سانحہ ٔ داتا دربار کے بعد وفاقی حکمرانوں کی پنجاب پر چڑھائی..... وزیراعظم اور میاں نوازشریف میں قومی کانفرنس بلانے پر اتفاق
سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں محمد نوازشریف نے دہشت گردی کے رجحان کو ملکی سلامتی کیلئے خطرناک قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو ملکر اسکے سدباب کیلئے کوشش کرنی چاہئے۔ ہفتے کے روز ماڈل ٹائون لاہور میں ایک ہنگامی پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے اس امر پر افسوس کا اظہار کیا کہ آج دہشت گردی کے سدباب کے اقدامات کرنے کے بجائے ایک دوسرے پر الزام تراشی کی جا رہی اور سیاسی مفادات حاصل کئے جا رہے ہیں۔ یہ وقت بلیم گیم کا نہیں۔ امن و امان کی ذمہ داری صوبوں کی ہے مگر دہشت گردی کا تو قومی پالیسی سے تعلق ہے۔ انہوں نے کہا کہ وفاقی وزارت داخلہ سے متعلق ایجنسیاں تو پنجاب حکومت کو معلومات تک مہیا نہیں کررہیں۔ ان کے بقول پنجابی طالبان کی گردان اچھا عمل نہیں، دہشت گرد تو دہشت گرد ہیں۔ انہیں پنجابی، سندھی، پٹھان، بلوچی قرار نہیں دینا چاہئے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم سیاسی مفادات سے بالاتر ہو کر قومی حکمت عملی اپنائیں۔ ایک ایٹمی قوت کس طرح دہشت گردوں کے آگے ہتھیار ڈال سکتی ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ اس مقصد کیلئے قومی کانفرنس بلائی جائے۔
دوسری جانب وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں محمد نوازشریف سے ٹیلیفونک گفتگو میں اس امر پر اتفاق کیا کہ دہشت گردی کے رجحان سے نمٹنے کیلئے قومی جذبے کو بروئے کار لایا جائے اور وفاقی اور صوبائی حکومتیں ملکر اس ضمن میں اقدامات کریں۔ انہوں نے دہشت گردی کے معاملہ پر قومی کانفرنس بلانے کی میاں نوازشریف کی تجویز قبول کرلی۔ یہ کانفرنس اسی ہفتے بلانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ نوائے وقت مسلسل لکھ رہا ہے طالبان سے بات کی جائے اب عمران خان نے بھی مطالبہ کیا ہے اور نواز شریف نے بھی اس مسئلہ پر کانفرنس بلانے کا مطالبہ کیا ہے۔
یہ انتہائی افسوسناک صورتحال ہے کہ دہشت گردی کی حالیہ لہر میں بے گناہ انسانی جانیں بے دریغ ضائع ہورہی ہیں۔ مسلمانوں اور اقلیتوں کی عبادتگاہوں کو دہشت گردی کا ہدف بنایا جا رہا ہے اور اب امن و آشتی کا درس دینے، اپنے اقوال و فعال سے فلاحِ انسانیت کی راہ سجھانے اور اسلام کا بول بالا کرنیوالی برصغیر کی بزرگ ہستی علی ہجویری داتا گنج بخشؒ کے مزار کو بھی نہیں بخشا گیا جس کا مقصد مسلمانوں میں تفرقہ بازی، فرقہ پرستی اور فروعی اختلافات کو بڑھا کر ایک دوسرے سے برسرپیکار کرنے کے سوا اور کچھ نظر نہیں آتا جبکہ حکمرانوں کی جانب سے دشمن کی سازشوں کی پیدا کردہ اس انتہائی گھمبیر صورتحال میں شہریوں کی جان و مال کے تحفظ کے ضروری اقدامات کرنے اور دہشت گردوں کی مذموم اور گھنائونی سازشوں کو ناکام بنانے کی حکمت عملی طے کرنے کے بجائے ایک دوسرے پر سیاسی پوائنٹ سکور کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور وفاقی حکمران پیپلز پارٹی کے عہدیداروں اور حکومتی ارکان اور حکومتی اتحادیوں کی جانب سے لٹھ لیکر پنجاب حکومت پر چڑھ دوڑنے کی پالیسی کو نہ صرف عملی جامہ پہنایا جا رہا ہے بلکہ اس موقع کو اپنے لئے غنیمت سمجھ کر پنجاب حکومت پر ملبہ ڈالتے ہوئے قومی مفادات کی بھی پاسداری نہیں کی جا رہی۔ بلاشبہ دہشت گردوں کا کوئی علاقہ، کوئی دین، کوئی مذہب، کوئی عقیدہ، کوئی نظریہ اور کوئی مخصوص ٹھکانہ نہیں ہوتا، مگر جس انداز میں پنجاب کو فوکس کرکے پنجاب حکومت کا ناطہ مبینہ دہشت گردوں کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کی جا رہی ہے، یہ ملک کا شیرازہ بکھیرنے کے دشمن کے ایجنڈے کو اپنے ہاتھوں پایہ تکمیل تک پہنچانے کی سازش نظر آتی ہے۔ جائزہ تو اس امر کا لیا جانا چاہئے جیسا کہ میاں نوازشریف نے بھی نشاندہی کی ہے کہ نائن الیون سے پہلے دہشت گردی کے ایسے واقعات کیوں نہیں ہوئے تھے؟ ہر ڈرون حملے کے بعد کہیں نہ کہیں خودکش حملے یا دہشت گردی کی واردات کیوں ہورہی ہے اور اب افغانستان سے نیٹو افواج کی واپسی کے حالات پیدا ہوتے ہی بالخصوص مسلمانوں کے مذہبی اور مقدس مقامات اور عبادتگاہوں کو کیوں نشانہ بنایا جا رہا ہے مگر بدقسمتی سے ملکی و قومی بقاء و سلامتی کی جانب توجہ دینے اور اسلام دشمن طاغوتی طاقتوں کے مذموم عزائم کو ناکام بنانے کی بجائے ایک دوسرے کے گریبان میں جھانکنے اور ایک دوسرے پر گند اچھال کر دشمن کے ایجنڈے کی تکمیل کا موقع فراہم کرنے کا سوچا اور طے کیا جا رہا ہے۔ وفاقی وزیر داخلہ رحمان ملک کی تو تان ہی پنجابی طالبان پر آکر ٹوٹتی ہے جس کا مقصد سوائے اسکے اور کچھ نہیں کہ امریکی احکام کی تعمیل کرتے ہوئے فوجی آپریشن کا دائرہ پنجاب تک پھیلایا جائے اور امریکہ کو پنجاب پر بھی ڈرون حملے کرنے کی ترغیب دی جائے۔ وفاقی وزیر قانون ڈاکٹر بابر اعوان بھی سیاسی پوائنٹ سکورنگ کی اس پالیسی میں پیچھے نہیں رہنا چاہتے اور پنجاب کے مختلف شہروں میں وکلاء میں فنڈز بانٹتے اور پیپلز پارٹی کے کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے بھی پنجاب حکومت کو مطعون کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور مطالبہ کردیا کہ امن و امان کی ناکامی پر پنجاب حکومت مستعفی ہوجائے۔ اسی طرح پیپلز پارٹی کی حکومتی اتحادی اے این پی اور ایم کیو ایم (متحدہ) بھی اس ’’بلیم گیم‘‘ میں اپنا نام شامل کرانے میں ’’سرخرو‘‘ ٹھہری ہے۔ وزیر اطلاعات خیبر پی کے میاں افتخار حسین نے نہلے پر دہلا مارتے ہوئے الزام عائد کیا ہے کہ دہشت گردوں کے استاد پنجاب میں ہیں اس لئے انکے خلاف پنجاب میں کارروائی کرنا بہت ضروری ہے جبکہ الطاف بھائی کو دہشت گردی سے نمٹنے کے نام پر حق پرست لشکر بنانے کی ترغیب دینے کا نادر موقع مل گیا ہے۔ یہ لشکر بنیں گے تو مسلح بھی ہوں گے جو امن و امان کیلئے ایک نیا مسئلہ بنیں گے۔ مبینہ دہشت گردوں کے لشکروں کے سدباب کے نام پر کراچی حیدر آباد میں اپنا لشکر بنانے کی ترغیب دینا ملک کو امن و امان کی تباہی کی جانب لے جانے کے مترادف ہوگا جبکہ وطن عزیز پہلے ہی بیرونی ایجنڈے کی تکمیل کرتے کرتے وحشت و بربریت کی زد میں آیا ہوا ہے۔ اس صورتحال میں گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے علاوہ وفاقی حکمران اور ان کے سیاسی حکومتی حلیف بھی محض سیاسی مفادات کی خاطر پنجاب کو دہشت گردوں کی نرسری کے الزامات سے نوازنا شروع ہوجائینگے تو اس سے سسٹم کو ہی نہیں ملک کی سالمیت کو بھی سنگین نقصان اٹھانا پڑیگا۔ یہ وقت ایک دوسرے کے ساتھ الجھنے اور ایک دوسرے کو مطعون کرنے کا نہیں بلکہ قومی یکجہتی کی فضا پیدا کرکے ملک کی سالمیت کے درپے دشمن کے مذموم عزائم کو ناکام بنانے کا ہے۔
