قوم اب شاید گھبراگئی
ایوان نے وفاقی بجٹ 2020-21ء واضح اکثریت سے منظور کر لیا ہے ۔ اِس بجٹ سے قبل تبصرے ایسے تھے کہ یہ بجٹ پاس نہیں ہو سکے گا ۔ قومی اسمبلی میں اختر مینگل کے حکومت سے اختلافات کھل کر سامنے آئے تو خود اُنہیں ملنے اور منانے دوڑ پڑے ، بگٹی بھی ناراض تھے ۔ ایم کیو ایم بھی کوئی زیادہ خوش نہیں تھی ۔ سرکاری وفد کی آنیاں جانیاں جاری رہیں ۔ دوسری طرف اپوزیشن نے بھی اپنے رابطے جاری رکھے اور ناراض اراکین کو اپنے ساتھ مِلانے کے جتن شروع کر دئیے ۔ کرونا وبا اگرچہ راستوں میں حائل رہی تا ہم فون پر رابطوں نے کام دکھا دیا اور اپنی کوششوں کا ثمر آل پارٹینر کانفرس کی صورت میں سامنے لانے میں کامیاب دکھائی دئیے ۔ متحدہ اپوزیشن کا اعلامیہ جاری ہوا تو نا منظور بجٹ قرار دے کر تلاطم خیز صورت پیدا کر دی ۔ وزیر اعظم اور اُن کے دیگر رہنماؤں نے اراکین اسمبلی سے رابطے بر قرار رکھے اور آخری رات ایک ڈنر کا اہتمام کر ڈالا ۔ صورتحال ایسی تھی کہ حکومتی ڈنر جاری ہونے والا تھا کہ پتہ چلا مسلم لیگ ق جو حکومتی جماعت کے بڑے اتحادی ہیں انہوں نے ایک عشائیہ کا اہتمام کر رکھا ہے جس کا مطلب واضح تھا کہ وزیر اعظم کے عشائیہ میں ق لیگ شرکت نہیں کرے گی ۔ اُسی رات ایک اور خطرناک صورتحال پیدا ہوئی کہ اسلام آباد میں ہی تحریک انصاف کے سنیئر ممبران پر مشتمل ایک اور روپ اپنا ڈنر سجائے بیٹھا تھا۔ وُہ تھے تو اپنے ہی، لیکن سبھی جانتے ہیں کہ اپنوں کے اپنے دکھ ہوتے ہیں اور وہ مطالبات لیے بیٹھے تھے ۔ حکومتی وزراء کو پتہ چلا تو سپیکر اسد قیصر کی سر براہی میں وفد نے اِسلام آباد میں اُن کا کھوج نکال لیا اور سب اُن کے پاس پہنچ گئے ۔ یہ وُہ رات تھی جو فیصلہ کن ہو سکتی تھی خیال کیا جا رہا ہے کہ اپنوں کے ایک گروپ جس کی تقریباً تعداد دو درجن کے قریب تھی جہانگیر ترین کا ہم خیال سمجھا جا رہا ہے ۔ بجٹ سے ایک رات قبل جو سرگرمیاں جاری رہیں وُہ حکومت کیلئے مشکل ترین رات تھی ۔ حکومتی اراکین اور اہم رہنما اِس کوشش میں تھے کہ صورتحال واضٖح ہو ۔ا ِسی طرح عمران خان بنی گالہ میں رابطوں میں مصروف رہے ۔
تمام رات کی کاوشوں کے بعد اگلے روز صورتحال بہت واضح تھی ۔کہتے ہیں سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا ۔ اپنے پرائے اپنے مطالبات اور مفادات کیلئے حکومت کو جھٹکا دینے کو ہمہ وقت تیار رہتے ہیں اور ایسا ہی ہوا مگر مطالبات کی منظوریوں کی یقین دہانیوں کے بعد سوائے اختر مینگل کے دو ارکان کے سبھی بجٹ اجلاس میں شریک تھے ۔ مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی اِس حکومت کو گرانے کے حق میں نہیں ہیں اور وُہ ’’مکمل تعاون ‘‘ جاری رکھے ہوئے ہیں ۔ یہ خفیہ کارروائیاں ’’اپنوں‘‘ کی تھیں جو اُن کے ساتھ حکومت میں مزے اڑا رہے ہیں اور کام کسی اور کیلئے کر رہے ہوتے ہیں ۔ وزیر اعظم عمران خان نے اکثر ما فیاز کا ذکر کیا ہے وُہ ایسے مافیاز کو قریب سے جانتے ہیں ۔اِس میں کوئی شک نہیں کہ حکومت نے قرض اتارے ہیں ۔ اسٹیٹ بنک سے کوئی رقم نہیں لی تین بڑے ڈیموں پر کام شروع ہو چکا ہے لیکن رائے عامہ حکومتی کارکردگی سے خوش نظر نہیں آتی ۔ مضبوط افسر شاہی کسی ایم این اے یا ایم پی اے کی بات پہ کان دھرنے کو تیار نہیں ۔ کارکنان تحریک انصاف اپنی پارٹی کی بے انصافیوں پر احتجاج کر رہے ہیں ۔ یہ احتجاج سڑکوں پر نہیں بلکہ سوشل میڈیا پر بہت واضح ہے ۔ جماعت میں وزیروں کی کارکردگی سے نالاں نظر آتے ہیں ۔ پی آئی اے جہاز کے حالیہ حادثہ پر وزیر ہوا بازی نے جو رپورٹ قومی اسمبلی میں پیش کی تو پوری دنیا حیران و ششدر رہ گئی کہ 264 کمرشل پائلٹ کے پاس جعلی لائسنس ہیں اور دنیا کے ہوا باز اداروں نے اِس کا نوٹس لیا ہے ۔ ایسے ہوا باز ملازمتوں سے فارغ ہو جائیں گے اور پاکستان پر یہ داغ بھی رہ جائیگا ۔ اگرچہ یہ درست ہو گا کہ ایسے پائلٹس گزشتہ سیاسی ادوار میں سیاسی طور پر تعینات ہوئے ہیں ۔اراکین اسمبلی حالیہ پٹرول ، ڈیزل اضافے پر بھی ناراض تھے اور حکومتی ترجمان بھی اس اضافے کی کوئی ٹھوس وجہ بیان کرنے سے عاری ہیں ۔ حالیہ بجٹ میں وفاقی حکومت کی طرف سے تنخواہوں میں اضافہ نہ کرنے پر بھی ملازمین سے آنکھ نہیں ملا سکتے لیکن سندھ کی صوبائی حکومت نے تنخواہوں میں اضافہ کیا ہے ۔ تنخواہوں میں اضافہ نہ کرنا اور پنشنر کو یکسر نظر انداز کرنا عوامی سطح پر حکومتی پذیرائی میں کمی کا سبب بنا ہے۔بجٹ تو پاس ہو گیا لیکن وزیر اعظم کو ادراک ہو چکا ہو گا کہ اندر سے اُن کے اپنوں نے کیا کردار کیا ہے اور کون مافیاز ہیں جو انہیں چلنے نہیں دے رہے اور وُہ آخری چوائس ہونے کا پیغام کس کو دے رہے ہیں وزیر اعظم کو ابھی دیگر امتحانات سے گزرنا ہے ۔ ٹڈی دل اپنے سے اور کرونا سے ملکی معیشت سے شدید نقصان پہنچ چکا ہے ۔ سیلاب کے امکانات ظاہر کیے جار ہے ہیں ۔ کراچی میں سٹاک ایکسچینج پر حملہ کراچی کے حالات کی منظر کشی کر رہا ہے ، بلوچستان سے ناراض رہنماؤں کا ایجنڈا ہی اور ہے ۔ عمران خان کو چاہئے وہ قوم کو اعتماد میں لیں ، اپنے کارکنان سے رابطہ رکھیں ۔ اندرونی اور بیرونی سازشوں کو سمجھیں ۔ مہنگائی کا طوفان آنے والا ہے ، ملازمین اور ریٹائرڈ ملازمین کا آخر کیا قصور پسے ہوئے طبقے کیلئے آگے بڑھیں ، مراعات کا اعلان کریں ، غریبوں ، مسکینوں کے سروں پر ہاتھ رکھیں ۔ یاد رکھیں محض گھبرنا نہیں کہہ دینا کافی نہیں ۔ گزشتہ دو سال سے عوام گھبرائے نہیں لیکن اب قوم گھبرا گئی ہے ۔