چار جولائی 1977 کی رات کو بھی ذوالفقار علی بھٹو ،عبدالحفیظ پیرزادہ اور مولانا کوثر نیازی پر مشتمل پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومتی مذاکراتی ٹیم اور پاکستان قومی اتحاد کے مولانا مفتی محمود، نوابزادہ نصر اللہ خان اور پروفیسر غفور پر مشتمل تین رکنی مذاکراتی ٹیم کے درمیان بات چیت جاری رہی۔ اسی رات اسلام آباد میں امریکی سفارتخانہ میں امریکی سفیر نے امریکہ کے یوم آزادی کے سلسلہ میں ایک استقبالیہ بھی دیا تھا۔ وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو، حفیظ پیرزادہ اور دوسری اہم شخصیات اس استقبالیہ میں شریک تھیں۔ بھٹو مرحوم کی کابینہ میں وزیر قانون عبدالحفیظ پیرزادہ نے اپنے ٹی وی انٹرویوز میں ، جو انھوں نے اپنی وفات سے کچھ عرصہ قبل پاکستانی ٹی وی چینلز کو دیئے، انکشاف کیا کہ مسٹر بھٹو نے اس عشائیہ میں انھیں ہدایت دی تھی کہ اپوزیشن یعنی قومی اتحاد کے ساتھ نئے انتخابات کے سلسلے میں جو سمجھوتہ ہوا ہے، اس کی دستاویز کو حتمی شکل دی جائے تا کہ اس پر دستخط کر کے بحران کو ختم کیا جائے۔ یہ بحران وہ تھا جو سات مارچ اور دس مارچ 1977 کے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات سے پیدا ہوا تھا۔ قومی اتحاد نو جماعتی اپوزیشن کے قومی اتحاد نے سات مارچ 1977 کے قومی اسمبلی کے انتخابات کو مسترد کر دیا تھا اور الزام لگایا تھا کہ ان انتخابات میں بڑے پیمانے پر مسٹر ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت نے دھاندلی کی ہے۔
لیکن جب ذوالفقار بھٹو نے مسٹر پیرزادہ کو نئے انتخابات کے سلسلے میں سمجھوتے کی دستاویز تیار کرنے کا حکم دیا تھا، تو اس وقت تک بہت دیر ہو چکی تھی۔ قومی اتحاد کے وہ لیڈر جو ذوالفقار علی بھٹو کو ہر صورت میں وزارت عظمیٰ سے ہٹانا چاہتے تھے اور درپردہ فوج کے ساتھ رابطے میں تھے، اپنے مقصد میں کامیاب ہو گئے تھے۔ اس رات راولپنڈی میں مری روڈ پر واقع علیوٹ ہائوس میں پاکستان قومی اتحاد کے چوٹی کے لیڈروں کو مری کی ایک شخصیت راجہ آزاد نے عشائیہ دیا تھا جس میں پیر صاحب پگاڑا شریف، ایئر مارشل (ر) اصغر خان مرحوم، سردار شیر باز مزاری، بیگم ولی خان اور بعض دوسرے لیڈر شریک تھے۔ ان لیڈروں میں پیر صاحب پگاڑا، اصغر خان، بیگم ولی، سردار شیر باز مزاری ہر صورت میں بھٹو حکومت کا خاتمہ چاہتے تھے اور وہ کسی صورت کوئی سمجھوتہ نہیں چاہتے تھے۔
لیفٹیننٹ جنرل فیض علی چشتی نے جو راولپنڈی کے ٹین کور کے کور کمانڈر تھے، اس خاکسار کو 1981 میں ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ چار جولائی کی رات دو بجے جنرل ضیاء الحق نے جو اس وقت فوج کے سربراہ تھے، مجھے بلایا اور کہا کہ پیپلز پارٹی اور قومی اتحاد کے درمیان مذاکرات ناکام ہو چکے ہیں، یہ بحران حل نہیں ہو رہا، اس لئے ملک میں مارشل لاء لگایا جائے گا اور مجھے حکم ملا کہ میں آپریشن فیئر پلے پر فوری طور پر عمل درآمد کروں۔ جنرل چشتی نے مجھے بتایا کہ آپریشن فیئر پلے کیا تھا؟ وہ اس فوجی سیکورٹی دستے کو یہ آرڈر تھا جو وزیراعظم ہائوس کی حفاظت پر معمور تھا کہ وزیراعظم ہائوس سے وزیر اعظم سمیت کوئی بھی شخص باہر نہیں جائے گا اور اس طرح چار جولائی کی رات ملک میں مارشل لاء لگا دیا گیا۔ مارشل لاء لگنے کے فوراً بعد پاکستان پیپلز پارٹی اور قومی اتحاد کے لیڈروں کو فوج کی حفاظتی حراست Protective Custody میں لے لیا گیا اور ان لیڈروں کو چکلالہ میں فوجی بیرکس میں پہنچا دیا گیا۔ اگلے روز پانچ جولائی کو سابق وزیراعظم مسٹر ذوالفقار علی بھٹو کو مری میں کشمیر پوائنٹ پر واقع گورنر ہائوس لے جایا گیا جہاں انھیں فوج کی حفاظتی حراست میں رکھا گیا جبکہ پیپلز پارٹی کی کابینہ کے ارکان کو مری میں ہی سندھ ہائوس میں رکھا گیا۔ قومی اتحاد کی ساری لیڈر شپ کو مری کے پنجاب ہائوس میں پہنچا دیا گیا۔ یہ ساری قیادت 20 دن تک مری میں فوج کی حفاظتی حراست میں رہی اور پھر انھیں رہا کر دیا گیا۔
