ملتان کی تاریخی اہمیت اور صوبہ جنوبی پنجاب
دوسری قسط
ملتان کا حکمران قلعہ کہنہ پر رہائش اختیار کیا کرتا تھا۔ صوبہ ملتان کا مرکزی شہر کبھی دوسری جگہ پر منتقل نہ ہوا۔ اُوچ کو ایک ثانوی درجہ کی حیثیت رہی۔ جنوری1749ء میں جب ملتان فتح ہوا تو لیہ کو شروع میں عارضی طور پر کمشنری کا صدر مقام بنایا گیا مگر جلد ہی چند ماہ میں ملتان ہی کمشنری کا صدر مقام قرار پایا۔ ضلع کا بھی صدر مقام یہی رہا۔ملتان کی وسعت کے پیشِ نظریہاں کی تہذیب و تمدن اور زبان سینکڑوں برس کے دیگر زبانوں اور تہذیب و تمدن کے آپس کے ملاپ کی وجہ سے ایک نئی ملتانی زبان اور ملتانی تہذیب و تمدن کی شکل اختیار کر گئی۔ اِس میں سنسکرت، ہندی، عربی،فارسی اور اردو زبانوں کے الفاظ کے ساتھ ساتھ لوکل افردکے اپنے الفاظ جن کے اپنے مفہوم ہوتے ہیں شامل ہیں۔ اِس زبان کو سرائیکی کہا جاتا ہے۔ اور یہ تمام علاقائی زبانوں سے اہم رہی ہے اور مختلف علاقوں کی بول چال کی معمولی ردو بدل اور ملاپ سے بحیرہ عرب کے ساحل سے لیکر راجستھان کے ریگستان کے کناروں تک بولی اور سمجھی جاتی رہی ہے۔اب بھی یہ پاکستان کے علاقہ جات بلوچستان،سندھ، بہاولپور، ڈیرہ جات لیہ،بھکر، ملتان، جھنگ، میانوالی،خانیوال و دیگر علاقوں کی بولی جانے والی زبان ہے۔
ڈاکٹر این اے بلوچ مرحوم نے مجھے 30سال پہلے ایک کانفرنس میں بتایا تھا کہ یہ اُن کی ماں کی بولی ہے اور وہ مجھ سے اسی زبان میں ہمیشہ بات چیت کرتے تھے۔ابشاری مقدسی375ھ 985ء میں ملتان میں عربی و فارسی کے ساتھ ساتھ ملتانی زبان کا بھی ذکر کرتے ہیں۔اوریہ ملتانی یہی سرائیکی ہے۔آج کی سرائیکی میں 60/70فیصد الفاظ عربی اور فارسی کے ہیں باقی سندھی ودیگر زبانوں کا ملاپ ہے۔ حضرت سید علی ہجویری نے کشف المحجوب میں لکھا ہے کہ ’’پنجاب پرانے زمانے میں ملتان کا حصہ تھا۔‘‘ چنانچہ ابوالفضل نے آئینِ اکبری میں پنجاب کے لوگوں کی زبان کو ملتانی کا نام دیا ہے۔ حضرت بابا فرید الدین گنج شکر ملتانی کے اَولین شاعر تھے آپ بابا فرید الدین مسعود کے نام سے قاضی جمال الدین کے گھر ملتان کے نزدیک قصبہ کوٹھوال نزد چاولی مشائخ میں یکم رمضان 569ھ (1173ئ) کو پیدا ہوئے۔ اپنی عمر کا ابتدائی زمانہ ملتان کے نواح میں بسر کیا۔ 600ھ میں اجودھن موجودہ پاک پتن میں سکونت اختیار کی۔ آپ کے اشعارپرانی ملتانی زبان میں ملتے ہیں۔ آپ کے ایک سو سال بعد امیر خسرو نے ملتان میں اپنے قیام کے دوران اِن زبانوں کے امتزاج کو تیز کر دیا۔ ملتانی زبان کی دولت اِس کے اشعار ، ضرب الامثال اور محاورات میں ہے۔مغل صوبیدار ملتان نواب عبد الصمد خان تورانی اور مغل وائسرائے لاہور نواب شاہ نواز خان کے عہدِ حکومت میں 1737ء میں نواب زاہد خان سدوزئی کو نائب ناظم ملتان مقرر کیاگیا اور اُن کی حکومت مغل صوبیداروں کے ما تحت 1749ء تک چلی۔ وہ بڑے بہادراور اعلیٰ منتظم حکمران ثابت ہوئے۔ اُن کے بیٹے نواب شاکر خان۔، نواب شجاع خان سدوزئی یکے بعد دیگرے اور پھر پوتے نواب محمد مظفر خان سدوزئی نے کابل کے سدوزئی حکمرانوں کے عہد میں ملتان میں اندرونی طور پر خود مختار حکومت قائم کر کے ملتان کی تاریخی پہچان اُسے واپس دلا دی۔ملتان اَب ہر لحاظ سے دہلی کی بجائے کابل کے ماتحت چلا گیا۔ افغانستان میں سدوزئی خاندان کی حکومت ملتان کی مسلم آزاد ریاست کی قوت تھی۔ملتان کا صوبہ جو کبھی اکبرِ اعظم سے اورنگ زیب کے عہد تک ایک بہت بڑا صوبہ تھا اَب آہستہ آہستہ رقبہ میں چھوٹا ہو کر رہ گیا ہے۔
نو اب بہاول خان نے 1749ء میں ملتان کے جنوبی علاقہ آدم واہن کو کوڑا مل مغل گورنر سے 4ہزار روپے سالانہ مستاجری پر لے لیا۔ بعد میں نواب مبارک خان نے لودھراں، میلسی، کہروڑ اور دنیا پور پر قبضہ کر لیا۔ کابل میں سدوزئی حکمرانوں کی احمد شاہ ابدالی اور اُن کے بیٹے تیمور شاہ کی وفات کے بعد اندرونی کمزوریوں کی وجہ سے سکھوں نے ملتان پر حملے شروع کر دئیے۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ، نواب محمد مظفر خان سدوزئی کے عہدِ حکومت 2جون1818ء تک آٹھ مرتبہ ملتان پر حملہ آور ہوا۔ بالآخر آخری حملہ کے دوران 2 جون 1818ء کو ملتان فتح ہوا۔61 سالہ نواب حاجی محمد مظفر خان سدوزئی نے معہ اپنے پانچ بیٹوں اور بہادر بیٹی کے ساتھ میدان جنگ میں دیگر افغانوں و ملتان کے بہادر جنگجو جوانوں کے ساتھ جامِ شہادت نوش فرمائی۔اِس طرح ہزاروں برس پر محیط ملتان کی آزادی سکھوں نے سلب کر لی۔ سکھوں اور انگریزی دور میں یہاں کا حکمران لاہورکے ماتحت ہو ا کرتا تھا۔ حکمرانوں کو مالیہ کی وصولی سے دلچسپی تھی۔سکھوں کے دَور حکومت میں مسلمانوں پر بہت مظالم کئے گئے۔ نواب محمد مظفر خان سدوزئی کے عہد میں صوبہ ملتان کی لمبائی 110 میل اور چوڑائی70 میل تھی۔سدوزئیوں کے 80 سالہ عہدِ حکومت میں صوبہ ملتان کی سالانہ کل آمدنی 5لاکھ50 ہزارروپے بنتی تھی جس میں سے نصف کابل کے حکمران لے جاتے تھے۔ جب کابل کے حکمران کمزور ہوئے تو مہاراجہ رنجیت سنگھ رقم کی وصولی کیلئے آجاتا۔ نواب محمد مظفر خان سدوزئی کی کل فوج کی تعداد 2 ہزار گھوڑ سواروں پر مشتمل تھی جبکہ 10 ہزار پیادہ بوقت ضرورت اکٹھے کر لئے جاتے۔ قلعہ ملتان اور قلعہ شجاع آباد کی حفاظت کیلئے چھوٹی توپوں کی کل تعداد 20 تھی۔
پٹھانوں کے 80 سالہ عہد حکمرانی میں ترقیاتی کاموں پر بڑی توجہ دی گئی۔سب سے پہلے نواب زاہد خان سدوزئی کے عہد حکمرانی میں (1737ء تا 1749ئ) لوگوں کی خوشحالی کیلئے زراعت اور باغات پر توجہ دی گئی۔ ملتان شہر کے قریب لانگے خان پٹھان ( بڑا کنجوس امیر پٹھان تھا )کے 50 ایکڑ باغ کوخریدا گیا۔ جس میں ہمہ قسم کے پھلوں کے درخت لگے ہوئے تھے اور اہلیان ملتان وہاں تفریح کی غرض سے آیا کرتے تھے مگر لانگے خان کو لوگوں کا اُس کے باغ میں داخلہ سخت ناگوار گزرتا تھا چنانچہ اس نے چار دیواری تعمیر کرواتے ہوئے لوگوں کا داخلہ ممنوع قرار دے دیاتھا۔