نگران حکومتیں! کھیل لڑکوں کا ہوا دیدہ¿ بینا نہ ہوا
جس طرح مرکز اور پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں حکومت اور اپوزیشن نے مل کر جناب ناصر الملک اور ناصر کھوسہ صاحب کے نام تجویز کئے اس سے گمان ہو چلا تھا کہ سیاست دانوں کی سوچ میں پختگی آ رہی ہے بچگانہ ضد ترک کر دی گئی ہے۔ چارسُو داد و تحسین کے ڈونگرے برسنے لگے لیکن ابھی کالم نویسوں کی تحریر کی سیاہی خشک بھی نہ ہوئی تھی کہ پتہ چلا کہ عمران خان نے اب کے یوٹرن نہیں بلکہ ”اباّوٹ ٹرن“ لیا ہے۔ عقل حیران ہوتی ہے کہ ملک کا ”ممکنہ وزیراعظم“ اس قدر بچگانہ سوچ رکھ سکتا ہے۔ کوئی ایک آدھ بوالعجبی ہو تو اس سے صرف نظر کیا جا سکتا ہے لیکن جب کہہ مکرنیاں اور بدحواسیاں قطار اندر قطار کھڑی ہو جائیں تو پھر تشویش کا لاحق ہونا قدرتی امر ہے۔ ناصر کھوسہ نہایت شریف اور قابل افسر رہے ہیں۔میں جب کمشنر بہاول پور تھا تو یہ کمشنر ملتان تھے۔ بعد میں جب گورنر پنجاب کے پرنسپل سیکرٹری بنے تو بھی ان سے رابطہ رہا۔ نرم دم گفتگو ، گرم دمِ جستجو، بہرحال انسان تھے۔ بطور چیف سیکرٹری ان سے غالباً ایک غلطی ہوئی، صوبائی افسروں سے نارواسلوک۔ یہ جب بھی کسی پی سی ایس افسر کو دیکھ لیتے ہیں یا اس سے بات کرنے کی زحمت گوارا کرتے ہیں تو انہیں باقاعدہ کھانسی شروع ہو جاتی ہے۔ جب بھی کسی شخص کا نام تجویزکیا جاتا ہے تو پہلے اس کا عندیہ لیا جاتا ہے۔ خان صاحب نے یہ زحمت بھی گوارا نہ کی اور ناصر کھوسہ کا نام تجویزکر دیا۔
میاں برادران پرشادی مرگ کی کیفیت طاری ہو گئی۔ انہوں نے فوراً ہاں کر دی۔ احتیاطاً محمود رشید سے پریس کانفرنس بھی کروا ڈالی۔ گویا قانونی اور اخلاقی طور پر واپسی کے سارے راستے بند کر دئیے۔ اسے قانون کی زبان میں "ESTOPPLE" کہا جاتا ہے۔ کھوسہ صاحب چاہتے تو قانوناً حلف لے سکتے تھے۔ سمری گورنر کے پاس پہنچ چکی تھی۔ لیکن کسی بھی باعزت اور باوقار انسان کی طرح انہوں نے انکار کر دیا ۔ ویسے بھی نجم سیٹھی کی مثال ان کے سامنے ہے، وہ ابھی تک پینتیس پنکچروں کا زخم چاٹ رہے ہیں۔ سیٹھی تو خیر گرم و سرد چشیدہ انسان ہیں۔ پاکستان کرکٹ کا مدارالمہام بن گئے۔ اپنے راج سنگھاسن پر صرف براجمان ہی نہیں رقص کناں بھی ہیں۔ کھوسہ صاحب حیثیت ازالہ عُرفی کا دعویٰ کس پر کریں؟ کسے وکیل کریں، کس سے منصفی چاہیں! بغیر کسی جُرم کے اتنی بڑی سزا! خان کو اپنی اداﺅں پر ذرا غور کرنے کی ضرورت ہے۔ اس طرح کاروبار زندگی نہیں چلتا۔
