دہشت گردوں اور ان کے سازشی سرپرستوں کو کیا ملا۔ داتا صاحبؒ سے لوگوں کی عقیدت، محبت اور نسبت میں اور اضافہ ہوا۔ اب تو یہ ثابت ہو گیا ہے کہ دنیا میں اور عالم اسلام میں دہشت گردی امریکہ خود پھیلا رہا ہے۔ عراق میں مسجدوں، امام بارگاہوں، کربلائے حسینؓ، حضرت مولا علیؓ اور حضرت عبدالقادر جیلانیؒ کے مزار پر دہشت گردی امریکہ نے کروائی۔ پہلے پہل تو شیعہ سُنی اور فرقہ واریت کو تھوڑی سی ہَوا ملی۔ پھر یہ آندھی خود امریکہ کے خلاف جذبات کی یلغار بن گئی، اس طرح امریکہ اپنی جنگ بُری طرح اور بار بار ہار چکا ہے۔ داتا دربار کے احاطے میں دہشت گردی کے بعد پورے ملک میں مظاہرے اور ہڑتالیں امریکہ، بھارت اور اسرائیل کی آنکھیں کھول دینے کے لئے کافی ہیں۔ سُنی جماعتوں کے علاوہ دیوبندیوں کی طرف سے بیانات بہت حوصلہ افزا ہیں۔ مولانا محمد حنیف جالندھری اور مولانا محمد حنیف طیب مل کر کہہ رہے ہیں کہ داتا صاحبؒ کے ساتھ عقیدت میں شیعہ سُنی، بریلوی اور دیوبندی سب ایک ہیں۔ تمام سیاسی جماعتوں کی قیادت اور حکومتوں کے لوگ مذمت کر رہے ہیں۔ صرف پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے سیاستدان اس موقعہ پر بھی ایک دوسرے کے خلاف بیانات دے رہے ہیں اور یہ بات بہت مایوس کن ہے۔ وزیراعظم اور وزیراعلیٰ پنجاب کے علاوہ چودھری پرویزالٰہی، عمران خان، ڈاکٹر بابر اعوان، رحمت ملک، فوزیہ وہاب، فائزہ ملک، ڈاکٹر فخر اورنگزیب برکی، خورشید محمود قصوری، فلمی شخصیات، علمی لوگ نجانے کون کون داتا دربار پہنچے، انہیں یہ یاد آیا کہ یہ حاضری ضروری ہے۔ دہشت گردوں نے لوگوں کو اندر سے جگا دیا ہے۔ اس سے کیا ظاہر ہوتا ہے یہ کہ پاکستان کے دشمن ناکام ہوئے ہیں۔ واقعے کے چند گھنٹوں کے بعد لوگ دربار پر حاضری کے لئے بے تاب تھے، صبح کی نماز میں زیادہ حاضری تھی جو حضوری بن گئی تھی۔ نوجوانوں کی اکثریت تھی۔ انہوں نے عشق رسول کے لئے انٹرنیٹ پر فیس بُک وغیرہ کا استعمال چھوڑ دیا ہے۔ ہمارے بعض لوگوں کو جوانوں سے شکایت ہے کہ وہ اپنی ثقافت، دینی اور پاکستانی روایتوں سے دور جا رہے ہیں، وہ تو ہم سے بھی زیادہ پاکستانی ہیں اور عشق رسول کی کیفیتوں میں سرشار اور بے قرار ہیں۔ آنے والے زمانے میں سرفرازیاں ہمارے بچوں کی منتظر ہیں....