یہ خوش آئند صورتحال ہے کہ میاں نوازشریف اور وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی میں ٹیلیفونک گفتگو کے دوران دہشت گردی کے تدارک کا لائحہ عمل طے کرنے کیلئے قومی کانفرنس طلب کرنے پر اتفاق ہوا ہے اور یہ بھی طے ہوگیا ہے کہ یہ کانفرنس اسی ہفتے منعقد کی جائیگی۔ اس لئے حکومتی اور اپوزیشن ارکان کو سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک دوسرے کے گریبانوں میں جھانکنے اور سیاست بازی کے شوق میں بلیم گیم کو فروغ دینے کا سلسلہ اب ترک کردینا چاہئے اور تمام وزراء اعلیٰ اس قومی کانفرنس میں سیاسی مفادات سے بالاتر ہو کر نہ صرف شریک ہوں بلکہ دہشت گردی کے تدارک کی ٹھوس اور قابل عمل تجاویز بھی لیکر آئیں۔ دہشت گردی کے کسی بھی واقعہ میں سکیورٹی لیپس کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ اگر وفاقی ایجنسیوں کو دہشت گردوں کے ملک کے مختلف حصوں میں داخل ہونے اور ان کے اہداف تک کی خبر ہوجاتی ہے تو وہ ان کی سرگرمیوں پر نظر رکھ کر مقررہ ہدف تک پہنچنے سے پہلے ہی ان کے مذموم عزائم کو بھی ناکام بنا سکتی ہیں۔ یہ بعید از قیاس ہے کہ وفاقی وزارت داخلہ کی جانب سے دہشت گردوں کی سرکوبی کے بارے میں صوبائی حکومت کو معلومات فراہم کی جائیں اور صوبائی حکومت اسکی روشنی میں دہشت گردوں کی سرگرمیوں کیلئے کوئی اقدام نہ کرے۔ اس نوعیت کی الزام تراشی سے وفاقی حکومت کو سیاسی فائدہ تو شائد ہی پہنچ پائے مگر اس سے ملک کی ساکھ کو ضرور نقصان پہنچ سکتا ہے اس لئے اب کم از کم دہشت گردی کے واقعات پر سیاست کرنے کا سلسلہ ترک کردیا جائے۔ دہشت گردی سے ہمیں ناقابل تلافی نقصان تو پہنچ ہی رہا ہے۔ اس پر سیاست کرکے ہم ملک کو مزید نقصان پہنچا بیٹھیں گے اور یہی ہمارے شاطر اور مکار دشمن کا ایجنڈا ہے۔
نام نہاد سیکولر ملک کی مقبوضہ کشمیر میں نماز جمعہ پر پابندی
دنیا کے بڑے جمہوری ملک ہونے کے دعویدار بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں تمام بڑی مساجد میں نماز جمعہ کی ادائیگی پر پابندی لگا دی حتیٰ کہ سرینگر کی تاریخی جامع مسجد میں اذان تک بلند نہیں ہونے دی۔ مکار و عیار ہندو بنیے کا اصل چہرہ اب دنیا کے سامنے عیاں ہو گیا ہے‘ مقبوضہ کشمیر کی متنازعہ حیثیت اور اس پر قبضہ تو رہا ایک طرف اب اس نے مسلمانوں کے ایمان پر حملے کرنے شروع کر دئیے ہیں۔ کیا ایسے اوچھے ہتھکنڈوں سے وہ کشمیری عوام کو اپنے ساتھ ملا لے گا‘ ایں خیال است ومحال است‘ اپنے آپکو سیکولر کہلانے کے ٹھیکیدار نے اپنے بدنما چہرے پر جوکالک لگائی ہے کیا اس نے دنیا کے سامنے اس کے نام نہاد سیکولر چہرے کو واضح نہیں کر دیا۔بھارت 63 سالوں سے کشمیریوں کے حقوق آزادی کو سلب کئے ہوئے ہے۔ اس نے اپنی سفاکی اور بربریت کے ذریعے ایک لاکھ کشمیریوں کو شہید‘ خواتین کی بے حرمتی اور کلی کی ماند معصوم بچوں کو ابدی نیند سلایا لیکن آج تک اپنے مقاصد میں کامیاب نہیں ہو سکا۔مقبوضہ کشمیر کی تحریک آزادی اب نئی نسل کو منتقل ہو چکی ہے بھارت کیلئے اب وقت ہے کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل کرکے اپنی آٹھ لاکھ غاصب فوج کو واپس بلا لے اور ظلم و جبر کے گرم کئے ہوئے بازار کو بند کرے۔