آج 5 جنوری ہے۔ پاکستان اور کشمیر کی تاریخ کا اہم ترین دن۔ آج سے 71 برس قبل، 5 جنوری 1949 وہ یادگار دن تھا جب اقوام متحدہ نے پہلی مرتبہ اور واشگاف الفاظ میںیہ تسلیم کیا تھا کہ مسئلہ کشمیر کا واحد حل غیر جانبدارانہ اور آزادانہ استصواب رائے ہے جس میں کشمیر کی عوام کو یہ آزادی دی جائے کہ وہ بغیر کسی دبائو کے اپنی مرضی سے اپنے مستقبل کا فیصلہ کر سکیں۔( بحوالہ دستاویز نمبر 5/1196)۔
قیام پاکستان کے وقت بر صغیر میں لگ بھگ 560 ریاستیں ایسی تھیں جن کو تین جون کے منصوبے تحت اختیار دیا گیا تھا کہ وہ چاہے تو پاکستان کے ساتھ الحاق کریں اور چاہے تو بھارت کے ساتھ۔ بہت سی ریاستوں نے اپنی مرضی سے اپنے مستقبل کا فیصلہ کیا اور بہت سوں پر بھارت نے زبردستی قبضہ کر لیا۔ آزادی کے وقت کشمیر کی آبادی کا 75فیصد سے زیادہ حصہ مسلمان تھا لیکن اسکا راجہ ہری سنگھ کا پوتا رنبیر سنگھ تھا۔ ( اس خاندان نے انگریزوں سے کشمیر 75 لاکھ روپے میں خریدا تھا)۔ بہر کیف کشمیر کے راجہ نے 15اگست 1947کو پاکستان کے ساتھ ایک Stand Still Agreement کیا۔ بھارت نے کشمیر کے ساتھ اس قسم کا کوئی معاہدہ کرنے سے انکار کر دیا۔ کشمیر کی آبادی کی غالب اکثریت مسلمان تھی انہوں نے کشمیر کے راجہ کے خلاف آواز بلند کی اور آزادی کا اعلان کر دیا۔ راجہ کی افواج کے کشمیر کی مسلمان آبادی پر ظلم و ستم حد سے بڑھ گئے تو کشمیری عوام نے مسلح جد ہ جہد کا آغاز کر دیا۔ کشمیریوںکی بے بسی اور حالت دیکھ کرپاکستان کے صوبہ سرحد ( موجودہ خیبر پختونخواہ) کے غیور قبائیلیوں نے کشمیری بھائیوں کی مدد کا اعلان کیا۔ حالات کی سنگینی دیکھ کر کشمیر کا ڈوگرہ راجہ کشمیر چھوڑ کر بھارت بھاگ گیا۔ 26اکتوبر 1947کو بھارت نے اعلان کیا کہ کشمیر کے راجہ نے بھارت کے ساتھ الحاق کا معاہدہ کر لیا ہے اور اگلے روز بھارت نے اپنی افواج کشمیر میں داخل کر دیں۔ پاکستان نے بھارت کے اس اعلان اور کشمیر کے مفرور راجہ کے اس مبینہ فیصلے کو ماننے سے انکار کر دیا۔ اس انکار کی دو اہم وجوہات تھیں۔ ایک تو یہ کہ کشمیر کی آبادی کا غالب حصہ مسلمان تھا اور اسکے مفرور ہندو راجہ کا یہ اعلان نہ صرف کشمیری آبادی کی امنگوں کے خلاف تھا بلکہ کشمیر کے راجہ نے پاکستان کے ساتھ جو Stand Still Agreement کیا ہو ا تھا اسکے بھی خلاف تھا۔ اس معاہدے کی رو سے پاکستان سے مشاورت اور یہ معاہدہ ختم کئے بغیر کشمیر کے راجہ کو قانونی طور پر یہ حق نہیں تھا کہ وہ بھارت کے ساتھ کوئی معاہدہ یا الحاق کرتا۔ اس کے علاوہ بھارت کے ساتھ کسی قسم کے الحاق کا فیصلہ تقسیم ہند کے بنیادی قانون اور فلسفے کے ہی خلاف تھا کیونکہ برصغیر کی تقسیم ہوئی ہی اس اصول پر تھی کی مسلم اکثریت والے علاقے پاکستان میں شامل ہونگے۔ چانکیہ کے پیروکار بھارت نے اس پر یہ کہا کہ یہ سب ایک وقتی انتظام ہے اور کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ کشمیری عوام کی خواہش کیمطابق کیا جائیگا۔