رانا ثناء اللہ کی گرفتاری
پاکستان مسلم لیگ پنجاب کے صدر رانا ثناء اللہ کو حکومت نے گرفتار کرکے جیل میںڈال دیا ہے ان پر الزام ہے کہ ا ن کی گاڑی سے منشیات بھاری مقدار میں برآمد ہوئی ہے پہلے جس کی مقدار 21کلو تھی اب کم ہو کر 15کلو ہو گئی ہے رانا ثناء اللہ صاحب کی گرفتاری کی ہم پر زور مذمت کرتے ہوئے اس کو ذاتی اور سیاسی انتقام کا بدترین اور شرمناک کھیل قرار دیتے ہیں اور ،،،نیا پاکستان،،،کے روح رواں سے کہتے ہیں کہ اس طرح کی جابرانہ،ظالمانہ اور سفّاکانہ کاروائیوں سے نہ تو راہنمائوں کو حق بات کہنے سے روکا جا سکتا ہے اور نہ ہی مسلم لیگی کارکنوں کے حوصلوں کو شکست دی جا سکتی ہے ہم کل بھی ظلم و جبر کے خلاف بر سر پیکار ہوئے تھے آج بھی ہر وحشّت و بربریّت کا مقابلہ دلیری اور جوانمردی سے کریں گے کتنی حیرت کی بات ہے کہ رانا صاحب کی گرفتاری کے بیس گھنٹے بعد عمران خان حکومت کی ترجمان محترمہ عاشق اعوان صاحبہ میڈیا کو بتاتی ہیں کہ رانا ثناء اللہ کی گاڑی سے اعلیٰ کوالٹی کی 15کلو ہیروئن برآمد ہوئی ہے جو کہ پہلے20کلو تھی قوم کو فردوس اعوان صاحبہ کے دعوئوں پر بالکل تعجب نہیں ہوا کیونکہ جو حکومت سانحہ ساہیوال کے مظلومین کی گاڑی سے خودکش جیکٹ اور بم برآمد کر سکتی ہے وہ حکومت مخالف سیاسی جماعت کے راہنماء کی گاڑی سے پندرہ کلو تو کیا پچاس کلو منشیات بھی برآمد کر سکتی ہے اسی دعوے کی بنیاد پر تو مجسٹریٹ کی عدالت سے رانا صاحب کا چودہ دن کا جسمانی ریمانڈ حاصل کیا گیا ہے تاکہ منشیات کے سمگلر سے مزید ہیروئن وصول کی جا سکے یہ تو ہم مسلم لیگی کارکنوں کی خوش بختی اور رانا صاحب کی خوش قسمتی ہے کہ کہیں حکومتی ترجمان نے یہ نہیں کہہ دیا کہ منشیات رانا صاحب نے گاڑی کی چھت پے رکھی ہوئی تھی اور وہ موٹروے پر سفر کرنے والوں کوزبردستی بیچ رہے تھے کون نہیں جانتا فردوس عاشق اعوان صاحبہ کے کردار کو ،ان کی سیاسی بصیرت کو ،ان کے سیاسی فلسفے کو ،ان کے سیاسی نظریات کو ۔وطن عزیز کا ہر باسی تو معترف ہے ان کی سیاسی ،سماجی اور ملکی و ملی خدمت کا ۔سبھی تو جانتے ہیں کہ موصوفہ حق اور سچ کی علمبردار ہیں سیاسی اصولوں،اخلاقیات اور اقدار کی پاسدار ہیں اخلاقی اور انسانی قرینوں کو سب سے مقدم جانتی ہیں ان کے حلقہ کے لوگ ان کی صداقت اور امانت کی قسمیں اٹھاتے ہیں انہوں نے کبھی اپنا سیاسی قبلہ تبدیل کیا ہے نہ اپنے سیاسی اصولوںاور نظریے سے انحراف کیا ہے اسی لئے قوم ان کے اس دعوے کو صادق تسلیم کرتے ہوئے رانا ثناء اللہ کو منشیات کو سب سے بڑا سمگلر مانے گی ۔
منشیات کے دعوے اپنی جگہ لیکن اس گرفتاری سے یہ بات روز روشن کی عیا ں ہو گئی ہے کہ خان صاحب اپنی گیارہ ماہ کی مایوس کن حکومتی کارکردگی کے نتیجے میں عوام کے دلوں میں پنپتے ہوئے حکومت مخالف لاوے اور بھپرتے ہوئے عوامی جذبات سے کس قدر بوکھلاہٹ،پریشانی اور خوف میں مبتلاء ہیں ان کو اس بات کا احساس ہو چلا ہے کہ قوم اب ان سے کس قدر نالاں،بدظن اور متنفر ہے عوام ان کو اب کذاب، جھوٹا،فریبی،مکاراور دھوکے باز ماننے لگے ہیں اور ان کے عہد اقتدار کو ایک عذاب گرداننے لگے ہیں عوام کے ذہنوں میں ان کے خلاف پنپنے والا لاواکسی وقت بھی