وادی میں کرفیو نافذ کرنے اور مزید فوج تعینات کرنے سے یہ جنگ نہیں جیتی جا سکتی ہندو بنیا کبھی مقبوضہ وادی کو متنازعہ اور کبھی اپنا اٹوٹ انگ قرار دیتا ہے لیکن مسئلے کے حل کیلئے وہ خلوص نیت سے کبھی بھی مذاکرات کی میز پر نہیں آیا۔ ہندو بنیا کیلئے مزید فوجی جہنم واصل کرانے سے یہی بہتر ہے کہ وہ اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل کرکے مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کی جانب بڑھے۔
افغانستان میں امریکہ کا نیا کھیل
افغانستان میں طاقتور نیٹو کیمپ نے بالآخر امریکی ایجنڈے کے سامنے اقوامِ متحدہ کو سرجھکانے پر مجبور کردیا ہے۔اقوامِ متحدہ کے بارے میں کیوبا کے سابق صدر ڈاکٹر فیرل کاسٹرو نے کہا تھا کہ ’’ اقوام ِ متحدہ کی حیثیت امریکہ کی ایک گھریلو نو کرانی سے زیادہ نہیں ہے اور گزشتہ چالیس پینتالیس برس کے تجزیہ نے یہ ثابت کردیا ہے کہ ڈاکٹر کاسٹرو کی بات غلط نہیں امریکہ اقوام متحدہ سے ہمیشہ من پسند فیصلے کرانے میں کامیاب رہا ہے۔اس وقت امریکہ افغانستان سے خود پہلو بچا کر نکلنا چاہتا ہے۔ اور وہاں مسلمانوں کا کشت و خون او ر بربادی کو جاری رکھنے کیلئے زیادہ بڑے اسلام دشمن بھارت کو ٹھیکہ دیناچاہتا ہے بھارت کو افغانستان میں امریکہ کے ساتھ مل کر کارروائی کرنے کی اجازت دینے کا مطلب ہے کہ امریکہ بھارت کو پاکستان کے سرپر مسلط کرناچاہتا ہے تاکہ وہ افغانستان اور پاکستان میں اسلام دشمن ایجنڈا پر عمل عملدرآمد جاری رکھے اور اُسے امریکہ اور اقوامِ متحدہ کا تحفظ بھی حاصل رہے۔یہ سب کچھ امریکی جنرل پیٹر یاس اور اقوامِ متحدہ کے افغان امور کے انچارج سٹیفن ستورا کی ملی بھگت سے ہورہا ہے۔ جو امریکہ کو افغانستان سے نکل جانے اور یہاں اپنی پراکسی بھارت کے حوالے کر دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔پاکستان کو اِس تجویز کی شدید مخالفت کرناچاہئے اقوامِ متحدہ کے ارکان کو بھی اِس سلسلہ میں امریکی مقاصد کی تکمیل کی بجائے اقوامِ متحدہ کے رُکن ممالک کے حقوق پر توجہ دیناچاہئے۔
جعلی ہائوسنگ سوسائٹیوں کا احتساب کون کرے گا؟
نیب میں وسیع اُکھاڑ پچھاڑ کے بعد جعلی ہائوسنگ سکیموں کی بے قاعدگیوں کی تحقیقات کرنے والے خصوصی سیل کو ختم کردیا گیا ہے۔بتایا گیا ہے کہ سابق چیئر مین نیب نوید احسن نے کھمبیوں کی طرح وجود میں آنے والی جعلی ہائوسنگ سوسائٹیوں کے خلاف تحقیقات کیلئے کرنل(ر) نیاز کی سربراہی میں خصوصی سیل تشکیل دیا تھا اب اس سپیشل سیل کے خاتمہ کی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ جعلی ہائوسنگ سوسائٹیوں کے معاملات دیگر مقدمات کے ساتھ دیکھے جائیں گے اور اس اقدام کا مقصد فراڈ اور لوٹ مار میں شریک طاقتور لوگوں کو بچانا ہے۔نیب کی طرف سے اعلیٰ سیاسی شخصیات کے خلاف مقدمات کو واپس لیاجارہا ہے اور میڈیا میں اس کا ردِعمل دیکھ کر اگرچہ یہ عمل آہستہ کردیا گیا ہے تاہم یہ جاری ہے اور اس سیل کے خاتمہ کی وجہ بھی یہی بیان کی جاتی ہے۔نیب کا ادارہ قائم ہی اس لئے کیا گیا تھا کہ معاشرے میں جہاں جہاں بھی با اثر افراد کی کرپشن کا تعلق ہے انکے خلاف بغیر کسی لگی لپٹی کے کارروائی ہوسکے۔ ہائوسنگ سوسائٹیاں عوام کو اپنے پلاٹ اور اپنے گھر دینے کا لالچ دے کر اُن سے بھاری رقوم وصول کر لیتی ہیں۔ جعلی ہائوسنگ سوسائٹیاں حکومت کی رِٹ اور قانونی حکمرانی کیلئے ایک چیلنج ہے۔ ہر ضلع کے ترقیاتی ادارہ کو چاہئے کہ اپنے ضلع میں قائم ہونے والی ہائوسنگ سوسائٹیوں کے قانونی جواز، اجازت نامے اورنقشے کی منظوری کے بعد ہی اُنہیں اخبارات میں اشتہارات شائع کرانے کی اجازت دے۔ نیب کی طرف سے یہ سیل ختم کردینے سے معاشرے میں عام لوگوں کی لوٹ مار، دھوکا اور فراڈ میں غیر معمولی اضافہ ہوگا اور ایسے جرائم میں ملوث افراد کے خلاف فوری کارروائی کرنے اور احتساب کا کوئی ادارہ باقی نہیں رہے گا۔پاکستان بھر کے عوام کا مطالبہ ہے کہ نیب میں اس سیل کو بند کرنے کا فیصلہ واپس لیاجائے اور اس سیل کو زیادہ ایکٹو اور موثر بنایاجائے۔
دوسری جانب وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں محمد نوازشریف سے ٹیلیفونک گفتگو میں اس امر پر اتفاق کیا کہ دہشت گردی کے رجحان سے نمٹنے کیلئے قومی جذبے کو بروئے کار لایا جائے اور وفاقی اور صوبائی حکومتیں ملکر اس ضمن میں اقدامات کریں۔ انہوں نے دہشت گردی کے معاملہ پر قومی کانفرنس بلانے کی میاں نوازشریف کی تجویز قبول کرلی۔ یہ کانفرنس اسی ہفتے بلانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ نوائے وقت مسلسل لکھ رہا ہے طالبان سے بات کی جائے اب عمران خان نے بھی مطالبہ کیا ہے اور نواز شریف نے بھی اس مسئلہ پر کانفرنس بلانے کا مطالبہ کیا ہے۔
یہ انتہائی افسوسناک صورتحال ہے کہ دہشت گردی کی حالیہ لہر میں بے گناہ انسانی جانیں بے دریغ ضائع ہورہی ہیں۔ مسلمانوں اور اقلیتوں کی عبادتگاہوں کو دہشت گردی کا ہدف بنایا جا رہا ہے اور اب امن و آشتی کا درس دینے، اپنے اقوال و فعال سے فلاحِ انسانیت کی راہ سجھانے اور اسلام کا بول بالا کرنیوالی برصغیر کی بزرگ ہستی علی ہجویری داتا گنج بخشؒ کے مزار کو بھی نہیں بخشا گیا جس کا مقصد مسلمانوں میں تفرقہ بازی، فرقہ پرستی اور فروعی اختلافات کو بڑھا کر ایک دوسرے سے برسرپیکار کرنے کے سوا اور کچھ نظر نہیں آتا جبکہ حکمرانوں کی جانب سے دشمن کی سازشوں کی پیدا کردہ اس انتہائی گھمبیر صورتحال میں شہریوں کی جان و مال کے تحفظ کے ضروری اقدامات کرنے اور دہشت گردوں کی مذموم اور گھنائونی سازشوں کو ناکام بنانے کی حکمت عملی طے کرنے کے بجائے ایک دوسرے پر سیاسی پوائنٹ سکور کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور وفاقی حکمران پیپلز پارٹی کے عہدیداروں اور حکومتی ارکان اور حکومتی اتحادیوں کی جانب سے لٹھ لیکر پنجاب حکومت پر چڑھ دوڑنے کی پالیسی کو نہ صرف عملی جامہ پہنایا جا رہا ہے بلکہ اس موقع کو اپنے لئے غنیمت سمجھ کر پنجاب حکومت پر ملبہ ڈالتے ہوئے قومی مفادات کی بھی پاسداری نہیں کی جا رہی۔ بلاشبہ دہشت گردوں کا کوئی علاقہ، کوئی دین، کوئی مذہب، کوئی عقیدہ، کوئی نظریہ اور کوئی مخصوص ٹھکانہ نہیں ہوتا، مگر جس انداز میں پنجاب کو فوکس کرکے پنجاب حکومت کا ناطہ مبینہ دہشت گردوں کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کی جا رہی ہے، یہ ملک کا شیرازہ بکھیرنے کے دشمن کے ایجنڈے کو اپنے ہاتھوں پایہ تکمیل تک پہنچانے کی سازش نظر آتی ہے۔ جائزہ تو اس امر کا لیا جانا چاہئے جیسا کہ میاں نوازشریف نے بھی نشاندہی کی ہے کہ نائن الیون سے پہلے دہشت گردی کے ایسے واقعات کیوں نہیں ہوئے تھے؟ ہر ڈرون حملے کے بعد کہیں نہ کہیں خودکش حملے یا دہشت گردی کی واردات کیوں ہورہی ہے اور اب افغانستان سے نیٹو افواج کی واپسی کے حالات پیدا ہوتے ہی بالخصوص مسلمانوں کے مذہبی اور مقدس مقامات اور عبادتگاہوں کو کیوں نشانہ بنایا جا رہا ہے مگر بدقسمتی سے ملکی و قومی بقاء و سلامتی کی جانب توجہ دینے اور اسلام دشمن طاغوتی طاقتوں کے مذموم عزائم کو ناکام بنانے کی بجائے ایک دوسرے کے گریبان میں جھانکنے اور ایک دوسرے پر گند اچھال کر دشمن کے ایجنڈے کی تکمیل کا موقع فراہم کرنے کا سوچا اور طے کیا جا رہا ہے۔ وفاقی وزیر داخلہ رحمان ملک کی تو تان ہی پنجابی طالبان پر آکر ٹوٹتی ہے جس کا مقصد سوائے اسکے اور کچھ نہیں کہ امریکی احکام کی تعمیل کرتے ہوئے فوجی آپریشن کا دائرہ پنجاب تک پھیلایا جائے اور امریکہ کو پنجاب پر بھی ڈرون حملے کرنے کی ترغیب دی جائے۔ وفاقی وزیر قانون ڈاکٹر بابر اعوان بھی سیاسی پوائنٹ سکورنگ کی اس پالیسی میں پیچھے نہیں رہنا چاہتے اور پنجاب کے مختلف شہروں میں وکلاء میں فنڈز بانٹتے اور پیپلز پارٹی کے کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے بھی پنجاب حکومت کو مطعون کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور مطالبہ کردیا کہ امن و امان کی ناکامی پر پنجاب حکومت مستعفی ہوجائے۔ اسی طرح پیپلز پارٹی کی حکومتی اتحادی اے این پی اور ایم کیو ایم (متحدہ) بھی اس ’’بلیم گیم‘‘ میں اپنا نام شامل کرانے میں ’’سرخرو‘‘ ٹھہری ہے۔ وزیر اطلاعات خیبر پی کے میاں افتخار حسین نے نہلے پر دہلا مارتے ہوئے الزام عائد کیا ہے کہ دہشت گردوں کے استاد پنجاب میں ہیں اس لئے انکے خلاف پنجاب میں کارروائی کرنا بہت ضروری ہے جبکہ الطاف بھائی کو دہشت گردی سے نمٹنے کے نام پر حق پرست لشکر بنانے کی ترغیب دینے کا نادر موقع مل گیا ہے۔ یہ لشکر بنیں گے تو مسلح بھی ہوں گے جو امن و امان کیلئے ایک نیا مسئلہ بنیں گے۔ مبینہ دہشت گردوں کے لشکروں کے سدباب کے نام پر کراچی حیدر آباد میں اپنا لشکر بنانے کی ترغیب دینا ملک کو امن و امان کی تباہی کی جانب لے جانے کے مترادف ہوگا جبکہ وطن عزیز پہلے ہی بیرونی ایجنڈے کی تکمیل کرتے کرتے وحشت و بربریت کی زد میں آیا ہوا ہے۔ اس صورتحال میں گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے علاوہ وفاقی حکمران اور ان کے سیاسی حکومتی حلیف بھی محض سیاسی مفادات کی خاطر پنجاب کو دہشت گردوں کی نرسری کے الزامات سے نوازنا شروع ہوجائینگے تو اس سے سسٹم کو ہی نہیں ملک کی سالمیت کو بھی سنگین نقصان اٹھانا پڑیگا۔ یہ وقت ایک دوسرے کے ساتھ الجھنے اور ایک دوسرے کو مطعون کرنے کا نہیں بلکہ قومی یکجہتی کی فضا پیدا کرکے ملک کی سالمیت کے درپے دشمن کے مذموم عزائم کو ناکام بنانے کا ہے۔
یہ خوش آئند صورتحال ہے کہ میاں نوازشریف اور وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی میں ٹیلیفونک گفتگو کے دوران دہشت گردی کے تدارک کا لائحہ عمل طے کرنے کیلئے قومی کانفرنس طلب کرنے پر اتفاق ہوا ہے اور یہ بھی طے ہوگیا ہے کہ یہ کانفرنس اسی ہفتے منعقد کی جائیگی۔ اس لئے حکومتی اور اپوزیشن ارکان کو سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک دوسرے کے گریبانوں میں جھانکنے اور سیاست بازی کے شوق میں بلیم گیم کو فروغ دینے کا سلسلہ اب ترک کردینا چاہئے اور تمام وزراء اعلیٰ اس قومی کانفرنس میں سیاسی مفادات سے بالاتر ہو کر نہ صرف شریک ہوں بلکہ دہشت گردی کے تدارک کی ٹھوس اور قابل عمل تجاویز بھی لیکر آئیں۔ دہشت گردی کے کسی بھی واقعہ میں سکیورٹی لیپس کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ اگر وفاقی ایجنسیوں کو دہشت گردوں کے ملک کے مختلف حصوں میں داخل ہونے اور ان کے اہداف تک کی خبر ہوجاتی ہے تو وہ ان کی سرگرمیوں پر نظر رکھ کر مقررہ ہدف تک پہنچنے سے پہلے ہی ان کے مذموم عزائم کو بھی ناکام بنا سکتی ہیں۔ یہ بعید از قیاس ہے کہ وفاقی وزارت داخلہ کی جانب سے دہشت گردوں کی سرکوبی کے بارے میں صوبائی حکومت کو معلومات فراہم کی جائیں اور صوبائی حکومت اسکی روشنی میں دہشت گردوں کی سرگرمیوں کیلئے کوئی اقدام نہ کرے۔ اس نوعیت کی الزام تراشی سے وفاقی حکومت کو سیاسی فائدہ تو شائد ہی پہنچ پائے مگر اس سے ملک کی ساکھ کو ضرور نقصان پہنچ سکتا ہے اس لئے اب کم از کم دہشت گردی کے واقعات پر سیاست کرنے کا سلسلہ ترک کردیا جائے۔ دہشت گردی سے ہمیں ناقابل تلافی نقصان تو پہنچ ہی رہا ہے۔ اس پر سیاست کرکے ہم ملک کو مزید نقصان پہنچا بیٹھیں گے اور یہی ہمارے شاطر اور مکار دشمن کا ایجنڈا ہے۔
نام نہاد سیکولر ملک کی مقبوضہ کشمیر میں نماز جمعہ پر پابندی
دنیا کے بڑے جمہوری ملک ہونے کے دعویدار بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں تمام بڑی مساجد میں نماز جمعہ کی ادائیگی پر پابندی لگا دی حتیٰ کہ سرینگر کی تاریخی جامع مسجد میں اذان تک بلند نہیں ہونے دی۔ مکار و عیار ہندو بنیے کا اصل چہرہ اب دنیا کے سامنے عیاں ہو گیا ہے‘ مقبوضہ کشمیر کی متنازعہ حیثیت اور اس پر قبضہ تو رہا ایک طرف اب اس نے مسلمانوں کے ایمان پر حملے کرنے شروع کر دئیے ہیں۔ کیا ایسے اوچھے ہتھکنڈوں سے وہ کشمیری عوام کو اپنے ساتھ ملا لے گا‘ ایں خیال است ومحال است‘ اپنے آپکو سیکولر کہلانے کے ٹھیکیدار نے اپنے بدنما چہرے پر جوکالک لگائی ہے کیا اس نے دنیا کے سامنے اس کے نام نہاد سیکولر چہرے کو واضح نہیں کر دیا۔بھارت 63 سالوں سے کشمیریوں کے حقوق آزادی کو سلب کئے ہوئے ہے۔ اس نے اپنی سفاکی اور بربریت کے ذریعے ایک لاکھ کشمیریوں کو شہید‘ خواتین کی بے حرمتی اور کلی کی ماند معصوم بچوں کو ابدی نیند سلایا لیکن آج تک اپنے مقاصد میں کامیاب نہیں ہو سکا۔مقبوضہ کشمیر کی تحریک آزادی اب نئی نسل کو منتقل ہو چکی ہے بھارت کیلئے اب وقت ہے کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل کرکے اپنی آٹھ لاکھ غاصب فوج کو واپس بلا لے اور ظلم و جبر کے گرم کئے ہوئے بازار کو بند کرے۔وادی میں کرفیو نافذ کرنے اور مزید فوج تعینات کرنے سے یہ جنگ نہیں جیتی جا سکتی ہندو بنیا کبھی مقبوضہ وادی کو متنازعہ اور کبھی اپنا اٹوٹ انگ قرار دیتا ہے لیکن مسئلے کے حل کیلئے وہ خلوص نیت سے کبھی بھی مذاکرات کی میز پر نہیں آیا۔ ہندو بنیا کیلئے مزید فوجی جہنم واصل کرانے سے یہی بہتر ہے کہ وہ اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل کرکے مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کی جانب بڑھے۔
افغانستان میں امریکہ کا نیا کھیل