ہمیں خبر ہے کہ ہم ہیں چراغِ آخرِ شب
ہمارے بعد اندھیرا نہیں اجالا ہے
جنہیں داتا دربار میں حاضری کا راستہ بھولا ہوا تھا جبکہ لاہور میں رہنے والا کوئی آدمی ایسا نہیں ہو گا جس نے داتا صاحب کے ہاں حاضری نہ دی ہو، جنہیں کسی مظاہرے میں کبھی نہ دیکھا تھا وہ نعرے لگا رہے تھے اور رو رہے تھے۔ جس فرش پر پھول بکھرے رہتے ہیں وہاں زخموں کی دھول اُڑ رہی تھی، جہاں عقیدت مند شہیدوں کا خون گرا لوگ اس جگہ کو چومتے تھے اور روتے تھے۔ داتا دربار میں مسافروں، بے آسرا لوگوں کے لئے قیام و طعام کا ہر وقت اہتمام رہتا ہے، پاکستان کی کوئی این جی او ایسی مثال بھی نہیں لا سکتی کہ سوا لاکھ لوگوں کو کھانا فراہم کرے۔ داتا دربار کی شکل میں ایک بیش بہا فلاحی ٹھکانہ لوگوں کو میسر ہے۔ جمعرات ہمیشہ سے خاص دن صوفیوں کے مزاروں کے لئے ہے۔ شاید یہ پہلی جمعرات تھی کہ لوگوں کو داتا دربار سے نکال دیا گیا۔ ایک بڑے صوفی دانشور بابا محمد یحیٰی خان جمعرات کو یہاں لنگر خود پکا کر اپنے ہاتھوں سے تقسیم کرتے تھے۔ دھماکے کے فوراً بعد سب سے پہلے وہاں پہنچنے والے ایم این اے صاحبزادہ فضل کریم تھے۔
داتا صاحبؒ نے کشف المحجوب میں لکھا ہے کہ ”لاہور شہروں کا سردار ہے جو بات یہاں ہو گی وہ ساری دنیا میں مشہور ہو گی۔“ داتا کی نگری کے نام سے مشہور اس بستی سے اب دھماکوں کی دھمک ساری دنیا میں سَُنی جا رہی ہے۔ یہ ہمارے حکام کے لئے عبرتناک ہے اور ہمارے لئے شرمناک ہے۔ یہ دھماکہ ہمارے لئے دھمکی ہے، ہمیں سنبھل جانا چاہیے۔ اس کے ساتھ یہ بھی ایک بات بھولی بسری امید اور نوید کی طرح میرے دل میں تڑپتی ہے کہ اب اخیر ہو گئی ہے۔ اس کے بعد ان دہشت گردوں اور ان کے سرپرستوں کو شرم سے منہ چھپا لینا چاہیے۔ وہ ناکام ہو گئے ہیں اور بدنام ہو گئے۔ بھارت ہمارا دشمن ہے اور امریکہ ہمارا دوست نہیں ہے۔ کہتے ہیں کہ بے خبر بے قصور لوگوں کو مارنے والے مسلمان نہیں تو پھر وہ کون ہے؟ بھارتی، امریکی، اسرائیلی ہےں تو ان کے سامنے ڈٹ جائیے۔
میں نے ایک بار کہا تھا کہ لاہور مجھے پسند ہے۔ یہاں داتا دربار ہے اور میو ہسپتال ہے۔ یہ دونوں فلاحی مرکز ہیں۔ داتا دربار سے زخمیوں کو میو ہسپتال پہنچایا گیا، دل والے دردمند ایم ایس ڈاکٹر زاہد پرویز زخمیوں سے پہلے میو ہسپتال پہنچے۔ جو زخمی نہ تھے ان کی روح زخموں سے چُور چُور تھی۔ ہسپتال کے سب ڈاکٹر، نرسیں اور دوسرے اہلکار موجود تھے۔ سفید کوٹوں کا میلہ لگا ہوا تھا، کالے کوٹوں کا زمانہ ختم ہوا ہے سفید کوٹوں کا زمانہ کبھی ختم نہیں ہو سکتا۔ سفید کوٹ ڈاکٹروں کی وردی ہے، نرسوں کا پہلا لباس سفید تھا۔ سفید لباس اجالے کی طرح اجلا ۔۔ بالعموم ان خواتین و حضرات کا دل بھی درد و گداز اور غمگساریوں سے بھرا ہوا ہوتا ہے۔ بہت کم ان کے لباس پر کوئی داغ ہوتا ہے۔ آج تو یہ لباس لہولہان لوگوں کے خون سے لتھڑا ہوا تھا۔ لگتا تھا کہ یہ لوگ بھی زخمی ہیں۔ اتنی محبت اور خدمت، اتنی دردمندی اور ہُنر مندی زخمیوں کے لئے نچھاور کر دی گئی کہ ان کے لواحقین بھی حیران رہ گئے۔ میں دوسرے روز میوہسپتال گیا، وہاں میرا پہلا پڑا¶ ڈاکٹر طیبہ اعجاز کے پاس کلینکل لیبارٹری میں ہوتا ہے۔ ڈاکٹر زاہد پرویز اپنے کمرے میں نہ تھے۔ ڈاکٹر طیبہ نے کہا کہ وہ ایمرجنسی میں ہوں گے ان سے ضرور ملیں۔ میں نے کہا کہ میں انہی کو ملنے آیا ہوں تاکہ داتا دربار کے عقیدت مندوں کے پاس زخموں کی خوشبو کو دیکھ سکوں۔ ایمرجنسی میں لوگوں کا ہجوم تھا مگر کوئی افراتفری نہ تھی۔ سب کچھ سلیقے سے ہو رہا تھا۔ سماجی کارکن امان اللہ بٹ نے مجھے اپنے پاس روک لیا کہ ڈاکٹر زاہد پرویز ابھی آنے والے ہیں۔ سیکرٹری ہیلتھ فواد حسن صاحب، کمشنر لاہور خسرو پرویز، ایم این اے میاں مرغوب اور ڈاکٹر زاہد پرویز کو دیکھ کر اطمینان ہوا۔ فواد حسن صاحب رات کو بھی یہاں تھے۔ انہوں نے میرے ساتھ اپنائیت کا اظہار کیا جیسے میں بھی زخمیوں میں ایک ہوں۔ زخمی تو میں ہوں، زخم اس کے علاوہ بھی ہوتے ہیں جو نظر نہیں آتے۔ کسی پرانی یاد کو تازہ کرنے والے افسر سے مل کر خوشی ہوئی کہ وہ ان لوگوں کے درمیان تھا جو عقیدت کے سفر میں خون کا دریا عبور کر کے آئے تھے۔ میں داتا صاحب کے شہیدوں اور زخمیوں کو سلام کرتا ہوں۔ میو ہسپتال کے ڈاکٹروں، نرسوں اور سارے خدمت گزاروں، اہلکاروں کو سلام کرتا ہوں۔
وہاں سے نکل کے میں خواب اور انقلاب کی سرحد پر بیٹھے انوکھے پیس ایکٹوسٹ فرخ سہیل گوئندی کے پاس پہنچا، وہاں سلمان عابد اور تنویر ظہور بھی تھے۔ ایک لو ک گیت کی سرمستی غمزدہ ماحول میں سرخوشی بن کر بکھرتی جا رہی تھی.... ع
ونگاں چڑھا لو کڑیو داتا دے دربار دیاں
ہمیں خبر ہے کہ ہم ہیں چراغِ آخرِ شب
ہمارے بعد اندھیرا نہیں اجالا ہے
جنہیں داتا دربار میں حاضری کا راستہ بھولا ہوا تھا جبکہ لاہور میں رہنے والا کوئی آدمی ایسا نہیں ہو گا جس نے داتا صاحب کے ہاں حاضری نہ دی ہو، جنہیں کسی مظاہرے میں کبھی نہ دیکھا تھا وہ نعرے لگا رہے تھے اور رو رہے تھے۔ جس فرش پر پھول بکھرے رہتے ہیں وہاں زخموں کی دھول اُڑ رہی تھی، جہاں عقیدت مند شہیدوں کا خون گرا لوگ اس جگہ کو چومتے تھے اور روتے تھے۔ داتا دربار میں مسافروں، بے آسرا لوگوں کے لئے قیام و طعام کا ہر وقت اہتمام رہتا ہے، پاکستان کی کوئی این جی او ایسی مثال بھی نہیں لا سکتی کہ سوا لاکھ لوگوں کو کھانا فراہم کرے۔ داتا دربار کی شکل میں ایک بیش بہا فلاحی ٹھکانہ لوگوں کو میسر ہے۔ جمعرات ہمیشہ سے خاص دن صوفیوں کے مزاروں کے لئے ہے۔ شاید یہ پہلی جمعرات تھی کہ لوگوں کو داتا دربار سے نکال دیا گیا۔ ایک بڑے صوفی دانشور بابا محمد یحیٰی خان جمعرات کو یہاں لنگر خود پکا کر اپنے ہاتھوں سے تقسیم کرتے تھے۔ دھماکے کے فوراً بعد سب سے پہلے وہاں پہنچنے والے ایم این اے صاحبزادہ فضل کریم تھے۔
