54376 آپریشن‘ 60420 گرفتاریاں ہو چکیں‘ نیشنل ایکشن پلان : ٹکے کا کام نہ ہونیکا تاثر درست نہیں : وزارت داخلہ

اسلام آباد ( نیوز ایجنسیاں+ نوائے وقت رپورٹ) وزارت داخلہ نے نیشنل ایکشن پلان کے خلاف عدالت عظمی کے گزشتہ روز کے ریمارکس پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کارکردگی رپورٹ بھی جاری کردی اور واضح کیا ہے کہ قومی ایجنڈا پر عمل درآمد کے لئے وفاقی و صوبائی حکومتیں متعدد وزارتیں، انٹیلی جنس ایجنسیاںاور افواجِ پاکستان مل کر کوشاں ہیں ۔آپریشن کے نتیجہ میں ٹارگٹ کلنگ میں 44 فیصدکمی، قتل کے واقعات میں 37، دہشت گردی46، چوری میں23 فیصد، جبکہ 55,962 جرائم پیشہ عناصر گرفتار ہوئے ہیں جن میں 688دہشت گرد بھی شامل تھے۔تفصیلی رپورٹ آئندہ ہفتے عدالت میں پیش کرد ی جائے گی ترجمان وزارتِ داخلہ نے ایک وضاحتی بیان میں کہا ہے کہ اعلیٰ عدالتوں کے فیصلے سر آنکھوں پر مگر یہ تاثر درست نہیں کہ نیشنل ایکشن پلان پر ©"ایک ٹکے کا کام بھی نہیں ہوا"۔ ترجمان نے کہا کہ اگر ایسا ہوتا تو صرف ہمارے اپنے اعدادو شمار ہی نہیں بین الاقوامی ادارے اور تھنک ٹینکس پاکستان کو ان چند ممالک میں شمار نہ کرتے جن کے اندر دہشت گردی کی کاروائیاں گزشتہ سال بتدریج کم ہوئی ہیں۔ ترجمان نے کہا ہے کہ اس امر کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ این جی اوز اور ان کی فنڈنگ نہ تو نیشنل ایکشن پلان کے دائرہ کار میں ہے نہ ہی ان کا نیشنل ایکشن پلان کے کسی نکتے میں کوئی ذکر ہے۔ ترجمان نے کہا کہ نیشنل ایکشن پلان جیسا کہ اس کے نام سے واضح ہے کسی ایک ڈیپارٹمنٹ، ادارے یا وزارت کی ذمہ داری نہیں بلکہ یہ قومی ایجنڈا ہے کئی نکات پر سالوں کا کام مہینوں میں ہوا اور اس کے بڑے اچھے نتائج نکلے مگر اس کے ساتھ ساتھ کئی نکات ایسے بھی ہیں جن پر مختلف وجوہات کی وجہ سے عمل درآمد کی رفتار سست ہے اور اسے تیز کرنے کی ضرورت ہے۔ سر دست اب تک کی پیش رفت مختصراً درج ہے؛ اب تک 54376 آپریشن ہو چکے ہیں جن کے نتیجے میں 60420 گرفتاریاں عمل میں آئی ہیں۔ اب تک 3019انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن کیے جا چکے ہیں اور 1388 انٹیلی جنس شیئر ہوئیں۔ بایﺅمیٹرک کے ذریعے موبائل سمز کی تصدیق کے عمل میں اب تک 97.9ملین(نو کروڑ اناسی لاکھ) سمز کی تصدیق ہو چکی جبکہ5.1ملین (51لاکھ) سمز بلاک کر دی گئیں ہیں۔ یہ عمل 7 سال سے تعطل کا شکار تھا اور اسے صرف تین مہینوں میں مکمل کیا گیا نفرت اور اشتعال انگیز مواد کی تشہیر روکنے کے سلسلے میں اب تک 776کیسز رجسٹرڈ ہو چکے ہیںاور 1799 گرفتاریاں عمل میں آئیں ہیں جبکہ 1512 کتب اور دیگر مواد ضبط اور 71دکانیں سیل کی جا چکی ہیں۔ کراچی میں آپریشن کے نتیجے میں دہشت گردی اور جرائم کی شرح میں واضح کمی آئی ہے اور ضرب عضب نے دہشت گردوں کے نیٹ ورک اور ان کی صلاحیت پر کاری ضرب لگائی۔ آپریشن کے نتیجے میں اب تک 20000 دہشت گرد ہلاک و زخمی اور 2500گرفتار ہوئے ۔ آئی ای ڈی بم بنانے والے 400 گرفتار اور 100نیٹ ورکس کوتوڑا جا چکا ۔ اب تک ممنوعہ آرگنائزیشن کے 8111 کارکنوں کو فورتھ شیڈول میں ڈالا جا چکا اور ان میں سے 1026 کے خلاف باقاعدہ کیسز رجسٹرڈ ہو چکے ہیں۔ حوالہ/ہنڈی اور مشکوک رقوم کی ترسیلات روکنے اور اینٹی منی لانڈرنگ کے سلسلے میںاب تک ایف آئی اے اور سٹیٹ بنک نے تقریباً دو ارب روپے سے زائد کی ٹرانزیکشن پر یا تو کیسز بنائے ہیں ےا ان فنڈز کو منجمند کیا ہے۔ ایپیکس کمیٹیاں باقاعدگی سے میٹینگ کرتی ہیں اور نیشنل ایکشن پلان پر پیش رفت کو مانیٹر کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ سو شل میڈیا پر پھیلائے جانے والے مواد کو کنٹرول کرنے ،افغان مہاجرین کی واپسی، دہشت گردوں کے مالی ذرائع کو مکمل طور پر بند کرنے، فاٹا میں ریفارمز اور مدارس کی رجسٹریشن جیسے معاملات پر کام جاری ہے اور ان تمام امور پر مکمل عمل درآمدمیں اندرونی و بیرونی رکاوٹیں ہیں۔ترجمان نے مزید کہا کہ جہاں تک این جی اوز کا تعلق ہے تو وہ سرے سے ہی نیشنل ایکشن پلان میں شامل نہیںاور عرصہ دارز سے مختلف حکومتوں کے ادوار میں مادر پدر آزادی سے اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اس کا بھی کریڈٹ موجودہ حکومت کو ہی جاتا ہے کہ اس نے اس چیز کا نو ٹس لیا۔ کئی بین الاقوامی این جی اوز کے ویزوں پر پابندی لگائی، چند ایک کو کام کرنے سے روک دیا گیا، کچھ کو ملک بدر کیا گیا اور چند ایک پر پابندی لگائی گئی۔ جہاں تک نیشنل ایکشن پلان کا تعلق ہے اگر دو سال پہلے اور آج کا تجزیہ کیا جائے تو یہ واضح ہو جائے گا کہ حالات میں بہت بہتری آئی ہے۔ کہاں سات آٹھ دھماکے روزانہ کے حساب سے اور کہاں آج کا بدرجہ بہتر ماحول۔ جس کا اظہار صرف ہمارے اعداد و شمار ہی نہیں بلکہ غیر ملکی ادارے اور تجزیہ نگار بھی کر رہے ہیں۔ انٹرنل سیکورٹی ایک انتہائی مشکل اور پیچیدہ عمل ہے جس میں کئی ادارے ، ڈیپارٹمنٹس، وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی باہمی کوارڈینیشن سے ہی حالات میں بہتری لائی جا سکتی ہے۔ یہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ امن مکمل طور پر بحال کر دیا گیا ہے مگر اس بات کا اعتراف نہ کرنا کہ حالات میں بہت بہتری آئی ہے یہ بھی ایک نا انصافی ہوگی۔

ای پیپر دی نیشن