اب منظور آفریدی کی مثال لے لیں۔ حکومت اور اپوزیشن نے متفقہ طور پر انہیں نامزد کیا، گویا قانونی تقاضے پورے ہو گئے۔ ان حالات میں حلف سے قبل انہیں بنی گالا جاکر ملنے کی کیا ضرورت تھی؟ ایک طوفان کھڑا ہو گیا۔ اسفند یار اور حضرت مولانا نے درست طور پر احتجاج کیا جو شخص حلف اُٹھانے سے قبل ہی خان کی چوکھٹ پر سجدہ ریز ہو گیا ہے بعد میں تو باقاعدہ اس کے نام کی مالا جپنی شروع کر دے گا۔ نتیجتاً اس کا نام بھی بادلِ نخواستہ واپس لے لیا گیا۔
بحث کی خاطر ہی سہی شک پڑتاہے کہ کہیں خان میاں نواز شریف سے سازباز تو نہیں ہو گیا ۔ ذرا سادگی ملاحظہ فرمائیں کہتے ہیں اقامہ والا فیصلہ جس کی وجہ سے میاں صاحب کو نکالا گیا کمزور تھا۔ میاں صاحب نے اُن الفاظ کو اس طرح جھپٹ لیا ، جیسے باﺅنڈری پر کیچ لیا جاتا ہے۔ اپنی ”بےگناہی“ ثابت کرنے کے لئے ان شبدوں کو بطور دلیل پیش کرتے ہیں۔ میاں صاحب سے بھی پوچھا جا سکتا ہے آپ خان کو عادی جھوٹا کہتے ہیں۔ اس بات کو سچ کیسے مان لیا ہے؟ خان کے اردگرد جو مشیر ہیں وہ بھی کچھ اتنے تجربہ کار نہیں لگتے، وگرنہ ان الفاظ کو اس قسم کے معنی پہنائے جا سکتے تھے جیسے ایک دفعہ سینئر وکلا نے تشریح کر کے ایک جونیئر وکیل کو بچایا تھا۔ بحث کرتے ہوئے وہ جج کو مخاطب کرتے ہوئے غصے سے بولاSITTING SO HIGH - TALKING SO LOW جب اسے توہین کا نوٹس دیا گیا تو وکلا اس کی مدد کو آ گئے۔ بولے اس کا مقصد جناب کی توہین کرنا نہیں تھا۔ اس کی انگریزی کمزورہے۔ یہ کہنا چاہتا تھاکہ جناب بہت اونچی جگہ پر براجمان ہیں۔ اس لئے آواز مدھم سنائی دے رہی ہے۔ وکیل کی جاں بخشی ہو گئی۔ پارٹی کے ترجمان فواد چودھری صاحب ، اعتزاز احسن کے ہمنوا ہو کر کہہ سکتے تھے، سزا میں نرمی برتی گئی ہے۔ مزید سخت ہونا چاہئے تھی! یہی خان کا مطمح نظر تھا....بڑے پن کا تقاضا یہی ہے کہ خان صاحب باقاعدہ معذرت کریں۔ آئندہ بولنے سے پہلے تول لیا کریں۔ پیپلز پارٹی نے عبوری وزیراعظم کے لئے جو نام تجویز کئے تھے ان پر حیرت بھی ہوتی ہے اور ہنسی بھی آتی ہے۔ ذکاءاشرف ، جلیل عباس گیلانی، اس سے تو اگر ایّان علی کا نام تجویزکر دیتے تو وہ زیادہ معتبر ہوتا۔ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کو وہ تفنن کے کئی اسباب فراہم کرتا۔ محترمہ جب پیشی بھگتنے عدالت میں جاتی تھیں تو کچھ یوں گمان ہوتا جیسے عمر خیام نے کوئی تازہ رباعی تخلیق کی ہو۔ غالب کی غزل میں جان پڑ جا تی
لرزے ہے موجِ مے تری رفتار دیکھ کر!
ذکاءاشرف کی واحد کوالیفیکیشن یہ ہے کہ وہ زرداری کے وفادار ہیں۔ وفا کیش بھی ایسے جس کے متعلق مرزا نے کہا تھا ....
