ہمارے ہاں عمومی طور پر یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ میڈیا سچ نہیں دکھاتا یا میڈیا آزاد نہیں ہے اور اسکے برعکس ویسٹرن میڈیا کی مثالیں دی جاتی ہیں خبر کے حقائق تک پہنچنے کے لیے ویسٹرن کے بی بی سی کو دیکھا اور سْنا جاتا ہے لیکن حقائق اور سچ کی جستجو کے متلاشی یہ نہیں جانتے کہ برطانیہ کے شہری اس سچ کی قیمت کیا ادا کرتے ہیں ویسٹرن میڈیا آزاد کیسے ہے اور کس طرح اْن کو یہ آزادی میسر ہے اسکے پیچھے اْنکی کون سی پالیسیاں ہیں کہ برطانیہ میں میڈیا حکومتی پالیسیوں کی سمت بھی درست کرتا ہے اور حکومت اْنکی گائیڈ لائن کو قبول بھی کر رہی ہوتی ہے حتی کہ برطانیہ کے ہر ایوان کے اجلاس آن کیمرہ ہو رہے ہوتے ہیں جس کیلئے بی بی سی کا باقاعدہ ایک پارلیمنٹ چینل موجود ہے ہمارے ہاں تو ہر پانچ دس منٹ بعد اشتہارات شروع ہو جاتے اور انسان کا دماغی فوکس میڈیا ٹاک شو سے نکل کر کچن اور واش روم آیٹمز میں اْلجھ جاتا ہے جبکہ برطانیہ میں ٹی وی چینلز پر تین سے پانچ گھنٹے بعد کہیں ایک معمولی سا ایڈ اْس وقت آتا ہے جب جاری بات ختم ہو چکی ہوتی ہے۔ برطانیہ کی کمپنیاں اپنی پراڈکٹس کی پرموشن کے الگ سے آگاہی پروگرام کرتی ہیں اِسکے بعد سوال یہ اْٹھتا ہے کہ آخر بغیر اشتہار کے وہاں کا میڈیا اپنے اخراجات کہاں سے پورے کرتا ہے اور بزنس کیسے چلتا ہے ان کا کیونکہ ایک ٹی وی چینل کو بھی اب سیٹلایٹ پر جانے کیلئے جو سرور خریدنا ہوتا ہے اس کی ادائیگیاں بھی پندرہ سے بیس لاکھ ماہانہ تک ہوتی ہیں تنخواہیں اور دیگر اخراجات کروڑوں میں اسکے علاوہ ہیں متعدد پاکستانی ٹی وی چینل تو اپنا سیٹلایٹ سرور بھی لینے کی پوزیشن میں نہیں ہیں بہت سے چینل مل کر ایک انٹرنیٹ سرور استعمال کرتے ہیں میڈیا کے اکثر اداروں کے پاس تو خبری وسائل ہی پورے نہیں ہوتے جس کے باعث جانفیشانی اور مقصدیت سے کام کرنے میں فرق آجانا ایک قدرتی امر ہے۔جِسے ہم یو۔ کے کہتے ہیں وہ تین ریاستوں پر مشتمل ہے جن میں نادرن آئرلینڈ ، انگلینڈ سکاٹ لینڈ اور ویلز شامل ہیں جہاں ایک ہی قانون لاگو ہوتا ہے امریکہ کی طرح ہر ریاست کے الگ قوانین نہیں ہوتے اور برطانیہ میں میڈیا اپنے انہی میڈیا قوانین کی وجہ سے آزاد ہے اور سچ فراہم کرتا ہے اْنکی روزی اشتہارات کی پابند نہیں ہوتی وہاں کا ہر ٹی وی دیکھنے والا گھر سالانہ 156 پاونڈ ٹی وی دیکھنے کا ادا کرتا ہے 65 سال سے زائد عمر والے یہ فیس دینے کے پابند نہیں ہیں جو یہ فیس ادا نہیں کرتے اْن کیلئے جرمانے اور قید تک کی سزائیں موجود ہیں برطانوی شہری اپنی سہولت سے یہ ٹی وی فیس چھ پاونڈ ہفتہ بھی دے سکتے ہیں چھ پاونڈ تقریباً 12 سو روپے پاکستانی بنتے ہیں یہ ٹی وی فیس لینے کیلئے