2021ء میں قوم ایسے حالات میں داخل ہو رہی ہے۔ جب وہ پی ڈی ایم اور پی ٹی آئی میں منقسم ہے اس پر ہر کوئی متفق ہے کہ اگر جمہوریت کی گاڑی کو آگے چلانا ہے تو سب کو مذاکرات کی ایک میز پر آنا ہوگا۔ استعفوں کے سوال پر پیپلزپارٹی سندھ میں حکومت گنوانے کا خطرہ مول نہیں لے گی تاہم قومی اسمبلی سے استعفے دیئے جا سکتے ہیں۔ ماضی میں استعفوں سے پچھتاوے کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آیا۔ یہ تجربہ ایم کیو ایم اور پیپلزپارٹی کر چکی ہے۔ پی ڈی ایم 31 جنوری تک وزیراعظم کو استعفیٰ دینے بصورت دیگر فروری میں اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کا نوٹس دے چکی ہے۔ کراچی سے لیکر گلگت بلتستان تک جلسے اور ریلیاں اسلام آباد میں جمع ہوں گی۔ مولانا فضل الرحمان پانچ مرتبہ رکن قومی اسمبلی رہے اور مفاہمت کی سیاست کا علم لیکر چلے۔ یہ پہلا موقع ہے کہ وہ اسمبلی سے باہر ہیں اور مزاحمت کی سیاست کا علم اٹھائے ہوئے ہیں۔ شہبازشریف اور حمزہ شہباز قیدی ہونے کے باوجود پرعزم ہیں۔ پارلیمنٹ بظاہر مفلوج دکھائی دے رہی ہے۔ مذاکرات کی دعوت کا ڈھنڈورا سیاسی فریب سے زیادہ کچھ نہیں۔ گڑھی خدا بخش میں بلاول اور مریم کا جارحانہ طرز سیاست مزید کھل کر سامنے آگیا ہے۔ یہ پہلا موقع تھا کہ بے نظیر کی برسی پر بلاول نے پی ڈی ایم کا شو گڑھی خدا بخش میں کرا دیا ورنہ ایسے موقع پر کبھی بھی پیپلزپارٹی کے سوا کوئی دوسری جماعت برسی کے اجتماع میں شریک نہیں ہوئی تھی۔ دنیا کو کوئی طاقت شہباز شریف کو نوازشریف سے جدا نہ کر سکی۔ شہباز شریف کی استقامت کو سلام۔ سیاست میں مقدمات اور زندان خانے ہمیشہ نہیں چلتے۔ ہر سورج کا غروب قانون الٰہی ہے۔
بلوچستان میں دہشت گردی کی نئی لہر نے پریشان کر دیا ہے۔ بھارت نہ صرف یہ کہ پاکستان کیخلاف دہشت گردی کے نیٹ ورکس کی ترویج اور سرپرستی کررہا ہے بلکہ گمراہ کن خبروں اور پراپیگنڈہ کے ذریعے بھی پاکستان کو نقصان پہنچا رہا ہے۔ بھارت کا یہ کردار خطے میں بدامنی کا پیش خیمہ ہے۔ قوم بھارتی حمایت یافتہ دہشت گردی میں مقابلہ کرنیوالے بہادر جوانوں کے ساتھ کھڑی ہے۔ پاکستان میں دہشتگردی اور تخریب کاری کے واقعات سے عالمی اداروں کی چشم پوشی بھارت کیلئے سہولت پیدا کررہی ہے۔ 2021ء ہمیں سیاست کی بند گلی میں لے جا رہا ہے۔ وزیراعظم ڈھائی سال سے مخالفین پر کرپشن کے الزامات عائد کررہے ہیں۔ انہیں اپنے وزراء کو وارننگ دینے کی ضرورت کیوں پیش آئی۔ کارکردگی صفر ہو تو وارننگ دی جاتی ہے۔ سوا دو سال میں کون سا تیر مار لیا جائیگا۔ حکومت کی مدت کم ہوتی جائے تو بیوروکریسی بھی ڈھیلی پڑ جاتی ہے۔ اجلاسوں میں حکمرانوں کو مشغول رکھتی اور انکی ہاں میں ہاں ملاتی ہے۔ اجلاسوں سے فارغ ہو کر اپنے دفاتر میں آکر گپ شپ میں مشغول ہوجاتی ہے۔ اپوزیشن کبھی فوج کیخلاف نہیں ہو سکتی۔ اس کا مطالبہ صرف اتنا ہے کہ ریاستی ادارے آئین کی بالادستی کو ملحوظ رکھیں اور آئینی حدود سے تجاوز نہ کریں تاکہ پھر کبھی کوئی ایوب خان‘ ضیاء الحق اور پرویز مشرف مسلط نہ ہو سکے۔ تبدیلی کا تو یہ عالم ہے کہ لاہور جیسا شہر تعفن کا شکار ہے۔ گندگی کے ڈھیروں نے شہر کا حلیہ بگاڑ دیا ہے۔ ایل ڈبلیو ایم سی کس کام کی ہے۔ کیا چور ڈاکو صرف سیاست دان ہیں۔ بیوروکریسی و دیگر نہیں؟ کونسا انسپکٹر ایسا ہے جس پر ناجائز کمائی مہربان نہیں۔ گیارہویں گریڈ کے انسپکٹر فوڈ کے ہوں یا لیبر کے پولیس کے ہوں یا ایکسائز کے‘ انکم ٹیکس کے ہوں یا کارپوریشن کے‘ بڑے بڑے پلازوں اور مارکیٹوں کے مالک کیسے بن گئے۔ نوازشریف اور زرداری میں دولت بے کنار کے مالک نہیں یہ ادنیٰ سرکاری اہلکار بھی شہزادوں کی زندگی گزارتے ہیں۔ لیکن خوش قسمتی سے یہ اینٹی کرپشن اور نیب کی گرفت سے آزاد ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف پاکستانی کردار بھارت کو ہضم نہیں ہو رہا۔ بلوچستان میں ترقی کا عمل ہی یہاں سے شرپسندوں کا مکمل خاتمہ کر دیگا۔ دشمن سے نمٹنے کیلئے ملک کے اندر اتحاد و یکجہتی سیاسی قوتوں کی ذمہ داری ہے۔ وزیراعظم نے پارٹی ترجمان کو ہدایت کی ہے کہ اپوزیشن کو اینٹ کا جواب پتھر سے دیں۔ مولانا فضل الرحمان کی کرپشن سامنے لائیں۔ شیخ رشید نے بھپتی کسی ہے کہ پی ڈی ایم کا لانگ مارچ ’’لونگ مارچ‘‘ ہوگا۔ زرداری کرمنالوجی میں پی ایچ ڈی ہیں۔ ادھر صدر علوی نے واضح کیا ہے کہ حکومت مستعفی ہو گی نہ اسمبلیاں تحلیل ‘ قومی ڈائیلاگ کیلئے سپیکر کوئی راستہ نکالیں گے۔ استعفیٰ کا مطالبہ بلاجواز‘ کب اور کس سے ڈائیلاگ؟ وزیراعظم طے کرینگے وزراء کا کہنا ہے نوازشریف‘ فضل الرحمان اور مریم غیرمنتخب ہیں۔ سنجیدہ لوگ آگے آئیں پارلیمنٹ میں بات کرینگے۔ فردوس عاشق اعوان‘ مریم نواز کو راجکماری کہہ کر مخاطب ہوتی ہیں۔ شیخ رشید مولانا فضل الرحمان کو فساد کی جڑ قرار دیتے ہیں۔سیاسی کشیدگی اور خلفشار کی فضا کون پیدا کررہا ہے۔ لانگ مارچ ہوا تو نہ سیاسی استحکام رہے گا اور نہ معاشی استحکام۔ اجتماعی استعفے ہوئے تو نظام ہی معطل ہو کر رہ جائیگا۔ صحت کارڈوں اور پناہ گاہوں سے تو اگلا مینڈیٹ نہیں ملے گا۔ وزیراعظم نے سچائی کا اظہار کرتے ہوئے تسلیم کیا کہ بغیر تیاری حکومت نہیں لینی چاہیے۔ دو وقت کی روٹی کے ڈھابے‘ ٹھیلے اور ریڑھیاں چلانے والے سات کروڑ سے زیادہ لوگ طاقتور بھتہ خوروں کے نیٹ ورک میں پھنسے ہوئے ہیں۔
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024