داتا صاحبؒ نے کشف المحجوب میں لکھا ہے کہ ”لاہور شہروں کا سردار ہے جو بات یہاں ہو گی وہ ساری دنیا میں مشہور ہو گی۔“ داتا کی نگری کے نام سے مشہور اس بستی سے اب دھماکوں کی دھمک ساری دنیا میں سَُنی جا رہی ہے۔ یہ ہمارے حکام کے لئے عبرتناک ہے اور ہمارے لئے شرمناک ہے۔ یہ دھماکہ ہمارے لئے دھمکی ہے، ہمیں سنبھل جانا چاہیے۔ اس کے ساتھ یہ بھی ایک بات بھولی بسری امید اور نوید کی طرح میرے دل میں تڑپتی ہے کہ اب اخیر ہو گئی ہے۔ اس کے بعد ان دہشت گردوں اور ان کے سرپرستوں کو شرم سے منہ چھپا لینا چاہیے۔ وہ ناکام ہو گئے ہیں اور بدنام ہو گئے۔ بھارت ہمارا دشمن ہے اور امریکہ ہمارا دوست نہیں ہے۔ کہتے ہیں کہ بے خبر بے قصور لوگوں کو مارنے والے مسلمان نہیں تو پھر وہ کون ہے؟ بھارتی، امریکی، اسرائیلی ہےں تو ان کے سامنے ڈٹ جائیے۔
میں نے ایک بار کہا تھا کہ لاہور مجھے پسند ہے۔ یہاں داتا دربار ہے اور میو ہسپتال ہے۔ یہ دونوں فلاحی مرکز ہیں۔ داتا دربار سے زخمیوں کو میو ہسپتال پہنچایا گیا، دل والے دردمند ایم ایس ڈاکٹر زاہد پرویز زخمیوں سے پہلے میو ہسپتال پہنچے۔ جو زخمی نہ تھے ان کی روح زخموں سے چُور چُور تھی۔ ہسپتال کے سب ڈاکٹر، نرسیں اور دوسرے اہلکار موجود تھے۔ سفید کوٹوں کا میلہ لگا ہوا تھا، کالے کوٹوں کا زمانہ ختم ہوا ہے سفید کوٹوں کا زمانہ کبھی ختم نہیں ہو سکتا۔ سفید کوٹ ڈاکٹروں کی وردی ہے، نرسوں کا پہلا لباس سفید تھا۔ سفید لباس اجالے کی طرح اجلا ۔۔ بالعموم ان خواتین و حضرات کا دل بھی درد و گداز اور غمگساریوں سے بھرا ہوا ہوتا ہے۔ بہت کم ان کے لباس پر کوئی داغ ہوتا ہے۔ آج تو یہ لباس لہولہان لوگوں کے خون سے لتھڑا ہوا تھا۔ لگتا تھا کہ یہ لوگ بھی زخمی ہیں۔ اتنی محبت اور خدمت، اتنی دردمندی اور ہُنر مندی زخمیوں کے لئے نچھاور کر دی گئی کہ ان کے لواحقین بھی حیران رہ گئے۔ میں دوسرے روز میوہسپتال گیا، وہاں میرا پہلا پڑا¶ ڈاکٹر طیبہ اعجاز کے پاس کلینکل لیبارٹری میں ہوتا ہے۔ ڈاکٹر زاہد پرویز اپنے کمرے میں نہ تھے۔ ڈاکٹر طیبہ نے کہا کہ وہ ایمرجنسی میں ہوں گے ان سے ضرور ملیں۔ میں نے کہا کہ میں انہی کو ملنے آیا ہوں تاکہ داتا دربار کے عقیدت مندوں کے پاس زخموں کی خوشبو کو دیکھ سکوں۔ ایمرجنسی میں لوگوں کا ہجوم تھا مگر کوئی افراتفری نہ تھی۔ سب کچھ سلیقے سے ہو رہا تھا۔ سماجی کارکن امان اللہ بٹ نے مجھے اپنے پاس روک لیا کہ ڈاکٹر زاہد پرویز ابھی آنے والے ہیں۔ سیکرٹری ہیلتھ فواد حسن صاحب، کمشنر لاہور خسرو پرویز، ایم این اے میاں مرغوب اور ڈاکٹر زاہد پرویز کو دیکھ کر اطمینان ہوا۔ فواد حسن صاحب رات کو بھی یہاں تھے۔ انہوں نے میرے ساتھ اپنائیت کا اظہار کیا جیسے میں بھی زخمیوں میں ایک ہوں۔ زخمی تو میں ہوں، زخم اس کے علاوہ بھی ہوتے ہیں جو نظر نہیں آتے۔ کسی پرانی یاد کو تازہ کرنے والے افسر سے مل کر خوشی ہوئی کہ وہ ان لوگوں کے درمیان تھا جو عقیدت کے سفر میں خون کا دریا عبور کر کے آئے تھے۔ میں داتا صاحب کے شہیدوں اور زخمیوں کو سلام کرتا ہوں۔ میو ہسپتال کے ڈاکٹروں، نرسوں اور سارے خدمت گزاروں، اہلکاروں کو سلام کرتا ہوں۔
وہاں سے نکل کے میں خواب اور انقلاب کی سرحد پر بیٹھے انوکھے پیس ایکٹوسٹ فرخ سہیل گوئندی کے پاس پہنچا، وہاں سلمان عابد اور تنویر ظہور بھی تھے۔ ایک لو ک گیت کی سرمستی غمزدہ ماحول میں سرخوشی بن کر بکھرتی جا رہی تھی.... ع
ونگاں چڑھا لو کڑیو داتا دے دربار دیاں