قیادت کا بحران اور مظلوم عوام
اس وقت پاکستانی قوم شدید مشکلات اور کئی طرح کے بحرانوں سے نبرد آزما ہے۔مصائب و آلام کے ان لمحات میں قوم اپنے آپ کو تنہا و بے آسرا محسوس کر رہی ہے۔ ہرطرف گُھپ اندھیرے کے سوا کُچھ نظر نہیں آرہا۔ قوموں کو بحرانوں اور برے حالات سے نکالنے کیلئے اچھی، محب الوطن، غریب پرور اور درد دل رکھنے والی قیادت بہت ضروری ہوتی ہے۔ جو نہ صرف ان خصوصیات کی حامل ہو بلکہ ٹھیک وقت پر اپنی قوم کی رہنمائی کرے۔ اس وقت نہ ہی حکومت اور نہ اپوزیشن اپنی قائدانہ فرائض انجام دے رہی ہیں بلکہ انہوں نے قوم کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے۔ ناتجربہ کار حکومت نے قوم کو اپنے تجربات کی بھینٹ چڑھا دیا ہے بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ انہوں نے پوری قوم کو اپنی خواہشات کا ایندھن بنا دیا ہے تو غلط نہ ہو گا۔عجیب و غریب فیصلے سامنے آ رہے ہیں۔ ملک تاریخ کے بدترین دور سے گزر رہا ہے۔ لاکھوں افراد خطِ غربت سے نیچے چلے گئے ہیں۔ لاکھوں بیروزگار ہوکر حالات کے بے رحم تھپیڑوں کی نظر ہو چکے ہیں۔ بے رحمانہ ٹیکسوں نے کاروبار اور انڈسٹریز کا گلہ گھونٹ دیا ہے۔ بعض اوقات تو ایسا لگتا ہے کہ جس طرح کے حالات پیدا کر دئیے گئے ہیں۔ یہ نااہلی نہیں بلکہ کسی سازش کے تحت ملک کو ایسی ڈگر پر لاکھڑا کیا گیا ہے کہ اب شاید اسے دوبارہ اُٹھنے میں دہائیاں لگ جائیں۔
ایسے حالات سے نمٹنے کیلئے دو طرح کی قیادت قوم کے شانہ بشانہ ہوجائیں تو پھر بحرانوں سے نکلنا ناممکن نہیں ہوتا۔ایک تو حکومت وقت ہوتی ہے جو اگر صحیح معنوں میں بحران سے نکلنے کی ٹھان لے تو حالات بہتر ہونے کیلئے سال نہیں بلکہ دنوں کی ضرورت ہوتی ہے مگر پاکستانی قوم کی بدقسمتی ہے کہ وہ اس وقت جن حالات سے گزر رہی ہے وہ اس کی اپنی حکومت کے پیدا کردہ ہیں تو وہ کیونکر اور کیسے ان حالات سے نکلنا چاہے گی یا نکال پائے گی۔ دوسری طرح کی قیادت اپوزیشن ہوتی ہے جو ایسے حالات میں اپنی قوم کے شانہ بشانہ آ کر حکومت کو مجبور کر دیتی ہے کہ وہ موزوں اقدامات کرنے پر مجبور ہو جائے۔ اپوزیشن رہنما اپنی قوم کو لاحق بیماریوں کا علاج کرنے کی بجائے اپنا علاج کرانے کیلئے پردیس میں ڈیرے لگائے بیٹھے ہیں اور عوام کو تنہا چھوڑ دیا ہے۔ وُہ مناسب وقت پر اُڑن کھٹولے پر سوار ہو کر آئیں گے اور اپنا حق حکمرانی استعمال کرنا شروع کر دیں گے۔ حالانکہ حقیقی رہنما کبھی بھی اپنی قوم کو حالات کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑتا بلکہ ہر حالات میں ان کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے۔ وہ انہی اداروں سے اپنا علاج کراتا ہے جو وہ عوام کے علاج کیلئے بنواتا ہے۔ انہی اداروں سے اپنے بچوں کو تعلیم دلاتا ہے جن اداروں سے عام عوام کے بچے تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ مشکل حالات میں عوام سے قربانی نہیں مانگتا بلکہ پہلے خود قربانی دیتا ہے۔زمانہ جنگ میں قوم کے بچوں کو آگ میں نہیں جھونکتا بلکہ پہلی گولی خود کھاتا ہے۔ کسی کو شہید اور کسی کو دہشتگرد کہہ کر قوم کو بلیک میل نہیں کرتا بلکہ اسلامی اصولوں کو رہنما مان کر اپنی سمت کا تعین کرتا ہے۔ کبھی یورپ، امریکہ اور دیگر اقوام کی مثالیں دے کر اپنے سنہری اسلامی اقدار کو مسخ نہیں کرتا۔
کیا کیجئے کہ ہماری قوم کی قسمت میں ابھی تک قائداعظم کے بعد ایسے ہی رہنما میسر آ سکے ہیں۔ سوائے حوس حکمرانی اور حوس زر اپنے اندر پالنے کے کوئی بھی حکمران عوام دوست خوبی پالنے میں بری طرح ناکام رہے ہیں۔ ہر دور کے رہنماؤں نے سوائے سبز باغ دکھانے، مسند اقتدار حاصل کرنے کیلئے بے دریغ جھوٹ بولنے سے بھی گریز نہیں کیا۔ اقتدار حاصل کرنے کے بعد جھوٹ کا ایک اور سلسلہ شروع کر دیا گیا۔ موجودہ رہنماؤں نے تو سابقہ تمام رہنماؤں کو ان خصوصیات میں کوسوں پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ملک اس وقت پچھلے تمام ادوار سے سنگین حالات کا شکار ہو چکا ہے۔ یہاں تک کہ اب ان حالات سے نکلنے کی بھی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ موجودہ حالات سے اگر جلد نہ نکلا گیا تو یہ ملک و قوم کیلئے ناقابل تلافی نقصان کا باعث بھی بن سکتا ہے۔ عوامی قیادت خواہ وہ حکومت میں ہو یا اپوزیشن میں انہیں موجودہ حالات سے نکلنے کیلئے اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ یہ نہ ہو کہ تمام معاملات عوام اپنے ہاتھوں میں لے لیں تو اس کا انجام بہت بھیانک ہو گا جو کسی کیلئے بھی سود مند نہ ہو گا۔