جناب چیف جسٹس آف پاکستان سے التجا
اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے حکم بتاریخ 18 مئی 2018اور پرائیویٹ ایجوکیشنل انسٹیٹیو شنزریگو لیٹری اتھارٹی کے اشتہار مورخہ 20 مئی 2018کے مطابق پرائیویٹ تعلیمی اداروں کو گرمیوں کی چھٹیوںکے دورانیہ کی فیسیں وصول کرنے سے منع کردیا گیا تھا اب یہ کی عدالت عظمی ٰمیں زیر سماعت ہے اس سلسلے میں مندرجہ ذیل حقائق نوٹس میں لانا چاہتا ہوں: 1 پرائیویٹ تعلیمی ادارے کئی قسم کے ہیںا)۔ ایلیٹ کلاس کے اور بین الاقوامی فرنچائزڈ پرائیویٹ تعلیمی ادارے جو بہت زیادہ فیسیں وصول کرتے ہیں۔(ب) کیڈٹ کالجز، آرمی پبلک سکولز اور فوجی فاؤنڈیشن سکولز۔ج) ملکی سطح پر فرنچائزڈ پرائیویٹ تعلیمی ادارے ۔(د)۔ مشنری پرائیویٹ تعلیمی ادارے و)۔ دینی تعلیم دینے والے مدرسے ۔ہ)۔ پرائیویٹ یونیورسٹیاں ، میڈیکل کالجز اور انجینئرنگ کالجز وغیرہ۔(ی) گلی محلے میں کھلے پرائیویٹ تعلیمی ادارے جو بہت کم فیس لے کر خدمات سرانجام دیتے ہیں۔ ایسے اداروں میں کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو کسی ریٹائرڈ حضرات نے اپنا سب سرمایہ لگا کر مشنری جذبے کے تحت بنائے ہوتے ہیں ان میں سے کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو نفع و نقصان سے بلند تر ہو کر کام کرتے ہیں۔2 حقائق یہ ہیں کہ بعض پرائیویٹ تعلیمی ادارے بہت مناسب فیسیں لے کر بڑی مفید اور گراں قدر خدمات سرانجام دیتے ہیں۔ان میں بے شمار لوگوں کے بچے تعلیم حاصل کررہے ہیں ایسے پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی انتظامیہ اور اساتذہ کی اپنے پیشے کے ساتھ لگن، محنت ، احساس ذمہ داری و احساس جوابدہی نیز شاندار نتائج نے ان کو عوام الناس میں مقبول ِ عام بنا رکھا ہے۔سرکاری تعلیمی ادارے کچھ بھی نہ کرکے آدھا سال بند رہنے کے باوجود اپنے اساتذہ کو سرکاری خزانے سے جھولیاں بھر بھر کے تنخواہ اور مراعات دیتے ہیں جبکہ ان کی کارکردگی ایسی ہے کہ عام آدمی اپنے بچوں کو ان اداروں میں داخل کرانے کو تیار نہیں۔ اس کے مقابلے میں پرائیویٹ تعلیمی ادارے تمام تر محنت خلوص اور نیک نامی اور شاندار نتائج کے باوجود گردن زدنی ٹھہرے ہیں ۔3 نہایت ادب سے عرض ہے کہ دنیا کا کوئی تعلیمی ادارہ خواہ وہ پبلک ہو یا پرائیویٹ اس طرح فیس وصول نہیں کرتا کہ درمیان میں آنے والی تعطیلات کی فیس چھوڑ دے ایسی کوئی مثال ملکی یا بین الاقوامی سطح پر موجود نہیں۔پرائیویٹ تعلیمی ادارے اگر دو تین ماہ فیس وصول نہیں کریں گے تو اپنے اساتذہ و سٹاف ممبران کوتنخواہیں بھی نہیں دے سکیں گے اور عمارتوں کا کرایہ ، بجلی، گیس اور فون وغیرہ کے بلز بھی ادا نہیں کرسکیں گے توان حالات میں یہ ادارے کیسے قائم رہ سکیں گے۔یہ حقیقت بھی ملحوظ ِ خاطر رکھی جانی چاہیے کہ یہ پرائیویٹ تعلیمی ادارے لاکھوں طلبا و طالبات کی تعلیمی ضروریات ہی پوری نہیں کرتے بلکہ ہزاروں خواتین و حضرات کو ایک باعزت روزگار بھی مہیا کرتے ہیں چیف جسٹس سے یہ التجا ہے کہ آپ فیصلہ کرتے وقت ہر قسم کے تعلیمی اداروں کو بہت زیادہ فیسیں لینے والے استحصالی ادارے نہ سمجھیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ بعض پرائیویٹ تعلیمی ادارے بہت زیادہ فیسیں لے کر عوام کا استحصال کرتے ہیں مگر سارے ایسے نہیں ہیں۔ قانون ایسا ہونا چاہیے کہ جانچے ، پرکھے ، دیکھے ، کون کیا کررہاہے ؟ کتنی خدمات سرانجام دے رہاہے اور کتنی فیسیں وصول کررہاہے۔ پھر جو لوٹ مارکرتا پایا جائے اسے روکاجائے جو جائز حد تک فیسیں لے کر عوام کی اطمینان بخش خدمت سرانجام دے رہاہو اس کی حوصلہ افزائی کی جائے ۔اسلام آباد ہائی کورٹ نے بیک جنبش ِ قلم سب پر قدغن لگا دی جس کی وجہ سے بہت سے حقیقی خدمت کرنے والے پرائیویٹ تعلیمی اداروںاور ان کے اساتذہ و سٹاف ممبران کو بھی بڑی پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔ التماس ہے کہ آپ اس کیس کے مذکورہ بالا پہلوؤں کو مدنظر رکھ کر حق و انصاف پر مبنی فیصلہ صادر فرمائیں۔
( پروفیسر ڈاکٹر نثار احمد ، پرنسپل کرلوٹ ریزیڈنشل کالج چھتر پارک اسلام آبادفون نمبر : 0301-5511663)