5جولائی ۔ یوم ِ نجات
جنرل محمد ضیاء الحق نے 5جولائی 1977کو ایک فسطائی حکومت کو ختم کر کے پاکستانی عوام کو ایک بدترین حکمران ٹولے سے نجات دلائی جس کے خاتمے کیلئے کئی ماہ سے ملک کے طول وعرض میں ہر مسجد و منبر سے صبح و مساء دعائیں مانگی جا رہی تھیں۔ محبِ وطن اور سنجیدہ قومی حلقوں کی جانب سے 5جولائی کو ''یومِ نجات'' کے طور پر منایا جانا اسی حقیقت کے گہرے احساس و ادراک کی ترجمانی ہے۔ 1971ء میں وطنِ عزیز کی شکست و ریخت میں پیپلز پارٹی اور اس کی قیادت نے قومی وحدت اور قوم کے اجتماعی ضمیر پر گہرے زخم لگائے تھے۔ وہ اس الزام سے کبھی بری الذمہ نہیں ہو سکتی۔ جمہوریت کے ان علمبرداروں نے جمہوریت ہی کے بنیادی تقاضے پورے نہ کیے جس کے نتیجے میں ملکِ عزیز دو لخت ہو گیا۔ شکست خوردہ اور بچے کھچے پاکستان میں اقتدار پر قابض ہو کر جس طریقے سے ملکی نظام کو چلایا گیا وہ یقیناً ملک کے اساسی جواز، قیام اور وجود کی نفی تھی۔ حکمران جماعت کی پالیسیاںاس قدر ظالمانہ تھیں کہ عوام اس جماعت اور اسکے راہنمائوں سے شدید مایوس اور متنفر ہو گئے آئین میں چھ یکطرفہ ترامیم کیں اپوزیشن کے ارکان کو اسمبلی سے اٹھا کر باہر فٹ پاتھ پر پھینکا گیا۔ نا انصافی اور جبر کو فروغ دیا گیا۔ عدلیہ کا گلا گھونٹنے کیلئے اسکی Writ Jurisdiction سے باہر دلائی کیمپ قائم کیے گئے جہاں سیاسی مخالفین کو محبوس رکھ کر جسمانی ایذا ئیں دی جاتیں۔ FSF کے نام سے ایک فورس بنائی گئی جس کے ہاتھوں مخالفین پر جسمانی تشدد کرایا گیا۔ معزز اور بزرگ قومی راہنمائوں کی تذلیل کی گئی اور سیاسی قتل و غارت گری کی بنیاد ڈالی گئی۔جس میں سردار عطا اللہ مینگل کا بیٹا بھی گیا،قلم اور قلمکاروں کا مقدر عقوبت خانے ٹھہرے، راقم الحروف،الطاف حسن قریشی، ضیاء شاہد،حبیب وہاب الخیری،مجیب الرحمان شامی اور دیگر جیلوں میں تھے،مولانا مفتی محمود اور سردار عطا اللہ مینگل کی صوبائی حکومتیں توڑی گئیں۔ حیدرآباد ٹر بیونل قائم کر کے بغیر مقدمہ چلائے بلوچ اور دیگر راہنمائوں کو محبوس رکھا گیا۔ بلوچستان میں لشکر کشی کی گئی جس میں کئی قیمتی جانوں کا ضیاع ہوا۔ لسانی جھگڑے پر کراچی کا امن و امان ہمیشہ کیلئے تباہ کر دیا گیا۔ چھوٹی سے چھوٹی صنعت کو قومیا کر پارٹی کارکنوں کے قبضے میں دے دیا گیا۔
