اتوار ‘ 13؍ذیقعد 1441 ھ‘ 5؍جولائی 2020ء
پی ٹی ڈی سی کو بند نہیں اس کی تشکیل نوکر رہے ہیں: زلفی بخاری
جب ایک اہم حکومتی شخصیت کہہ رہی ہے تو چلیں ہم یقین کر لیتے ہیں ورنہ پاکستان ٹورازم کارپوریشن سے نکالے گئے ان سینکڑوں ملازمین سے اگر کوئی جا کر پوچھے تو وہ ضرور بتائیں گے کہ پی ٹی ڈی سی کو بند کر کے انہیں بے روزگار کر دیا گیا ہے۔ اب کوئی مانے یا نہ مانے یہ اس کی مرضی۔ ان ملازمین میں سے کئی تو 15یا 20 برس سے ادارے میں ملازمت کر رہے تھے انہیں بھی یک بینی و دوگوش پکڑ کر فارغ کر دیا گیا۔ اس طرح سینکڑوں خاندان فاقہ کشی کا شکار ہو گئے۔ مگر زلفی بخاری حکومت کے خاص الخاص ہیں۔ اس لئے کوئی وجہ نہیں کہ ان کی بات پر یقین نہ کیا جائے۔ ہو سکتا ہے حکومت پرانے ملازمین کو نکال کر نئے بندے یا اپنے بندے بھرتی کر کے ادارہ دوبارہ بحال کر دے۔ یوں زلفی بخاری کی طرف سے تشکیل نو والی بات سچ ثابت ہو جائے مگر یہ ادارہ بند کر کے نکالے گئے ملازمین تو بہرحال
تعمیر توکرشیش محل لاش پہ میری
شامل تیری خوشیوں میں میرا خون وفا ہے
کہتے پائے جائیں گے۔ اس وقت ویسے ہی ملک میں کساد بازاری کا دور دورہ ہے۔ بھوک ننگ اور بیروزگاری عام ہے۔ لاکھوں نہیں کروڑوں افراد اس کا شکار ہیں اب مزید چار سو افراد بھی ان میں شامل ہونے سے کیا ہو گا۔
٭٭……٭٭
نریندر مودی کا دورہ لداخ ،فوجیوں سے خطاب میں چین کا نام تک نہ لیا
ایک تو شرم کے مارے یہ دورہ نہایت خاموشی سے کیا گیا۔ میڈیا سمیت کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوئی اور بھارتی وزیراعظم بقول بھارتی حکومت اپنے فوجیوں کا مورال بلند کرنے لداخ آئے۔ اگر یہ بات درست ہے تو پھر دورے کو اتناپوشیدہ کیوں رکھا گیا۔ اس کی وجہ کہیں یہ تو نہیں کہ مودی کو ڈر تھا کہیں پیشگی اطلاع کی وجہ سے چین کے فوجی ’’مشن ایمپوسیبل‘‘ کی طرزپر کوئی ایکشن لے کر انہیں اٹھا کر نہ لے جائیں۔ اس کے علاوہ مودی نے اگر اپنے فوجیوں کا مورال ہی بلند کرنا تھا تو وہ لداخ میں چین کی جارحیت پر کیوں نہ بولے جس طرح پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کرتے رہے ‘چین کے خلاف بولتے ہوئے کیا ان کی زبان کٹتی ہے۔ یا پھر یہ…؎
کس منہ سے تیرا نام لوں دنیا کے سامنے
آئے گا کون ریت کی دیوار تھا منے
والی بات ہے۔ وجہ جو بھی ہو۔چین کے ہاتھوں بدترین درگت بننے کے بعد 20 سے زیادہ فوجیوں کی ہلاکت کے بعد اتنا تو حق بنتا تھا کہ مودی ادھر ادھر کی ہانکتے ہوئے ایک دو بڑھکیں ہی مارتے اور چین کو للکارتے تا کہ فوجیوں کو بھی خوشی ۔ مگر بھارتی وزیراعظم کسی چور کی طرح لداخ آئے اس کا صاف مطلب یہی ہے کہ وہ جانتے ہیں یہ ایک مقبوضہ علاقہ ہے بھارت کا حصہ نہیں دنیا بھر کے نقشوں میں لداخ مقبوضہ ریاست جموں کشمیر کا حصہ نظر آتا ہے۔ بھارت والوں کو نظر آئے یا نہ۔