2 نومبر 1947کو بھارت کے وزیر اعظم نہرو نے اپنی قوم سے خطاب کرتے ہوئے یہ اعلان اور وعدہ کیا کہ کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق، اور اقوام متحدہ کی نگرانی میں استصواب رائے سے کیا جائیگا۔ حالات زیادہ خراب ہوئے اور مئی 1948میں پاکستان اور بھارت کے درمیان پہلی جنگ چھڑ گئی۔ بھارت خود اس مسئلے کو لے کر اقوام متحدہ گیا۔ 27جولائی 1947کو پاک بھارت جنگ بندی ہو گئی۔ پانچ جنوری 1949کو اقوام متحدہ کے قائم کردہ ’’ یونائیٹڈ نیشن کمیشن فار انڈیا اینڈ پاکستان‘‘ (UNCIP) نے، جس کے ممبر ممالک میں ارجنٹینا، بیلجیم، کولمبیا، چیکوسلوواکیا اور امریکہ شامل تھے ، باضابطہ اعلان کیا کہ پاکستان اور بھارت دونوں حکومتوںسے بات چیت اور ان دونوں کے موقف کو سننے کے بعد کمیشن اس نتیجے پر پہنچا ہے (اور پاکستان اور بھارت کی حکومتوں نے بھی اس سے اتفاق کیا ہے ) کہ حق رائے دہی کشمیر کے عوام کا بنیادی حق ہے اور پاکستان یا بھارت کے ساتھ الحاق کے بارے میں کشمیری عوام کی مرضی اور رائے جاننے کے لیے کشمیر میں استصواب رائے ہی اس مسئلے کا واحد اور قانونی حل ہے۔
کشمیر کی یہ تاریخ اپنی جگہ لیکن ہمارے لیے سوچنے کی بات یہ بھی ہے کہ ان برسوں میں ہم نے کہاں سے کہاں تک کا سفر طے کیا ہے؟ 5جنوری 1949 کو تمام دنیا پاکستان کی موقف کی حمایت کر رہی تھی اور اقوام متحدہ کشمیریوں اور پاکستان کے ساتھ کھڑی تھی۔ بھارت کشمیر میں رائے شماری کے وعدے کر رہا تھا اور پاکستان کے خوف سے خود یہ مسئلہ اقوام متحدہ میں لے کر گیا تھا۔ اقوام متحدہ میں متعدد بار کشمیر اور پاکستان کے حق میں قراردادیں منظور ہو رہی تھیں۔ اس وقت پاکستان نہ تو ایٹمی طاقت تھا اور نہ پاکستان کی فضائوں میں JF-17 طیاروں کی گھن گرج تھی۔ لیکن تمام پاکستانی متحد اور ایک قوم تھے۔ ہماری قیادت اور حکومت میں حق کے لیے کسی بھی حد تک جانے کا جذبہ تھا ۔ آج بھارت کشمیر کی رہی سہی حیثیت ختم کر نے کا اعلان کر چکا ہے اور 153 سے زیادہ دن ہو گئے ہیں کشمیر میں مکمل ’’ لاک ڈائون‘‘ کو۔ مکمل کرفیو۔ فون انٹر نیٹ سب بند۔ کوئی نہیں جانتا کہ کشمیریوں کا کیا حا ل ہے؟ کتنی قتل و غارت ہوئی ہے؟ کتنے کشمیری روز شہید کیے جا رہے ہیں؟ اور ہم؟؟ ہم ’’ گفتارکے غازی‘‘ اقوام متحدہ میں ایک تقریر کو کشمیریوں کے زخموں کا مرہم سمجھے بیٹھے ہیں۔ آج اقوام متحدہ تو کیا ہمارے ’’ برادر اسلامی ممالک‘‘ بھی ہمارے یا کشمیریوں کے حق میں کھل کر آواز نہیں اٹھا رہے۔ ٹوئیٹر پر کشمیر آزاد ہو گا؟ ہمارے وزیر اعظم صاحب نے گزشتہ روز ٹوئیٹر پر یہ سوال اٹھایا تھا کہ دنیا کشمیر میں بھارتی مظالم پر کب تک خاموش رہے گی؟ اسکا جواب میں دے دیتا ہوں۔ اس وقت تک جب تک ہم کشمیریوں کے حق کے لیے ٹوئیٹر پر جدوجہد جاری رکھیں گے دنیا بھی خاموش رہے گی۔ میں جنگ کا نہیں کہتا لیکن جنگ کے خوف کو امن کی خواہش کا نام دے کر کوئی بھی عملی اقدامات نہ کرنے کو ہم کیا کہیں؟ 71 برس میں ہم کہاں سے کہاں پہنچ گئے؟
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024