لوگوں کی شکایت پر نواب زاہد خان نے اس باغ کو خرید کر عوام الناس کیلئے کھول دیا۔ لوگ خوش ہو گئے۔ اسی طرح نواب زاہد خان کے والد نواب عابد خان نے ایک بڑا آم کا باغ سورج میانی کے علاقہ(اِس جگہ اَب ائیر پورٹ بن گیا ہے۔ باغ عابد خان کے آثار ختم ہو گئے ہیں) میں لگوایا تھا۔ وہ بھی ملتان کے لوگوں کی پکنک کی جگہ تھی جسے زاہد خان نے عوام کیلئے کھول دیا تھا۔ اِسی کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے احمد شاہ ابدالی کی زیرِ نگرانی نواب علی محمد خان خوگانی صوبیدار ملتان نے ستلج، راوی اور چناب سے بے شمار نہریں کھدوائیں اورغلہ وافر پیدا ہونے لگا۔
نواب علی محمد خان خوگانی نے اپنے پہلے دورِ حکومت میں (1752ء تا 1758ئ) بڑی کامیابی سے حکومت کی۔ پٹھانوں کو احمد شاہ ابدالی نے ملتان۔ ڈیرہ جات اور سندھ میں زمینیں دیں۔ اس لئے وہ یہاں آباد ہو کر زراعت سے منسلک ہو گئے۔ لوکل عورتوں سے شادیاں کیں۔ بعد میں پٹھان کشمیر، سیالکوٹ اور سر ہند تک پھیل گئے۔ آج تک اِن کی نسلیں موجود ہیں۔ نواب علی محمد خان کا دوسرا دورِ حکومت اکتوبر 1759ء سے 1763ء تک ہے۔ اِس کے بعد 6 ماہ کیلئے 1763ء سے 1764ء تک نواب شجاع خان سدوزئی صوبیدار بنایا گیا۔ 1764ء میں نواب علی محمد خان نے نواب شجاع خان کو شکست دیکر ملتان پر قبضہ کر لیا۔نواب علی محمد خان کا تیسرا دورِ حکومت جون 1767ء تک ہے۔ اِس کے بعد جون 1767ء سے جون 1770ء تک نواب شجاع خان دوبارہ صوبیدار بنا دیا گیا۔ نواب علی محمد خان خوگانی نے اپنی حکومت کے دوران ملتان کے اولیاء کرام کے مزاروں کی مرمت کرائی۔ زیارت کیلئے دور دراز سے آنے والے زائرین کی رہائش اور خوارک کا بندوبست کیا گیا۔ اِن مزاروں کے مخادیم کیلئے تیل چراغ کے سلسلے میں جاگیرں دیں۔ 1757ء (1171ھ)میں شہر کے اندر حسین آگاہی بازار میں ایک نہایت خوبصورت مسجد تعمیر کروائی۔ یہ مسجدعلی محمد مسجد ہے مگر غلط العوام میں ولی محمد مسجد کہلوانے لگی۔یہ مسجد ملتان کی کاشی کی اینٹوں سے مزین ہے۔ اسی طرح زراعت کی ترقی کیلئے ایک بڑا نالہ کھدوایا جو غلط العوام میں نالہ ولی محمد کہلانے لگا۔ مگر افسوس پاکستان بننے کے بعد اسے بند کر دیا گیا۔ اِس پر مکانات تعمیر ہو چکے ہیں۔ قلعہ اور شہر کی فصیل کی مرمت کروائی۔ ملتان کی عید گاہ جسے 1735ء میں نواب عبد الصمد خان نے تعمیر کروایا تھا کو ضروری مرمت کے بعد آراستہ کرایا۔ قلعہ کے اندر رہائش کیلئے مکانات اور سپاہیوں کیلئے بیرکیں تعمیر کروائیں ۔ قلعہ کے اندر مزارات سے ملحقہ مساجد ، شاہ یوسف گردیزی کے احاطہ میں مسجد شیر خان اور دمدمہ کی مرمت کی گئی۔ اِس سے ملحقہ اسلحہ خانہ کو مستحکم کرایا۔ حضرت مخدوم رشید کے مزار اور حضرت سید سرور شاہ کے مزار کی مرمت کے بعد اِن مزارات سے ملحقہ مساجد کی بھی مرمت کروائی گئی۔
( جاری ہے )