وفاداری بشرط استواری اصل ایماں ہے
مرے بُت خانے میں تو کعبے میں گاڑو برہمن کو
ذکاءصاحب کا تعلق پنجاب کے آخری ضلعے رحیم یار خان سے ہے، وہاں زمینیں ہیں، بہاول پور میں شوگر مل ہے، ان کے آباﺅ اجداد تو ضلع گجرات کی تحصیل کھاریاں کے باسی تھے۔ ان کی قسمت نے اس وقت پلٹا کھایا جب مولوی اختر علی گجر ضلع رحیم یار خان کے ڈپٹی کمشنر / لینڈ کلکٹر مقرر ہوئے۔ مولوی صاحب نے پنجاب بھر کے گجروں کو رحیم یار خان میں تھوک کے حساب سے زمین الاٹ کی۔ مولوی صاحب کی سخاوت کا یہ عالم تھا کہ کاغذ نہ ہونےکی صورت میں سگریٹ کی ڈبیہ پر الاٹ منٹ آرڈر جاری کر دیتے۔ ایک مرتبہ صبح نہر کے کنارے سیر کر رہے تھے کہ ایک میراثی حاضر ہوا اور مروجہ دعاﺅں کے بعد اس نے ایک مربعہ زمین کی خیرات مانگی۔ مولوی صاحب نے اس کی ہتھیلی پر ہی الاٹ منٹ آرڈر لکھ دیا۔
زمینیں آباد ہو گئی ہیں۔ نہری پانی کی وجہ سے چارسُو ہریالی اور خوشحالی ہے ذکاءاشرف کے والد بیدار مغز انسان تھے۔ انہوں نے محض زراعت پر قناعت نہ کی بلکہ تجارت کی طرف بھی توجہ دی۔ نتیجتاً ذکاءاشرف کا شمار ملک کے امیر آدمیوں میں ہوتا ہے۔ ان کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ دیتے ہیں بادہ ظرفِ قدح خوار دیکھ کر زرداری صاحب ایسے نایاب موتی کو کیسے نظرانداز کر سکتے تھے! گھوڑوں کی جب دوڑ ہوتی ہے تو اگلے دن اخباروں میں ریس میں اول ’دوم، سوم آنے والے کے ساتھ اس گھوڑے کا بھی ذکر ہوتا ہے جو سب سے پیچھے رہ جاتا ہے۔ "HE ALSO RAN" ان کا نام کئی دن تک اخباروں میں آتا رہا۔ فوٹو چھپتے رہے! یہ بھی کوئی کم بات نہیں ہے۔ کسی زمانے میں محض انگلستان جانا بھی ایک کوالیفکیشن تھی۔ لوگ نام کے ساتھ لکھتے ”انگلینڈ ریٹرن“ ایک سردار جی تھوڑی سی اضافت کرتے "RETURN BY ENGLAND" لوگوں کے استفسار پر بتایا مجھے بندرگاہ سے ہی واپس بھیج دیا گیا تھا۔ ذکاءصاحب سے ہمارے دیرینہ مراسم ہیں اس لئے تھوڑی سی گستاخی کر لیتے ہیں میں چار سال تک رحیم یار خان کا ڈپٹی کمشنر رہا اور اس خاندان سے تعلق رہا، یہ بنیادی طور پرنفیس انسان ہیں۔ ان کا مسئلہ یہ ہے کہ ان کا مقابلہ کسی اور سے نہیں بلکہ اپنے رشتہ داروں سے ہی ہے۔ ان کی ہمشیرہ عشرت اشرف (ن) لیگ کی ممبر قومی اسمبلی ہیں۔ بہنوئی جعفر اقبال غالباً سینیٹر ہیں۔ کسی زمانے میں صوبائی وزیر بھی رہے۔ پنجاب کی بڑی برادریوں میں پیچھے رہ جانا سُبکی کی بات ہوتی ہے۔اس لئے کسی اہم عہدہ کے لئے ان کا ہاتھ پاﺅں مارنا سمجھ میں آتا ہے....جلیل عباس، یوسف رضا کے پروردہ ہیں۔ ایک فارن سروس کا شخص کس طرح وزارت عظمیٰ کی ذمہ داریوں سے عہدہ برآہوتا۔ ان کے دو ماہ تو سمریوں کی نوک پلک سنوارنے اور تراش خراش میں ہی گزر جاتے۔