وزیر اعظم براہ راست دھمکیاں دے رہے تھے۔ ’’میں کمزور ہوں مگر میری کرسی کمزور نہیں ہے‘‘۔ یہی وجہ ہے کہ عوام نے مارچ 1977ء کے عام انتخابات میں دھاندلی کے باوجود اس جماعت کو یکسر اور مکمل طور پر مسترد کر دیا۔ صوبائی انتخابات کا بائیکاٹ کر کے پاکستانیوں نے اس سے اپنی شدید نفرت کا واضح اعلان کر دیا جس کے نتیجے میں ایک بے مثال احتجاجی تحریک نے جنم لیا۔ ہزاروں انسانی حقوق کے علم برداروں کو 32 ڈیفنس آف پاکستان رو لز اور 3 تحفظ امن عامہ کے تحت جیلوں میں ٹھونسا گیا مگرحکومت مخالف یہ تحریک پھیلتی گئی۔ اس میں مذہبی عنصر بھی شامل ہو گیا جس سے یہ تحریک مزید پر تشدد ہو گئی۔ حزبِ اختلاف نے پی این اے کے نام سے اتحاد قائم کر لیا جس کا یک نکاتی مطمع نظر مسٹر بھٹو اور اسکی حکومت سے چھٹکارا ٹھہرا۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ ملکی حالات بگڑتے گئے اور نظم و نسق کی صورتِ حال انتہائی دگر گوں ہو گئی۔ ہڑتالوں اور احتجاج نے ملکی نظام مفلوج کر دیا۔ جلائو گھیرائو میں شدت آ گئی۔ بے گناہ لوگوں کی ہلاکتیں ہوئیں اور عوام کے جان و مال کا تحفظ ناپید ہو گیا۔ سو ل انتظامیہ ناکام ہوئی تو لاہور کراچی اور حیدر آباد میں مارشل لاء نافذ کر دیا گیا لیکن عدلیہ نے اسے غیر آئینی قرار دے کر ختم کر دیا۔
حکمران جماعت نے حزبِ اختلاف کے ساتھ سیاسی بات چیت کا آغاز کر دیا مگر دونوں طرف عدمِ اعتماد، عدمِ برداشت اور سخت گیر مئوقف کے باعث کوئی مثبت نتیجہ برآمد نہ ہو سکا۔ جون 1977ء کے آخری ہفتے میں راولپنڈی کے آرمی ہائو س میں چیف آف آرمی سٹاف نے تمام کور کمانڈرز کی غیر رسمی کانفرنس بلائی۔ ملکی حالات کا تفصیلی جائزہ اور صورتِحال کی سنگینی کا ادراک کرتے ہوئے تمام شرکاء اس بات پر متفق اور متحد ہو گئے کہ اگر حکومت اور حزبِ اختلاف ملکی بحران کا کوئی سیاسی حل نکالنے میں ناکام رہتے ہیں تو ملک اور خطے کو عدمِ استحکام سے دو چار نہیں ہونے دیا جائیگا اور یہ کہ مسلح افواج آئین میں دی گئی اپنی ذمہ داریاں پوری کریں گی۔ اس سلسلے میں مسلح افواج کا کردار متعین، معین اور واضح ہے۔ اس مجوزہ اور متوقع کاروائی کو آپریشن فیئر پلے (Operation Fair Play) کا نام دیا گیا۔ فیصلہ کیا گیا کہ اجلاس میں موجود شرکاء کے علاو ہ مزید کسی بھی اور کو اعتماد میں نہیں لیا جائیگا۔ تاریخ اور وقت کاتعین چیف آف آرمی سٹاف کرینگے۔ ایک آواز آئی کہ آئین کے آرٹیکل 6 کا جائزہ بھی لیا جانا چاہیے۔
ایسے اقدام کی سزا پھانسی کا پھندا ہے۔سب نے کہا کہ وطن کو بچانے کیلئے یہ سزا ہمیں منظور ہے۔ یاد رہے کہ آئین میں آرٹیکل 6 شامل کر کے بھٹو نے اعلان کیا تھا کہ’’میں نے مارشل لاء کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے گہرا دفن کر دیا ہے‘‘۔مناسب وقت پر اعلیٰ فوجی قیادت نے صاف الفاظ میں بتا دیا کہ فوج کیا سوچ رکھتی ہے جس کے بعد بھٹو نے اعلان کیا کہ ’’اگر حزبِ اختلاف اپنی ضد پر قائم رہی تو ملک میں فرشتے آجائیں گے‘‘۔