اْنکی باقاعدہ چیکینگ ٹیمیں ہوتی ہیں جو گھر کے باہر کھڑے ہو کر آلات سے چیک کر لیتے ہیں کہ اس گھر میں ٹی وی چل رہا ہے یا نہیں فیس ادا کرنے کے صرف 27 ہزار پوائنٹ لندن میں ہیں اِسکے علاوہ آن لائن اور بذریعہ ٹیکسٹ بھی فیس ادا کی جا سکتی ہے برطانیہ کے قانون میں ٹی وی دیکھنا آسائش میں شامل ہے جس کی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے۔ اس سسٹم کو آپریٹ کرنے کیلئے برطانیہ میں دو بڑے ادارے ہیں جن میں ایک ورجن میڈیا اور دوسرا سکائی میڈیا ہے اکیلے ورجن میڈیا کی چالیس کمپنیاں ہیں دنیا کے 35 ممالک میں ان کے 71 ہزار ملازمین کام کر رہے ہیں ورجن میڈیا کے مالک رچرڈ برانسن ہیں یہ دونوں کمپنیاں اپنے اپنے ایریا میں ہر برطانوی گھر میں اپنی سروسز فراہم کرتے ہیں جن میں کیبل انٹرنیٹ اور ٹیلی فون تینوں شامل ہیں اْن کے کیبل آپریٹر بھی تعلیم یافتہ انجینئر ہوتے ہیں جو متعلقہ گھر میں جاکر وہ چینل سیٹ کر دیتے ہیں جو وہ دیکھنا چاہتے ہیں اور جو چینل سیٹ کیے جاتے ہیں اْن کو حکومت کی طرف سے وہ پیسے ٹرانسفر ہو جاتے ہیں جو اس گھر سے وصول کیے جاتے ہیں اْن کے ایک ایک چینل کے لاکھوں سبسکرائبر ہیں جن سے ویکلی ماہانہ یا سالانہ یہ پیسے حکومت وصول کر کے اْنہیں ٹرانسفر کرتی ہے وہ نہ اشتہارات لیتے اور نہ چلاتے ہیں جس کے بعد سچ پر مبنی آزاد رپورٹنگ ہوتی ہے اور وہ سچ دکھایا جاتا ہے جو دیکھنے کیلئے برطانوی قوم یہ پیسے ادا کرتی ہے۔ انقلاب صرف خون سے نہیں آتے بلکہ اس کے لیے مالی ادائیگیاں بھی کرنی پڑتی ہیں ہمارے ہاں تو بجلی بلز میں لگ کر آنے والی 100 روپے کی رقم بھی ہمیں تکلیف دے رہی ہوتی ہے اور خبریں ہم ساری سْننا چاہتے ہیں برطانیہ میں لاک ڈائون کے دوران بی بی سی کو اربوں روپے کا نقصان ہوا کہ برطانوی حکومت نے ٹی وی فیس ادا نہ کرنے والے شہریوں کے عدالتی ٹرائل پر پابندی عائد کر دی تھی جس کے بعد برطانوی شہریوں نے لاک ڈائون میں ٹی وی فیسیں ادا نہیں کیں۔۔۔ ہمارا مجموعی مزاج سیٹ یہ ہے کہ ہم خبریں بھی صرف اپنی مرضی کی سننا اور پڑھنا چاہتے ہیں خبری میڈیا ادارے بھی حکومت اور اپوزیشن میں بٹ چکے ہیں قومی کی بجائے سیاسی اور ذاتی نظریے کے تحت خبریں عوامی رجحان کے مطابق بنتی ہیں ایک سیاسی پارٹی دوسری پارٹی کے نظریے کو سننا ہی گوارا نہیں کرتی میڈیا اداروں اور ورکرز کو اکثر اپنی سانس کی ڈوری بحال رکھنے کے لیے دیکھنے اور سننے والوں کی ڈیمانڈ کے مطابق خبریں دینا پڑتی ہیں جس میں ہر کسی کو اپنا سچ اور دوسرے کا جھوٹ دکھائی دیتا ہے۔۔۔ سچ دیکھنے اور سْننے کیلئے ہمیں ایک قوم بننا ہوگا اور سچ کی قیمت ادا کرنی ہوگی ۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024