نیا پاکستان اور زبوں حال زراعت
کیا وزیر اعظم پاکستان عمران خان اپنے موجودہ مدد گاروں کے ساتھ مل کر قوم کو وہ نیا پاکستان دے سکتے ہیں جو ان کے ذہن میں ہے یا جس پاکستان کا انہوں نے قوم کے ساتھ وعدہ کیا تھا؟ یہ ہے وہ سوال جو اس وقت ہر اس سنجیدہ پاکستانی کے دل میں ہے جس نے عمران خان کو ووٹ دیا ہے۔ وزیر اعظم کے ساتھی آج وہ لوگ ہیں جو ہمیشہ برسرِ اقتدار آنے والی سیاسی جماعت کے ساتھ ہوا کرتے ہیں۔ یہ ابھی تک طے نہیں ہو سکا کہ پاکستان میں جمہوریت کا لباس پہن کر بادشاہت آیا کرتی ہے یا قوم انتخاب کے ذریعے اپنے بادشاہ چنتی ہے۔ تاہم سچ یہ ہے کہ انگریز جاتے جاتے اقتدار اپنے جن وفادار خاندانوں کے حوالے کرکے گئے آج بھی ہمارے حاکم وہی وفادار سامراج پسند غلام ہیں ۔ کئی الیکشن آئے اور گزر گئے اور کئی آمر آئے اور چلے گئے لیکن سامراج کے پیدا کردہ حکمران لازوال دکھائی دیتے ہیں۔ جبکہ آمریت ہو یا جمہوریت یہ چند حکمران خاندان ہر دور میں حکمران ہی نظر آتے ہیں ۔ عمران خان اگر ناکام ہو جاتا ہے تو اس کے بعد ہمیں ایک خلا یا ایک طوفان دکھائی دیتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ایک دن ایسا بھی آئے جب قوم یہ سوچنے پر مجبور ہو جائے کہ ووٹ نے اسے کیا فائدہ دیا ہے اور وہ ووٹ دینے کیوں جائیں؟ قوم اپنی زندگی میں ایک عملی تبدیلی چاہتی ہے جو قدیمی اور موروثی سیاسی خاندانوں کی موجودگی میں کبھی نہیں آسکتی۔ پاکستان میں سیاسی اجارہ داری اس ملک اور قوم کیلئے ایک عذاب ہے جو نئے ترقی پسند سیاسی افکار پیدا ہی نہیں ہونے دیتی۔
سابق امریکی صدر ابراہم لنکن نے غلامی کے خلاف ان جنوبی امریکی ریاستوں کے خلاف جنگ کی جو کپاس پیدا کرتی تھیں اور غلامی کے حق میں تھیں۔ کیونکہ وہ کالے لوگوں کو بردہ فروشوں سے خرید کر بطور کھیت مزدور اپنے پاس رکھتی تھیں۔ جب لنکن کو کہا گیا کہ غلامی کو قائم رکھنا جنوبی باشندوں کا متفقہ مطالبہ ہے تو صدر نے جواب دیا کہ میں عوام کے کسی احمقانہ فیصلے کو تسلیم کرنے کا پابند نہیں ہوں۔ کیا پاکستان کے عوام جذباتی اور غلط فیصلے کرتے ہیں؟ یہ ہے وہ تلخ حقیقت جس پر غور کرنا بہت ضروری ہے۔
پاکستان کی معیشت زراعت سے وابستہ ہے جبکہ موسم تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے اور بہت سی فصلیں غائب ہوتی جا رہی ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے ضلع وہاڑی سارے صوبہ سندھ کے مقابلے میں زیادہ کپاس پیدا کرتا تھا لیکن اب آپ وہاڑی سے کپاس کو غائب دیکھتے ہیں۔ کیونکہ اس علاقے میں اب کپاس بہت مشکل فصل بن گئی ہے۔ اسی طرح گندم کے کاشتکار سے حکومت اور منڈی نے کئی سال بہت برا سلوک کیا ہے جس کی وجہ سے گندم کا زیر کاشت رقبہ آدھا ہو گیا ہے اور اس سال تین ماہ بعد گندم تو زمین پر ہوگی لیکن اس کا نرخ آسمان پر چلا جائے گا۔ پاکستان عملی طور پر قحط کی طرف قدم بڑھا چکا ہے اور ہو سکتا ہے گندم اور کپاس باہر بھیجنے والا ملک پاکستان غیر ممالک سے گندم اور کپاس منگوانے پر مجبور ہو جائے۔ یہ سب کچھ اس لئے ہوا ہے کہ صنعتکاروں اور سرمایہ داروں کی حکومت نے کاشتکاروں سے برا سلوک کر کے انہیں دوسرے پیشے اپنانے پر مجبور کیا ہے ۔اگر ملک کو قحط سے بچانا ہے تو کاشتکار پر سے محصولات کم کیے جائیں اور گندم کے نرخ بڑھائے جائیں تاکہ کاشتکار گندم کاشت کرنے کی طرف متوجہ ہوں۔ ٹریکٹر کوئی عیاشی کی سواری نہیں ہے لیکن اس پر اتنے ٹیکس ہیں کہ اس وقت ملت ٹریکٹر 385 جو چینی انجن کے ساتھ ملتا ہے وہ بھی پندرہ لاکھ سے زیادہ قیمت کا ہے۔ حکومت کو ٹریکٹر کامعیار بہتر اور قیمت کم کرنا ہو گی۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ نیا پاکستان اپنے ساتھ قحط بھی لا رہا ہے۔حکومت کاشتکار کو زندہ رکھے ورنہ یہاں دمادم مست قلندرہوگا۔