٭٭……٭٭
گھوٹکی کچے کے علاقے میں ڈاکوئوں کا بکتر بند گاڑی پر حملہ‘ 2 پولیس اہلکارجاں بحق
یہ وہی کچے کا علاقہ ہے جہاں ہر سال یا سال میں کئی مرتبہ پولیس اور رینجرز والے ڈاکوئوں کا صفایا کرنے کی مہم چلاتے ہیں۔ اس میں بڑی بڑی کامیابیوں کے دعوے کئے جاتے ہیں۔ جن میں ڈاکوئوں کی کئی کمین گاہوں کی تباہی اور کئی ڈاکوئوں کی گرفتاری کی خبریں بھی ملتی ہیں مگر ہر سال پھر ڈاکو اسی علاقے میں پولیس پارٹی پر حملہ کرکے کئی پولیس والوں کو موت کے گھاٹ اتار کر کچے کے علاقے میں اپنی موجودگی ثابت کر دیتے ہیں۔ یہ ڈاکو اس علاقے میں جو دریائی علاقہ ہے‘ صرف مچھلی کھا کر دریا کا آلودہ پانی پی کر تو زندہ نہیں رہتے ہونگے۔ دریا کے نیچے یا زیرزمین تو چھپ کر نہیں رہتے ہونگے۔ انہیں بھی کھانے پینے کے علاوہ ادویات‘ کپڑا اور اسلحہ کی ویسے ہی ضرورت ہوتی ہے جیسے عام لوگوں کو ہوتی ہے۔ یہ سب کچھ انہیں ان کے سرپرست نہایت آسانی سے پہنچا دیتے ہیں۔ جدید اسلحہ موبائل فونز کا استعمال یونہی تو نہیں ہوتا۔ کیا یہ تمام باتیں پولیس والے نہیں جانتے۔ انہیں خبر نہیں کہ ان ڈاکوئوں کی سرپرستی کون کون کرتا ہے۔ انہیں سامان رسد کون کون مہیا کرتا ہے۔ اس لئے اب روایتی آپریشن سے ہٹ کر ٹھوس کام کرنا ہوگا جس میں ڈاکوئوں کے ساتھ ان کے سرپرستوں کا بھی خاتمہ کرنا ہوگا ورنہ یہ نیا آپریشن بھی پرانے آپریشنوں کی طرح ناکام ہی رہے گا۔
٭٭……٭٭
بائیو سیکیور ماحول میں رہنا سائنسی فلم کے مترادف ہے: مارک ووڈ
انگلینڈ کے فاسٹ بائولر کی یہ بات واقعی درست ہے۔ جب اٹھنے بیٹھنے‘ سانس لینے‘ ملنے جلنے‘ ہاتھ ملانے تک پر پابندی ہو۔ ہر وقت حفاظتی انتظامات کے تحت رہنا پڑ رہا ہو تو واقعی یہ سب کسی سائنس فکشن والی فلم کی طرح لگتا ہے۔ اب جس ماحول میں ہماری کرکٹ ٹیم انگلینڈ کے دورے پر گئی ہے‘ ہمارے کھلاڑیوں کو بھی بخوبی اندازہ ہو رہا ہوگا کہ پاکستانی لاک ڈائون اور یورپ کے لاک ڈائون میں کتنا فرق ہے۔ کونسا حقیقی لاک ڈائون ہے اور کونسا فلمی۔ اب کیا کریں انسانی جانوں کے تحفظ کیلئے کھلاڑیوں کے تحفظ کیلئے ایسا فلمی ماحول بنانا ضروری ہے ورنہ ہمارے کئی من چلے کھلاڑی دن کو سیر سپاٹا کرتے اور رات کو کلبوں میں انجوائے کرتے نظرآئیں۔ اب کم از کم حفاظتی اقدامات کی بدولت ہی سہی‘ ان کی ساری توجہ پریکٹس اور کھیل پر ہی رہے گی۔ اس طرح امید ہے کہ جی لگا کر کھیلیں گے۔ رہی بات ہار جیت کی تو وہ نصیب کی بات ہے۔