بھٹو چاہتے تھے کہ فوج اس تحریک اور حزبِ اختلاف کو پوری قوت سے کچل دے۔ غلام مصطفیٰ کھر اپنے پارٹی کارکنوں میں اسلحہ تقسیم کر کے ان کو تشدد کے لیے تھپکی دے رہا تھا۔ جنرل ٹکا خان ریٹائرمنٹ کے فوراً بعد سیاسی عہدہ قبول کر کے پیپلز پارٹی کے مفاد سے وابستہ ہو چکے تھے۔ اُن کا خیال اور زور اس بات پر تھا کہ حصولِ مقصد کے لیے چند ہزار آدمی قتل کر دینا کوئی زیادہ بڑی بات نہیں ہو گی۔ عسکری قیادت حکمران جماعت پر بار بار زور دے رہی تھی کہ بحران کے خاتمے کیلئے جلد کوئی سیاسی حل تلاش کیا جائے۔ بھٹو ہر حال میں اقتدار سے چمٹے رہنا چاہتے تھے اور لیت و لعل سے کام لے رہے تھے۔ ایک مرحلہ پر بھٹو اور ان کے ساتھیوں نے سوچا کہ جنرل ضیاء الحق کو ہٹا کر اپنا کوئی خاص وفادار جنرل اس کی جگہ پر لایا جائے کیونکہ ضیاء الحق عوام کے خلاف فوجی طاقت کے بے رحمانہ استعمال پر تیار نہ تھے۔ مولانا کوثر نیازی نے اپنی کتاب میں ایسے کسی جنرل کا نام بھی تحریر کیا ہے جس کی بطور چیف آف آرمی سٹاف تعیناتی کا فیصلہ کر لیا گیا تھا۔ بھٹو نے ذاتی اور انفرادی طور پر ہر کور کمانڈر سے رابطہ کر کے اس سے کہا کہ بطور وزیر اعظم میری تمام توقع، بھروسہ اور اعتماد صرف اور صرف آپ پر ہے۔ اس کو ہر طرف سے یہی جواب ملا کہ جناب وزیر اعظم میں اپنے چیف آف آرمی سٹاف کے تحت آپ کا ہر حکم بجا لانے کیلئے تیار اور پابند ہوں۔ اسکے بعد بھٹو نے محسوس کیا کہ کوئی کور کمانڈر بھی فوج کے مسلمہ اصولوں کے بر عکس چلنے اور پھر اُسکے نتیجے میں General Dyre بننے کو تیار نہیں تھا۔
مسٹر بھٹو سے جنرل ضیاء الحق کی ملاقاتیں اکثر ہوتی رہیں۔ ایسی ہی ایک ملاقات میں مسٹر بھٹونے جنرل ضیاء الحق سے اچانک کہا کہ’’جنرل صاحب! سیاست میری، طاقت اور قوت آپکی۔''Let Us , We Both Rule These People '' چونکہ یہ ایک غیر متوقع، اچانک اور بے معنی بات تھی اس لیے جنرل ضیاء الحق نے کوئی جواب نہ دیا اور موضوع دوسرے رخ مڑ گیا۔ غالباً مسٹر بھٹو ضیاء الحق کی سوچ اور انداز فکر جاننا چاہ رہے تھے۔فوجی قیادت کے ا عصاب پر بے پناہ دبائو تھے۔ فوج کا اپنا اندرونی اور روایتی ڈھانچہ اور اس کا تحفظ، حکومتی احکامات اور خواہشات، خواتین کا چوڑیاں اتار کر فوجیوں کی طرف پھینکنا گلے میں قرآن مجید لٹکائے کلمہ طیبہ کا ورد کرتے نہتے مظاہرین کا فوج کی گولیو ں کے سامنے سینہ تان کر کھڑے ہو جانا، ماضی میں فوجی مداخلت کے تلخ تجربات اور نتائج، خطے میں سلامتی کی صورت حال، ملک کی بگڑتی ہوئی معاشی صورتحال، سیاسی عدمِ استحکام، فوج کا نہتے مظاہرین پر گولی چلانے سے انکار، عدلیہ کا ردِ عمل اور کردار، فوج میں نچلی سطح پر فوجی بغاوت اور ایسے ہی اور کئی بے شمار دبائو تھے۔