ناصرالملک صاحب کے متعلق دو آرا نہیں ہو سکتیں جو شخص ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کا چیف جسٹس رہا ہو، اس کا کردار روش اور غیر جانبداری مُسلّم ہوتی ہے۔ اس وقت بازار سیاست گرم ہے۔ چارسُو لفظی گولہ باری ہو رہی ہے۔ شکوک و شبہات کے پہاڑ کھڑے کئے جا رہے ہیں۔ اس ماحول میں بسااوقات اپنا دامن بچانا مشکل ہو جاتا ہے۔ ذرا سی لغزش پا تھوڑی سی ذہنی اُپج کئی مشکلات کو جنم دے سکتی ہے۔ ہمیں امید ہے کہ وقت کی اس پُل صراط سے وہ بحفاظت گزر جائیں گے! ہمسایہ ملک میں گنتی سے پہلے الیکٹورل بیگز کئی کئی دن محافظ خانے میں رکھ دئیے جاتے ہیں ۔ یہاں ایسا ہو تو ایک طوفان کھڑا ہو جائے ۔ بیلٹ بکسوں کے بخیئے اُدھڑ جائیں ان میں پرچیوں کی بجائے خس و خاشاک کے ڈھیر نکلیں ۔ دوسراسٹنگ گورنمنٹ پر اعتماد نہیں کیا جاتا ۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں ایسا ہی ہوا، ہرچہ بادا باو ہوگیا ۔ تمام وزرائے اعلیٰ نے مقامی انتظامیہ کی مدد سے اپنے آپ کو "UNOPPOSED" منتخب کرا لیا۔ نتیجتاً جمہوریت کی بساط ہی لپیٹ دی گئی۔ کہنے کو تو ہر کوئی کہتا ہے کہ جمہوریت کو پنپنے نہیں دیا گیا۔ یہ کوئی نہیں مانتا کہ اس ”کارخیر“ میں اس کا کس قدر حصہ تھا۔ لہٰذا ضرورت اپنے اندر جھانکنے کی ہے۔ اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرنے کی ہے۔ اکثر دلیل دی جاتی ہے کہ ”میرے راہ راست پر آجانے سے کیا ہوگا سارا آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے“۔ یہ بودی دلیل ہے ، مدقوق منطق ہے۔ سو میل کا سفر پہلا قدم اُٹھانے سے ہی طے ہوتا ہے
شکوہ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے
ویسے تو کوئی الیکشن کرانا بھی آسان نہیں ہوتا پر کچھ اب کے سرگرانی اور ہے ملک کے تین مرتبہ منتخب وزیراعظم کا فوجداری مقدمہ اختتامی مراحل کی طرف بڑھ رہا ہے ۔ بریت کی صورت میں تو حالات نارمل ہو جائیں گے ۔ بالفرض سزا ہوگئی تو ایک طوفان اُٹھ سکتا ہے۔ نہ بھی اُٹھے تو ’ن‘ لیگ نے الیکشن کے نتائج ماننے سے یکسر انکار کر دینا ہے۔جس قدر احتجاج عمران خان نے کیا تھا۔ اس سے کہیں بڑی لہر بالخصوص پنجاب سے ا’ٹھے گی۔ خان( بالفرض حکومت بنا لیتا ہے ) کی اصول پسندی ایک مضبوط گروہ کے مفادات سے براہ راست ٹکرائے گی ۔ قدم قدم پر قانونی ضابطے انتظامی اقدامات کا راستہ روکیں گے اور یہ خان کی فہم و فراست ، تدبر اور حکمتِ عملی کا بہت بڑا امتحان ہوگا۔ بڑوں کی اس کشمکش میں بالآخر کون جیتے گا؟ یہ کہنا تو سرِدست مشکل ہے۔ جو بات وثوق سے کہی جاسکتی ہے وہ یہ ہے کہ سانڈوں کی لڑائی میں نقصان گھاس کا ہوتا ہے ۔ غربت افلاس اور بےروزگاری کی چکی میں پسے ہوئے عوام کا کیا بنے گا؟