نگران وزیراعظم کے عزائم شفاف انتخابات کی ضمانت
نگران وزیراعظم جسٹس (ر) ناصر الملک خاں نے کہا ہے کہ الیکشن اپنے مقررہ وقت پر ہی ہونگے۔ انہوں نے گزشتہ روز سوات میں مقامی پریس کلب کے صحافیوں کے وفد سے باتیں کرتے ہوئے کہا کہ شفاف اور غیر جانبدار انہ الیکشن کا انعقاد اولین ترجیح ہے۔ انہوں نے کہا کہ تمام اداروں کو اپنے دائرہ اختیار میں رہتے ہوئے کام کرنا ہوگا۔ شفاف الیکشن کا انعقاد ہر حال میں یقینی بنائیں گے۔ مختلف اخباری ایجنسیوں کے مطابق نگران وزیراعظم نے مزید کہا کہ میں صرف دو ماہ کےلئے آیا ہوں ، یقین دلاتا ہوں کہ انتخابات 25جولائی کو ہی ہونگے اور ملک میں تمام کام صرف آئین کے مطابق ہوں گے۔
2018 کے عام انتخابات ایک ایسی فضا میں ہو رہے ہیں جس کی پہلے کوئی مثال نہیں ملتی، انتخابات کے بروقت انعقاداور انکی شفافیت اورسینہ گزٹ کے ذریعے پھیلائی جانےوالی افواہوں اور بے بنیاد خبروں کی اس قدر دھول اڑائی جا رہی ہے کہ اعتماد و اعتبار کی جگہ بے یقینی فروغ پارہی ہے ، تاہم نگران وزیراعظم کے طور پر جسٹس (ر) ناصر الملک کا انتخاب اور پھر بروقت اور شفاف الیکشن کرانے کیلئے انکے علاوہ چیف جسٹس سپریم کورٹ اور چیف الیکشن کمشنر کے بھی دوٹوک اعلانات او ر پختہ عزائم ، نہایت حوصلہ افزا اور اطمینان بخش ہیں۔ ملک کے تین اعلیٰ ترین ذمہ داروں کی جمہوریت کے ساتھ دوٹوک کمٹمنٹ کے باعث غیر یقینی کی فضا کے بادل چھٹنے لگے ہیں ۔اس تناظر میں ایسے لوگ کسی طور بھی ملک و قوم کے خیرخواہ نہیں ہیں جو سیاسی جماعتوں کی صف آرائی اور پولرائزیشن کو بڑھا چڑھا کر پیش کر رہے ہیں اور ایک جماعت سے دوسری جماعت کی طرف جانے والوں کے ہجوم کو غلط رنگ دے کر یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ اسکے پیچھے ”کوئی تو ہے“۔ان افواہوں سے یہ تاثر ابھر رہا ہے کہ مقتدر ادارے ایک پارٹی کو شکست دلانا اور دوسری کو جتوانا چاہتے ہیں۔ اگرچہ ذمہ داروں کی انتخابات کی شفافیت اور جمہوریت سے کمٹمنٹ اس بات کی ضمانت ہے کہ ”کوئی تو ہے“ کی حیثیت مفروضہ سے زیادہ نہیں اور یہ کہ اس مفروضہ کی بنیاد پر تاثرات پھیلانے والے اپنے مذموم مقاصد میں نامراد و ناکام رہیں گے۔ انتخابات 25جولائی کو ہی ہوں گے اور تمام کام صرف آئین کے مطابق ہوں گے تاہم اس حوالے سے ایک اور پہلو پر بھی توجہ دینا ضروری ہے کہ نگران سیٹ اپ کو اپنی ساکھ بچانے کیلئے ایسے لوگوں کو ضرور بے نقاب کرنا ہوگا جو ”کوئی تو ہے“ کے تاثرات پھیلا کر شکوک وشہبات کی فضا کو فروغ دے رہے ہیں۔ اگر ان سے صرف نظر کیا گیااور انکے پھیلائے تاثر کو جڑ پکڑنے کاموقع ملا تو سسٹم کے درپے عناصر کو انتخابی نتائج متنازع بنانے میں آسانی ہوگی اسکے نتیجے میں جو انارکی پھیلے گی، اس سے ملک و قوم کے علاوہ جمہوریت کو بھی شدید نقصان پہنچے گا۔