افغانستان میں طاقتور نیٹو کیمپ نے بالآخر امریکی ایجنڈے کے سامنے اقوامِ متحدہ کو سرجھکانے پر مجبور کردیا ہے۔اقوامِ متحدہ کے بارے میں کیوبا کے سابق صدر ڈاکٹر فیرل کاسٹرو نے کہا تھا کہ ’’ اقوام ِ متحدہ کی حیثیت امریکہ کی ایک گھریلو نو کرانی سے زیادہ نہیں ہے اور گزشتہ چالیس پینتالیس برس کے تجزیہ نے یہ ثابت کردیا ہے کہ ڈاکٹر کاسٹرو کی بات غلط نہیں امریکہ اقوام متحدہ سے ہمیشہ من پسند فیصلے کرانے میں کامیاب رہا ہے۔اس وقت امریکہ افغانستان سے خود پہلو بچا کر نکلنا چاہتا ہے۔ اور وہاں مسلمانوں کا کشت و خون او ر بربادی کو جاری رکھنے کیلئے زیادہ بڑے اسلام دشمن بھارت کو ٹھیکہ دیناچاہتا ہے بھارت کو افغانستان میں امریکہ کے ساتھ مل کر کارروائی کرنے کی اجازت دینے کا مطلب ہے کہ امریکہ بھارت کو پاکستان کے سرپر مسلط کرناچاہتا ہے تاکہ وہ افغانستان اور پاکستان میں اسلام دشمن ایجنڈا پر عمل عملدرآمد جاری رکھے اور اُسے امریکہ اور اقوامِ متحدہ کا تحفظ بھی حاصل رہے۔یہ سب کچھ امریکی جنرل پیٹر یاس اور اقوامِ متحدہ کے افغان امور کے انچارج سٹیفن ستورا کی ملی بھگت سے ہورہا ہے۔ جو امریکہ کو افغانستان سے نکل جانے اور یہاں اپنی پراکسی بھارت کے حوالے کر دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔پاکستان کو اِس تجویز کی شدید مخالفت کرناچاہئے اقوامِ متحدہ کے ارکان کو بھی اِس سلسلہ میں امریکی مقاصد کی تکمیل کی بجائے اقوامِ متحدہ کے رُکن ممالک کے حقوق پر توجہ دیناچاہئے۔
جعلی ہائوسنگ سوسائٹیوں کا احتساب کون کرے گا؟
نیب میں وسیع اُکھاڑ پچھاڑ کے بعد جعلی ہائوسنگ سکیموں کی بے قاعدگیوں کی تحقیقات کرنے والے خصوصی سیل کو ختم کردیا گیا ہے۔بتایا گیا ہے کہ سابق چیئر مین نیب نوید احسن نے کھمبیوں کی طرح وجود میں آنے والی جعلی ہائوسنگ سوسائٹیوں کے خلاف تحقیقات کیلئے کرنل(ر) نیاز کی سربراہی میں خصوصی سیل تشکیل دیا تھا اب اس سپیشل سیل کے خاتمہ کی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ جعلی ہائوسنگ سوسائٹیوں کے معاملات دیگر مقدمات کے ساتھ دیکھے جائیں گے اور اس اقدام کا مقصد فراڈ اور لوٹ مار میں شریک طاقتور لوگوں کو بچانا ہے۔نیب کی طرف سے اعلیٰ سیاسی شخصیات کے خلاف مقدمات کو واپس لیاجارہا ہے اور میڈیا میں اس کا ردِعمل دیکھ کر اگرچہ یہ عمل آہستہ کردیا گیا ہے تاہم یہ جاری ہے اور اس سیل کے خاتمہ کی وجہ بھی یہی بیان کی جاتی ہے۔نیب کا ادارہ قائم ہی اس لئے کیا گیا تھا کہ معاشرے میں جہاں جہاں بھی با اثر افراد کی کرپشن کا تعلق ہے انکے خلاف بغیر کسی لگی لپٹی کے کارروائی ہوسکے۔ ہائوسنگ سوسائٹیاں عوام کو اپنے پلاٹ اور اپنے گھر دینے کا لالچ دے کر اُن سے بھاری رقوم وصول کر لیتی ہیں۔ جعلی ہائوسنگ سوسائٹیاں حکومت کی رِٹ اور قانونی حکمرانی کیلئے ایک چیلنج ہے۔ ہر ضلع کے ترقیاتی ادارہ کو چاہئے کہ اپنے ضلع میں قائم ہونے والی ہائوسنگ سوسائٹیوں کے قانونی جواز، اجازت نامے اورنقشے کی منظوری کے بعد ہی اُنہیں اخبارات میں اشتہارات شائع کرانے کی اجازت دے۔ نیب کی طرف سے یہ سیل ختم کردینے سے معاشرے میں عام لوگوں کی لوٹ مار، دھوکا اور فراڈ میں غیر معمولی اضافہ ہوگا اور ایسے جرائم میں ملوث افراد کے خلاف فوری کارروائی کرنے اور احتساب کا کوئی ادارہ باقی نہیں رہے گا۔پاکستان بھر کے عوام کا مطالبہ ہے کہ نیب میں اس سیل کو بند کرنے کا فیصلہ واپس لیاجائے اور اس سیل کو زیادہ ایکٹو اور موثر بنایاجائے۔