ایک بریگیڈیئر نے جو کہ ایک ڈویژ ن کی عارضی کمان کر رہے تھے۔ ملکی حالات کا دبائو اس قدر محسوس کیا کہ انہوں نے جنرل ضیاء الحق کو ایک فوری خط لکھ بھیجا۔ اس خط کے الفاظ کم و بیش یہ تھے۔’’پاکستان اسلام کے نام پر قائم ہوا۔ پاکستانی فوج ایک اسلامی فوج ہے ہر ظالم کا ہاتھ روکنا اس کا فرضِ اولین ہے۔ آپ اسلامی فوج کے مسلمان سربراہ ہیں۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ ایک ظالم اور جابر شخص دھاندلی اور سینہ زوری کے ذریعے ملک پر مسلط ہے۔ آپکا فرض ہے کہ اس ظالم کو گرفتار کر کے اس پر فوری مقدمہ قائم کریں‘‘۔ انہوں نے مزید یہ کیا کہ اس خط کی متعد د نقول بنا کر تمام فوجی جنرل آفیسرز کو بھیج دیں۔ چیف آف آرمی سٹاف اُس کی اس حرکت پرسخت پریشان اور ناراض ہوئے انہوں نے حکم دیا کہ اس بریگیڈیئر کا فوج کے اندر Seduction پھیلانے کے جرم میں کورٹ مارشل کیا جائے اور سخت سزا دی جائے۔ یہ اُ ن حالات کی ایک جھلک ہے جو فوجی قیادت کو درپیش تھے۔ یاد رہے کہ اس سے قبل دو بریگیڈیئر مظاہرین پر گولی چلانے سے انکار کر کے سنگین نتائج بھگتنے کا انتہائی اقدام کر چکے تھے۔ فوج چار مہینے سے انتہائی صبر اور نظم و ضبط کے ساتھ حکومت کی معاونت کر رہی تھی۔ جون کے آغاز میں اخبارات کے صفحہ اول پر چیئر مین جائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی، آرمی، نیوی اور ایر فورس کے تینو ں چیف آف سٹاف کے پیغامات اُن کی تصاویر کے ساتھ شائع ہوئے۔ جن میں کہا گیا کہ اس کشمکش میں مسلح افواج آئینی حکومت کے ساتھ ہیں۔
یہ مفروضہ قطعی طور پر غلط ہے کہ حکومت اور حزب اختلاف میں کوئی تصفیہ یا سمجھوتہ طے پا گیا تھا۔ یہ جو ایک آدھ معتبر آواز اس سلسلے میں سنائی دیتی ہے '' کہ سمجھوتہ ہو گیا تھا صرف دستخط کرنا باقی تھے کہ فوج نے بے جا مداخلت کی ''۔ بصد احترام یہ قطعی غلط اور جھوٹ ہے۔ دونوںفریق اقتدار کے بھوکے اور ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے۔ دونوں ہی ایک دوسرے کو دھوکا دے رہے تھے۔ جمہوریت، آمریت، سیاست، سیاست گری، ریاست، ریاست گری، سیادت، جہاں بانی و جہانگیری، عالمی زعما کے سینکڑوں اقوال،
