احتساب عدالت کے سابق جج ارشد ملک کی برطرفی
چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس قاسم خان کی سربراہی میں ہائیکورٹ کے سینئر ججوں پر مشتمل انتظامی کمیٹی نے جج ویڈیو سکینڈل کے مرکزی کردار اور العزیزیہ ریفرنس میں نوازشریف کو سزا سنانے والے احتساب عدالت کے سابق جج ارشد ملک کو ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی پر ملازمت سے برطرف کر دیا ہے۔ برطرف جج ارشد ملک نے 2019ء میں اعترافی بیان دیا تھا کہ ’’اس نے نوازشریف سے رائیونڈ میں ملاقات کی، ناصر بٹ سے مسجد نبویؐ کے باہر ملا، حسین نواز نے 50 کروڑ رشوت، مرضی کے ملک میں خاندان کی رہائش اور کاروبار کی پیشکش کی تھی۔‘‘ جج ارشد ملک کی برطرفی کا فیصلہ یقیناً ملکی نظام عدل کے حوالے سے تاریخ ساز ہے کیونکہ عدلیہ کی نیک نامی پر دھبہ بننے والے کسی رعایت کے مستحق نہیں ہوسکتے۔ تاہم اس فیصلے پر حکمران جماعت (تحریک انصاف) اور مسلم لیگ (ن) کی طرف سے ’’جیت‘‘ کے الگ الگ دعوے سمجھ سے بالا تر ہیں۔چیف جسٹس ہائیکورٹ کی سربراہی میں قائم انتظامی کمیٹی نے آئین پاکستان اور عدالتی وقار کو ہی ملحوظ خاطر رکھا ہے۔ جس کو بلاشبہ ملک کے عدالتی نظام میں ایک ’’نظیر‘‘ کی حیثیت حاصل رہے گی۔