ایک آتش فشان کو روپ دھار سکتا ہے تبھی تو خان صاحب نے مخالف سیاسی جماعتوں کے ایم پی ایز اور ایم این ایز کو اپنے ساتھ ملانے کی کوششوں کا آغاز کر دیا ہے اور ارکان اسمبلی کو دعوت عام دی ہے جو میرے قافلہ حق میں شامل ہو گا وہی پارسائ،صالح،نیکوکار اورسچ کا امیں ٹھہرے گا اور جو ہمارے طرز حکمرانی پر تنقید کرے گا وہ پاکستان کا سب سے برا فسادی اور گنہگار مانا جائے گا کیونکہ ان کی حکومت اپنی نا اہلی،نا لائقی اور بدترین کارکردگی کی وجہ سے عوامی حمایت سے محروم ہو چکی ہے جس دن یہ خبر عام ہوئی کہ مسلم لیگ اور دیگر سیاسی جماعتوں کچھ کم ظرف ،بے ضمیر اور سرٹیفائیڈ لوٹوں نے خان صاحب سے ملاقات کرکے ان کو اپنا سیاسی ،،،امام ،،، تسلیم کرنے پر آمادگی ظاہر کی ہے تو مسلم لیگ پنجاب کے صدر نے کہا کہ جو لوگ اپنی وفاداریا ں پاکستانی تاریخ کی سب سے نکمی حکومت کے پلڑے میں ڈالیں گے تو ان کے گھروں کا گھیرائو کیا جائے گا تو حکومت کو مسلم لیگی راہنماء کی یہ بات بہت ہی ناگوار گزری اور اس نے رانا صاحب کو گرفتار کرنے کا فیصلہ کر لیا اسی شرمناک پلان کے تحت رانا صاحب کو گرفتار کر لیا اور مخالف سیاسی جماعتوں کو پیغام دے دیا کہ جو بھی ان کی عوام دشمن اور غریب مکائو پالیسیوں کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرے گا وہ مجرم ٹھہرایا جائے جیل اس کا مسکن ہو گئی کیوکہ یہ جمہوری نہیں بلکہ شخصی آمریّت کا دور ہے مگر میرے وزیراعظم صاحب آپ کو یاد ہو نا چاہیے کہ پرویزی دور استبداد میں بھی ہمارے راہنمائوں کو پابند سلاسل کیا گیا تھا ہم کارکنوں پر جھوٹے اور بے بنیاد مقدمات بناکر ہمارے گھروں پر چھاپے مارے گئے تھے مسلم لیگی کارکنوں پر ظلم و ستم ڈھائے گئے تھے سفاکانہ طریقوں سے ان کو حق بات کہنے سے روکنے کی کوششیں کی گئی تھیں مگر نہ تو مسلم لیگی حق کی آواز اٹھانے سے بازآئے تھے اور نہ ہی پرویزی جبرواستبداد سے گھبراکر اپنے اصولوں اور نظریات سے پیچھے ہٹے تھے تو پھر آپ اپنی شخصی آمریّت سے کیسے مسلم لیگی کارکنوں کے جذبوں اور استقامت کو کمزور کر سکتے ہو۔۔۔اور یہ بات میرے وزیراعظم صاحب کبھی نہیں بھولنا کہ ہمیشہ بادشاہی کا حق صرف اور صرف میرے رب کا ہے۔۔۔اور میرا خالق و مالک اپنے بندوں کی آہوں کو سنتا بھی ہے ان پر رحم بھی کرتا ہے اور آہوں کے بدلے ظالم و جابر کا احتساب بھی کرتا ہے اس دنیا فانی میں فرعون کا دور حاکمیّت بھی آیا ،شدّاد کا عہد بھی گزرااور یزید کی خوفناک شب تاریک بھی آئی لیکن آج ان ادوار استبداد کو بڑی حقار ت اور نفرت سے یاد کیا جاتا ہے۔۔حبیب جالب نے کیا خوب کہا ہے۔۔
تم سے پہلے بھی یہاں اک شخص تخت نشیں تھا ۔۔
اس کو بھی اپنے خدا ہونے کا اتنا ہی یقیں تھا۔۔۔
کوئی ٹھہرا ہو جو لوگوں کے مقابل تو بتائو۔۔۔
وہ کہا ں ہیں کہ جنہیں ناز اپنے تئیں تھا۔۔۔
خان صاحب اب آپ کو یہ بات مان لینی چاہیے کہ ،،،لنڈا بازاری سیاست،،،نواز شریف کی کردار کشی کی جا سکتی ہے ان کو برے القابات سے نوازا جا سکتا ہے نوازشریف کو ڈاکو اور چور کہہ کر وزارت اعظمیٰ کے عہدے کی بے توقیری کی جا سکتی ہے مگر میرے وزیراعظم صاحب ،،،لنڈا بازاری سیاست،،، سے نہ ملک چلایا جا سکتا ہے نہ اہل وطن کی مشکلات اور مصائب کو حل کیا جا سکتا اس کے لئے اپنی عادات کو تبدیل کرنا پڑتا ہے اپنے اطوار بدلنے پڑتے ہیں اپنے دعوئوں اور وعدوں کو صداقت کے آئینے میں دیکھنا پڑتا ہے ان سب قرینوں اور اصولوں سے شاید آپ کے تکبر اور رعونیّت میں فرق آتا ہے ۔۔
خان صاحب آپ مسلم لیگی کارکنوں کو جیلو ں میں ڈالیں ان پر عرصہ حیات تنگ کریںان کو کال کوٹھڑیوں میں بند کریں یا پھر ان کی زبان بندی کے دستور بنائیں مگر اس دھرتی اور وطن سے محبت کو اپنا ایمان کہنے والی خلق خدا یہ کہنے سے اب باز نہیں آئے گی ۔۔۔
ملک لٹ جانے کے آثار نظر آتے ہیں
سارے مسند نشیں مکار نظر آتے ہیں
ہم نے وطن کی مٹی سے محبت کی ہے
پھر بھی ہم کم ظرفوں کو غدار نظر آتے ہیں