’’نوحہ‘‘
قائداعظم نے ایک دفعہ کہا تھا کہ میں اپنی داہنی جیب میں ہاتھ ڈالتا ہوں تو کھوٹا سکہ نکلتا ہے اور بائیں جیب میں ہاتھ ڈالتا ہوں تو کھوٹا سکہ نکلتا ہے۔‘‘
اندازہ کریں یہ بات اس زمانے کی ہے جب پاکستان کو وجود میں آئے پہلا ہی سال تھا۔ آج 72 سال گزرنے کے بعد آپ ذرا اندازہ کریں کہ یہ زوال اپنے کس جمال کو پہنچ گیا ہوگا۔
ہمارے پاس ’’سیاپے کی نیتوں‘‘ کی کمی نہیں۔ عظیم لکھاری اس قوم کا سیاپہ کرتے کرتے آ ج کروڑوں پتی ہو گئے۔
یہ قصہ حجاج بن یوسف سے منسوب ہے کہ جب وہ مرنے لگا تو اپنی ماں سے پوچھا کہ ماں بتائو میں جنت میں جائوں گا یا دوزخ؟ ماں نے کہا کہ جو تمہارے کرتوت ہیں اس حساب سے تم دوزخ کے مکین بنو گے۔ اس نے پوچھا ماں! یہ بتائو کہ اگر تم نے میرے جنت دوزخ جانے کا فیصلہ کرنا ہو تو تمہارا فیصلہ کیا ہوگا۔ ماں نے ٹھنڈی آہ بھری کہ بیٹا میں تو ماں ہوں کب چاہوں گی کہ تم جہنم کی آگ میں جلو۔ حجاج بن یوسف نے مسکرا کر کہا کہ اب مجھے کوئی فکر نہیں کہ میں نے سنا ہے کہ اللہ کو اپنے بندوں سے 70 مائوں جتنا پیار ہے۔ قصہ تمام۔ میں حجاج بن یوسف کے اطمینان سے اختلاف کروں گا کہ کوئی شک نہیں اللہ تعالیٰ کو اپنے بندوں سے 70 مائوں جتنا پیار ہے اور بے شک وہ غفور و رحیم ہے اور بے حد رحم کرنے والا ہے مگر یاد رکھیے کہ وہ عدل کرنے والا ہے اور اس نے یہ بھی کہا کہ اگر کسی نے اس کی مخلوق پر ظلم کیا ہے‘ اسے معافی نہیں۔ اپنے معاملات میں تو ہو سکتا ہے وہ درگزر کرے‘ رحم فرمائے۔ یاد رکھیے کہ جہاں دوسرے فرد کا معاملہ آجائے تو پھر فیصلہ عدل کے معیار پر ہوگا۔ پھر شفقت اور ماں والی محبت والا معاملہ نہیں چلے گا۔
پاکستان میں ایسے خبیث‘ بد باطن‘ مکروہ اور شیطان صفتوں کی کمی نہیں جنہوں نے اس ملک کی روح کو تباہ کر دیا ہے۔ بیوروکریسی میں اورموجودہ سیاست میں بدعنوانی، کرپشن او ربددیانتی کے امام ہیں۔ بے شمار مسٹر 10 پرسنٹ ہیں۔ جس معاشرے میں لفظ مسیحا قصاب کے مترادف ہوجائے۔میں جب سینئر سیاست دانوں کو بلاول زرداری کی پریس کانفرنس میں ہاتھ باندھے کھڑے دیکھتا ہوں اور ایان علی کے کیس میں پیش ہوتے دیکھتا ہوں تو کتابوں میں لکھا سب کچھ غلط نظر آنے لگتا ہے۔ یہ عظیم لوگ ہیں جو عمر کے اس حصے میں بھی سچ بولنا افورڈ نہیں کرسکتے۔ یہ بات غلط ہے کہ آپ نوازشریف یا زرداری کو ہی محض کرپشن کا ذمہ دار سمجھیں۔
میں آپ کو ایک واقعہ سناتا ہوں میں خود اس کا چشم دید گواہ ہوں۔ منظر! لاہور میئر آفس سائلین میں گھرے ہوئے ان کی ناک پر ریڈنگ گلاسز لگے ہوئے تھے۔ شاہدرہ کے ایک کونسلر نے ان کے سامنے درخواست رکھی جو کسی بھنگی کے ٹرانسفر سے متعلق تھی۔ میئر نے بڑی نرمی سے کہا کہ تبادلوں پر پابندی لگی ہوئی۔ شاہدرہ کے کونسلر نے درخواست واپس کھینچ لی اور بڑے تلخ لہجے میں کہا کہ میاں صاحب جب اگلا الیکشن ہوگا اور آپ ووٹ لینے آئیں گے تو پھر دیکھیں گے۔ میئر صاحب نے درخواست کونسلر سے واپس لی اور ایک لفظ کہے بنا اس کاغذ پر دستخط کردیئے۔ اس وقت جو بے بسی میئر صاحب کی آنکھوں میں تھی ویسی بے بسی اور بے کسی مجھے دوبارہ دیکھنے کا اتفاق نہیں ہوا۔
کیا غریب اور کیا امیر یہاں کے بددیانت اور ضمیر فروش اس قدر سفاک اور خون خوار ہیں کہ ان کے سامنے اچھی اچھی باتیں کرکے یہ سمجھنا کہ یہ سدھر جائیں گے یہ محض دیوانے کا خواب ہے۔ ان ظالموں کے دل پتھر ہوچکے ہیں، ان کے دلوں پر قفل لگ چکے ہیں۔ یہ وہ منحوس اور مردود ہیں جن پر کلام نرم و نازک کب کا بے اثر ہو چکا ہے۔ پراپرٹی ٹائکون جس کی شہرت سے پاکستان کا بچہ بچہ واقف ہے۔ موصوف نے جس دیدہ دلیری سے آن کیمرہ یہ اعلان کیا تھا کہ میں فائلوں کو پہئے لگا دیتا ہوں‘‘ الامان، الامان۔ ہوس زرآدمی سے کیا کیا کچھ کروا تی ہے۔ عذر گناہ،گناہ سے بھی بدتر ہوتا ہے۔ جن کی زبانیں قینچی کی طرح چلتی ہیں، ان نوزائیدہ ضمیر فروشوں کو یہ یاد ہی نہیں کہ جو جھوٹ بولنے پر مامور ہیں وہ معاشرے میں کس قدر تعفن اور بدبو پھیلا رہا ہے۔ کل کلاں کو اک گٹر نما معاشرے میں انہی کے بہن بھائیوں اور بچوں نے زندگی بسر کرنی ہے۔
کیا معاشرہ ہے جس میں غریب غربت کے ہاتھوں اور امیر امارت کے ہاتھوں مارا گیا ہے۔ یہ مصلحتوںکے ہاتھوں ذلیل و خوار ہوئے۔ ان ذلت کے مارے مردوں سے یہ توقع کرنا کہ ان سے کوئی خیرجنم لے سکتی ہے۔ تو اس سے زیادہ احمقانہ اور نامعقول بات کیا ہو سکتی ہے۔ منیر نیازی نے انہی کے لیے کہا تھا کہ…؎
اس شہر سنگ دل کو جلا دینا چاہیے
پھر اس کی خاک کو بھی اڑا دینا چاہیے
٭…٭…٭