درسگاہوں میں پڑی اور پڑھی جانے والی ان گنت کتابیں، بادشاہت، ملوکیت، اشتراکیت، سوشلزم، کیمونزم، کیپٹلزم، لینن ازم، مارکس ازم، مائو ازم، مسلم ریاست، اسلامی حکومت، مذہب پر قائم حکومت، قومیت کے نام پر قائم ریاست، رنگ و نسل پر قائم ریاست، زاریت، چانسلر شپ، ڈکٹیٹر شپ، کامریڈ شپ، خلافت۔۔۔ یہ سب لاحاصل اور لا یعنی بحث ہے۔ مشہور فلسفی کنفیوشس کا گزر ایک دیہات پر ہوا۔ اس نے دیکھا کہ ایک عورت ایک قبر کے سرہانے بیٹھی رو رہی ہے۔ عورت نے بتایا کہ یہ اسکے بیٹے کی قبر ہے جسے گزشتہ رات شیر کھا گیا تھا۔ دوسری قبر اس کے خاوند کی ہے جسے دو سال پہلے شیر نے نشانہ بنایا تھا۔ اسکے ساتھ اسکے باپ کی قبر ہے جسے پچھلے سال وحشی درندے کھا گئے تھے۔
کنفیوشس نے عور ت کے سر پر ہاتھ رکھا اور بولا پیاری بیٹی! تم اس علاقے کو چھوڑ کر کسی اور علاقے میں کیوں نہیں چلی جاتی۔ عورت نے کہا میرے اس علاقے کا بادشاہ بہت رحم دل اور انصاف پسند ہے'' میں اس بادشاہ کے علاقے سے باہر نہیں جانا چاہتی'' اُس دیہاتی عورت نے وہ صیغہ عارفانہ اور حرف محرمانہ بتا دیا جس کیلئے یہ سارے نظام کوشاں و سرگرداں ہیں۔ باب العلم کا سادہ و صیقل قول سدید کفر کی سلطنت قائم رہ سکتی ہے ظلم کی نہیں '' اس پر صاد او ر مشعل راہ ہے۔ آج چار اور پانچ جولائی 1977کی درمیانی شب ہے۔ رات کا ڈیڑھ بج چکا ہے۔ جنرل محمد ضیاء الحق، چیف آف آرمی سٹاف کی وردی پہنے جی ایچ کیو میں اپنے دفتر میں موجود ہیں۔ ہتھیار بند فوجی دستے وزیر اعظم ہائو س میں داخل ہو چکے ہیں۔ بھٹو نے گھبرا کر جنرل ضیاء الحق کو ٹیلی فون کیا اور کہا ضیائ! یہ کیا ہو رہا ہے؟ جنرل ضیاء الحق نے اطمینان سے جواب دیا سر! جو ہو رہا ہے میرے حکم سے ہو رہا ہے۔ بھٹو نے گھبرائی ہوئی آواز میں کہا میرے بچے تو آج ہی بیرونِ ملک سے آئے ہیں۔ چیف مارشل ایڈمنسٹریٹر نے کہا کہ’’کوئی مسئلہ نہیں آپ اطمینان سے بچوں کے ساتھ وقت گزارئیے۔ صبح ہم آپ کو راولپنڈی سے مری شفٹ کر دینگے۔ ہمارے کوئی لمبے چوڑے سیاسی عزائم اور وچ ہنٹ (Witch Hunt) کے ارادے نہیں ہیں۔ ہم جلد ہی انتخابات کرا دیں گے۔ جو کوئی بھی جیتے گا۔ ہم اقتدار اس کے حوالے کر دیں گے انشاللہ‘‘پو پھوٹنے والی ہے۔ صبح صادق کا ظہور قریب ہے۔ تقریباً 3 بجے صبح جنرل ضیاء الحق نے تمام کور کمانڈرز کو ایک برقی پیغام یعنی سگنل کے ذریعے مطلع کیا
From:Chief of the Army Staff
To:All corps commanders
''Operation Fair Play.,Well done.I will address the nation tomorrow''
یہ اقتدار کیلئے شب خون نہیں تھا۔ رات کے اندھیرے میں ڈالا گیا ڈاکہ نہیں تھا۔ یہ سازش یا بغا وت نہ تھی۔ یہ جمہوریت کی ناکامی نہ تھی بلکہ نام نہاد جمہوری حکمرانوں کی ناکامی تھی۔ مسلح افواج کا سوچا سمجھا اور متفقہ فیصلہ تھا جس کے متعلق وزیر اعظم کو پہلے ہی آگاہ کر دیا گیا تھا۔ یہ ''یوم سیاہ '' نہیں تھا ‘عوام کی پکار تھی مقہور و محبوس قوم کیلئے صبح آزادی کی نوید اور ’’یومِ نجات‘‘تھا۔