادی النظر میں ذکا اشرف ہی مین کھلاڑی تھے۔ یاد رہے کہ ذکا اشرف ان دنوں امریکہ میں اپنی بیٹی کے پاس گرمیوں کی چھٹیاں گزارنے گئے ہوئے تھے کہ ان کو پارٹی کی سب سے اعلیٰ قیادت کی کال موصول ہوئی کہ آپ کو نگران وزیراعظم کے طورپر نامزد کیا گیا ہے۔ آپ اگلی ہی دستیاب پرواز سے پاکستان تشریف لے آئیں۔ ذکا اشرف صاحب فوری طور پر اسلام آباد پہنچے ۔ ان سے پارٹی نے سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کی رکنیت سے استعفیٰ لیا اور وہ میدان میں کود پڑے۔ میں قارئین نوائے وقت کی اطلاعات میں اضافہ کرتا چلوں کہ پاکستان کی عسکری اور جوڈیشری قیادت کو بھی ذکا اشرف کی نامزدگی پر کوئی اعتراض نہیں تھا مگر جب ن لیگ کے زعما کو ان حقائق کا علم ہوا تو انہوں نے پارلیمانی کمیٹی تک بات پہنچ جانے کے باوجود فوراً پینترا بدلا اور پیپلزپارٹی کی قیادت کو اس بات پر راضی کر لیا کہ وہ ن لیگ کے نامزد کردہ امیدوار اور سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس جناب ناصرالملک پہ اتفاق کرے(یہ وہی ناصرالملک ہیں جن کے بحیثیت چیف جسٹس عرصہ کے دوران آنے والے تمام فیصلے نوازشریف اور ن لیگ کے حق میں ہوئے اور انہی کے مبارک ہاتھوں سے زرداری صاحب نے اپنے اکڑ جانے والے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو نااہل قرار کروا کر گھر بھجوایا تھا) جبکہ ن لیگ کی اعلیٰ قیادت کو یہ شرف حاصل ہے کہ جب بھی کبھی نامزدگی کا موقع آیا ہمیشہ ہی ریٹائرڈ ججز کا انتخاب کیا گیا۔ خاص طورپر ان ججز کا جنہوں نے کبھی سروس کے دوران ن لیگ کے پلڑے میں اپنا وزن ڈالا ہو۔ سابق صدر رفیق تارڑ اور سابق گورنر سندھ جسٹس ریٹائرڈ سعید الزماں صدیقی کے نام قابلِ ذکر ہیںاور اب نگران وفاقی کابینہ میں معاہدے کے مطابق پیپلزپارٹی کا حصہ ن لیگ سے زیادہ ہوگا اس طرح آنے والے متوقع الیکشن میں من مرضی کا خاطر خواہ انتظام کر لیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پیپلزپارٹی اور ن لیگ نوازشریف کو سنائی جانے والی ممکنہ اور متوقع سزاﺅں کے باوجود دونوں رہنماﺅں کا مزاحمتی انداز سمجھ سے بالا تر ہے۔ دراصل ان دو بڑی سیاسی جماعتوں کا استدلال یہ ہے کہ موجودہ نظام کے تحت ہونے والے انتخابات کے انعقاد کو یقینی بنایا جائے تاکہ دونوں میں سے کوئی ایک پارٹی اقتدار کی مسند پر بیٹھ سکے اور دوسری پارٹی کو آزاد اراکین ساتھ ملا کر اپنی پسند کی اپوزیشن تشکیل دی جا سکے۔
قارئین! حیرت کی بات یہ ہے کہ اس سارے عرصہ کے دوران ملک کی دیگر دو بڑی پارٹیاں تحریک انصاف اور عوامی تحریک کیا رول پلے کر رہی ہیں؟ جہاں تک تحریک انصاف کا تعلق ہے تو اس کے نوجوان پودے پر پھل کا اتنا زیادہ جھاڑ لاد دیا گیا ہے کہ جس کو سنبھالنے اور پالنے کی استعداد پارٹی قیادت کے پاس موجود نہیں اور میرا یقین ہے کہ عمران خان ایک سچا، ایماندار اور ایک مخلص آدمی ہے مگر ہر سچا اور مخلص بندہ کیا ایک اچھا سیاستدان ثابت ہو سکتا ہے؟ ابھی ایک ہفتے کے دوران تحریک انصاف کے پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر میاں محمود الرشید کی مشاورت سے جن شخصیات کے نام بطورِ نگران وزیراعلیٰ پنجاب پیش کیے گئے ان میں جناب ناصر کھوسہ نہ صرف کہ شہبازشریف کے ذاتی دوستوں میں شمار ہوتے ہیں بلکہ انہیں شریف خاندان کی ذاتی خدمات کے صلے میں ورلڈ بینک میں اڑھائی کروڑ روپے سالانہ کی ملازمت سے بھی نوازا گیا مگر تحریک انصاف نے صرف اس ریفرنس پر کہ موصوف جسٹس آصف سعید کھوسہ کے بھائی ہیں نامزدگی کر دی بعدازاں تحریک انصاف کے اندر سے اٹھنے والی ایک بھرپور شورش نے اس کاوش پر پانی پھیر دیا وگرنہ محمودالرشید جو سابق جماعت اسلامی سے تعلق رکھتے ہیں تحریک انصاف کو ڈبونے میں کوئی کسر نہ چھوڑی تھی۔ اسی طرح تحریک انصاف نے خیبرپختونخواہ میں منظور آفریدی کو نگران وزیراعلیٰ کے طور پر نامزد کر دیا تھا مگر بعدازاں یہ اطلاعات موصول ہوئیں کہ موصوف کا تعلق اور پیشہ سمگلنگ سے ہے اور ان کے بھائی ن لیگ کے ہراول دستہ سے وابستہ ہیں جس پر کافی تردد کے بعد ان کا نام بھی ڈراپ کیا گیا۔ جبکہ گذشتہ روز ”نیک نام“ فاروق بندیال کو جو شبنم ریپ کیس میں سزایافتہ بھی ہیں کو عمران خان کے ساتھ دکھایا گیا اور ان کے گلے میں عمران خان نے خود اپنے ہاتھوں سے تحریک انصاف کا علامتی ”مفلر“ ڈالا تھا اور اس طرح جب گذشتہ روز جنوبی پنجاب کے مضبوط خاندان کے سردار ذوالفقار علی کھوسہ اپنے خاندان سمیت تحریک انصاف کا مفلر گلے میں ڈال کر شمولیت کا اعلان کر رہے تھے تو اس وقت بیشمار ذہن اور سوچیں یہ سوچ رہی تھیں کہ ذوالفقار کھوسہ کے بیٹے سردار دوست محمد کھوسہ جو کہ سپنا خان سکینڈل کی وجہ سے خاصے بدنام ہیں کو تحریک انصاف میں شامل کیا گیا ہے یا نہیں؟ قارئین! عمران کی سیاسی کریڈیبلٹی سے قطع نظر وہ ایک مستند اور ورلڈ کلاس فاسٹ باﺅلر تھے مگر گذشتہ ہفتے ایک اوور میں چار نوبال کروا کر عمران خان نے اپنی سیاسی کریڈیبلٹی مشکوک بنا لی ہے۔ میری بطور ایک سیاسی طالب علم ذاتی رائے یہ ہے کہ عمران خاں کے اردگرد جمع ہونے والے جمِ غفیر میں سیاسی شعور رکھنے والے خواتین و مرد حضرات کی شدید کمی ہے۔ میرے ان فقرات کو پڑھتے ہوئے آپ ذرا تصور کی آنکھ سے دیکھیں اور سوچیں کہ محترم فیصل جاوید ، نعیم الحق، جہانگیر ترین سمیت افراد سیاست کی الفابیٹک سے بھی ناآشنا ہیں اور محترم عمران خان کی نظر میں ان کے دوست اچھے اور مخلص دوست تو ثابت ہو سکتے ہیں مگر اچھے سیاسی مشیر نہیں۔ عمران خان کے اطراف موجود ٹولہ اسی تگ و دو میں لگا رہتا ہے کہ وہ اپنی نمبر ریٹنگ اور سبقت اندازی کو پروموٹ کریں اور ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی انہی کاوشوں کی وجہ سے وہ متعدد دفعہ عمران خان کو انتہائی خطرناک حد تک یوٹرن لینے پر مجبور کر دیتے ہیں جس کی وجہ سے عمران خان تحریک انصاف اور اس کی سیاست کی سبکی ہو جاتی ہے۔
قارئین پچھلے چار سالوں کی سیاست کا عمومی جائزہ لیا جائے اور خاص طور پر سانحہ¿ ماڈل ٹاﺅن کے تناظر میں دیکھا جائے تو آپ کو ڈاکٹر طاہر القادری اور عوامی تحریک مرکزی رول پلے کرتی نظر آتی ہے مگر سیاسی قلابازیوں اور سیاسی یوٹرنوں سے ناآشنا عوامی تحریک دراصل عوامی حمایت اور عوامی ہمدردیوں کو کیش کرانے میں ناکام نظر آتی ہے۔ عوامی تحریک کو متعدد ایسے مواقع ملے کہ وہ سیاست کی لگا میں اپنے ہاتھ میں لے سکتی تھی مگر ایسے ہر موقع پر پارٹی کے اندر موجود دوسرے درجے کی قیادت کے بروقت تیار نہ ہونے کی وجہ سے عوامی تحریک اکثر اوقات منظر سے غائب نظر آتی ہے۔ مجھے ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کے ویژن اور سیاسی صلاحیتوں سے انحراف نہیں مگر بروقت کوئی فیصلہ لینے کی استعداد پر نظرثانی کرنا ہوگی۔ آج بھی عددی اعتبار سے عوامی تحریک پاکستان کی پہلی چار جماعتوں میں شامل ہے مگر انتظامی اور ٹیکنیکلی بظاہر وہ کوئی ایک قومی اسمبلی کی سیٹ حاصل کرنے کی پوزیشن میں اس لیے نہیں کہ ڈاکٹر صاحب کو ابھی بہت مشکل فیصلے کرنا ہوں گے۔قارئین! اگر ڈاکٹر طاہر القادری اور عمران خان نے موجودہ حالات کے تناظر میں کوئی متفقہ لائحہ عمل اور سیاسی پالیسی نہ اپنائی تو مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کی قیادتیں جن کے پاس پہاڑوں جتنے وسائل ہیں اور خزانے کا منہ کھول کر پاس سے گزرتے ہوئے اقتدار کو ایک دفعہ پھرٰ ہڑپ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور دوسری طرف عمران خان ہر گلے میں مفلر ڈال کر خود کو سیاست کا ارسطو سمجھنے لگے ہیں انہیں یاد نہیں کہ یہ گلے اس سے پہلے کئی ہاتھوں سے اپنے گلے میں ایسے ہی مفلر اور چادریں ڈلوا چکے ہیں۔