یہ خاکسار اس وقت مری میں روزنامہ جنگ کے نامہ نگار کی حیثیت سے کام کر رہا تھا۔ مسٹر بھٹو سے ملنے کیلئے پیپلز پارٹی کے کارکن چاروں صوبوں سے مری پہنچتے رہے لیکن انھیں ملاقات کی اجازت نہ مل سکی۔ مسٹر بھٹو کو 28 جولائی 1977 کو فوج کی حفاظتی حراست سے رہا کیا گیا۔ اس سے ایک روز قبل پی پی پی کے کارکنوں کو ، جو مری کے گورنر ہائوس کے باہر جمع تھے، مسٹر بھٹو سے ملاقات کی اجازت دی گئی۔ اس ملاقات میں مسٹر بھٹو بہت جذباتی نظر آتے تھے، انھوں نے اپنے کارکنوں سے جذباتی انداز سے خطاب کرتے کہا کہ آپ لوگ اب ایک انقلاب کیلئے تیاری کریں۔ رہائی کے بعد مسٹر بھٹو مری سے اسلام آباد پہنچے جہاں وہ پیر آف مکھڈ شریف کی اقامت گاہ پر ٹھہرے اور انھوں نے پارٹی لیڈروں اور کارکنوں سے خطاب کیا جہاں سے وہ اپنے آبائی گھر لاڑکانہ چلے گئے۔
مسٹر بھٹو نے سیاسی ماحول کو ٹیسٹ کرنے کیلئے لاڑکانہ سے لاہور تک کے سفر کا پروگرام بنایا اور اس سفر میں ہزاروں لوگوں نے ان کا والہانہ استقبال کیا۔ یہ استقبال دیکھ کر فوجی انتظامیہ پریشان ہو گئی، مسٹر بھٹو بعد میں لکھا کہ کراچی کے کور کمانڈر لیٖفٹیننٹ جنرل (ر) زیب ارباب انھیں کراچی میں ملنے آئے تو انھیں لوگوں کی طرف سے والہانہ استقبال پر مبارکباد بھی دی لیکن یہی استقبال شاید مسٹر بھٹو کیلئے ایک بہت بڑا خطرہ ثابت ہوا۔ مارشل لاء انتظامیہ اس خدشے میں مبتلا ہو گئی کہ مسٹر بھٹو کہیں دوبارہ عوامی قوت کے ساتھ اقتدار میں نہ آ جائیں۔ مسٹر بھٹو نے اپنے ایک عدالتی بیان میں کہا کہ جب جنرل ضیاء الحق اور جنرل چشتی مری میں سات جولائی کو مجھ سے ملاقات کیلئے آئے تھے تو وہ بڑے ادب کیساتھ بات چیت کر رہے تھے اور انھوں نے یقین دلایا تھا کہ وہ حالات نارمل ہونے پر 90 دن کے اندر انتخاب کرا کر اقتدار نئی منتخب حکومت کے حوالے کر دیں گے لیکن جب مسٹر بھٹو ملتان سے لاہور پہنچے تو وہاں ان کا جیالوں نے بڑا پرجوش استقبال کیا اور کچھ اور ناخوشگوار واقعات بھی ہوئے جس پر جنرل ضیاء الحق نے مری سے ٹیلیفون پر مسٹر بھٹو سے لاہور میں ایک اور گفتگو کی۔ یہ گفتگو اس وقت نواب صادق قریشی کے گھر پر ہوئی جو مسٹر بھٹو کے دور میں پنجاب کے وزیر اعلیٰ تھے۔ یہیں سے کہانی کا ایک نیا موڑ سامنے آتا ہے اور شاید اس وقت جنرل ضیاء الحق کی انتظامیہ نے فیصلہ کیا کہ مسٹر بھٹو کی سرگرمیوں کو محدود کیا جائے اور انھیں عوامی رابطہ مہم سے روک دیا جائے چنانچہ جب مسٹر بھٹو اگست کے اوائل میں نواب صادق قریشی کی کوٹھی پر مقیم تھے تو لاہور کے ڈپٹی کمشنر نے انھیں آ کر بتایا کہ دفعہ 144 کے تحت انکی سیاسی سرگرمیاں پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ مسٹر بھٹو نے نواب قریشی کے گھر سے داتا دربار جانا تھا، ان کو وہاں نہ جانے دیا گیا اور پھر مسٹر بھٹو وہاں سے کراچی چلے گئے اور ستمبر کے شروع میں انکے خلاف نواب احمد خان جو کہ مسٹر احمد رضا قصوری کے والد تھے کے قتل کے الزام میں مقدمہ درج کر کے ان کا ٹرائل شروع کر دیا گیا۔ یہی ٹرائل انکی پھانسی پر منتج ہوا۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024