میں سب سے پہلے اپنے میڈیا اور اہل سیاست سے یہ کہوں گا کہ وہ فوج کی تضحیک کرنا چھوڑ دیں۔ یہ فوج ملک کی فوج ہے اور ہر ملک کو فوج کی ضرورت ہوتی ہے یا پھر افغانستان کی طرح کہیں باہر سے عالمی افواج مسلط ہو جاتی ہیں، کچھ لوگ محض حق گوئی کی خاطر فوج پر آوازہ کستے ہیں۔ کسی کو بہادری دکھانے کا شوق ہوتا ہے۔ میں ان سے کہتا ہوں کہ وہ علاقے کے پٹواری سے بگاڑ پیدا کر کے دکھائیں۔ اے جی آفس کے کسی کلرک بادشاہ کی شان میں گستاخی تو ذرا کریں۔
اس وقت فوج کی تضحیک کے لئے کہا جارہا ہے کہ آرمی چیف کی توسیع کے لئے فوج کی طرف سے دبائو ہے۔ یہ دبائو ہو بھی تو کیا فرق پڑتا ہے ۔ کیاا سی ملک میں ہماری عدلیہ نے نصف شب کے بعد اپنی ترقی کا فارمولہ وضع کر کے پارلیمنٹ کو حکم نہیں دیا تھا کہ جائو اس کے مطابق آئین میں ترمیم کرو اور ترمیم ہو گئی جس کی وجہ سے یہ اصول طے ہو گیا کہ سینیئر موسٹ جج ہی چیف جسٹس بنے گا، میںنے تو کئی دن پہلے یہ تجویز دی تھی کہ فوج بھی خود ایک فیصلہ کر لے اور پارلیمنٹ اس کے مطابق قانون سازی کر لے۔ یہ جھگڑا ہمیشہ کے لئے طے ہو جائے گا۔ میں تو آرمی ایکٹ میں مجوزہ ترمیم کو دو لحاظ سے ناقص سمجھتا ہوں۔ایک تو یہ کہ وزیر اعظم کو اختیار دے دیا گیا ہے کہ وہ اپنی صوابدید کے مطابق آرمی چیف کا تقرر کریں گے یا اسے توسیع دیں گے۔ کیا یہ بہتر نہیں ہو گا کہ آرمی ایئر فورس اور نیوی کے ریٹائر ہونے والے سربرا ہوںمیں سے باری باری کسی کو چیئرمین جائنٹ چیفس لگایا جائے اور تینوں افواج میں سینئر موسٹ کو چیف مقرر کرنے کا اصول وضع کر دیا جائے۔ مجوزہ ترمیم میں لکھ دیا گیا ہے کہ وزیر اعظم کے فیصلے کو کسی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جاسکے گا۔ یہ شرط انصاف کے بنیادی اصولوں کے منافی ہے۔اور آئین میں دیئے گئے حق کے تحت کوئی بھی اس تقرری کو چیلنج کر سکے گاا ور عدلیہ کے سو موٹو نوٹس پر کیسے پابندی لگا سکیں گے۔ اس پس منظر میں ضروری ہے کہ تینوں افواج کے سینیئر افسران مل بیٹھیں اور ایک منصفانہ خود کار فارمولا وضع کر کے پارلیمنٹ سے کہیں کہ وہ اس کی رو سے قانون سازی کر لے۔،یوں یہ مسئلہ ہمیشہ کے لئے طے ہو جائے گا ورنہ وزیر اعظم کو چیف کی تقرری کا اختیار دینے سے دو سوال ا ٹھیں گے کہ ایک تو وزیر اعظم دفاعی امور کے ماہر کیسے ہو گئے، دوسرے اس میں فیورٹ ازم آ جائے گی اور کئی سینیئر جرنیل یا دیگر مسلح افواج کے افسران سپرسیڈ ہونے کی وجہ سے گھر جانے پر مجبور ہوں گے۔ ایساکیوں، یہ انصاف کے بنیادی تقاضو ں کا منہ چڑانے کے مترادف ہے ۔
میرا خیال ہی نہیں، مجھے یقین بھی ہے کہ مسلح افواج جس فارمولے پر متفق ہوں گی۔ وہ تو کارا ٓمد ہو گا ورنہ جھگڑا کھڑا ہوتا رہے گا۔
میں ایک بار پھر کہتا ہوں کہ ان الفاظ کا استعمال ترک کر دیا جائے کہ اسٹیبلشمنٹ یہ کرتی ہے یا وہ کرتی ہے۔نہ کوئی یہ کہے کہ جی ایچ کیو کے گیٹ چار کا استعمال کیا جاتا ہے۔ فوج کو بھی خدا را یہ تاثر ختم کرنا چاہئے کہ وہ اپنی طاقت سے کچھ منوانا چاہتی ہے یااپنے چہیتوں کو اقتدار میںلاتی ہے اسی طرح یہ بھی ذہن نشین کر لینا چاہئے کہ افواج کے سر براہ کسی حکومت یا سیاسی پارٹی کے کارندے نہیں ہوسکتے۔ نہ حکومت کو یہ کہنا چاہئے کہ فوج اس کے ساتھ ہے اور نہ فوج کوکہنا چاہئے کہ وہ حکومت کے ساتھ ہے ۔ اس ضمن میں ہر ادارے کو آئین کے دائرہ کار میں رہنا چاہئے ۔ حکومت اپنے کاموں کی طرف دھیان دے ا ور افواج ملکی سلامتی کو یقینی بنانے کے لئے تگ دو کرے۔
آج کی دنیا میں صرف ایک طاقت ہے جس کے سامنے کوئی کھڑا نہیں ہو سکتا اور وہ جسے چاہے نشانہ بناتی ہے۔ اب تو بھارتی حکومت بھی اس قدر شیر ہو گئی ہے کہ وہ اپنے مسلمان شہریوںکا قتل عام کرتے ہوئے جھجکتی تک نہیں کجا یہ کہ ا سے خوف ہو کہ عالم اسلام اس کے ظالمانہ اقدامات پر کس ردعمل کااظہار کر ے گا۔
میںنے اپنے پہلے کالم میں یہ کہا تھا کہ فوجی سربراہ کی تقرری فوری ترجیح کاا شو ہے لیکن میرا ہر گز یہ مطلب نہیں تھا کہ اس مسئلے کو حکومت یا قوم بھوت بنا کر سر پہ سوار کر لے۔ اعلی عدلیہ نے قوم کو چھ ماہ کی مدت دے رکھی ہے اس لئے پھرتیاں دکھانے سے تما م اداروں کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ایک بار حکومت نے جب فیصلہ کر لیا کہ موجودہ آرمی چیف کو توسیع دی جائے گی تو پھر اس کے برعکس کوئی بھی پاکستانی شہری سوچ بھی نہیںسکتا۔جنرل باجوہ کو توسیع دی گئی ہے تو عدلیہ نے جو بھی فیصلہ کر دیا۔ اب اس کا احترام کیا جانا چاہئے اور قانو ن سازی کا عمل طے شدہ معمول کے مطابق مکمل کیا جائے۔ نواز شریف اور بلاول نے کوئی غیر آئینی تجویز نہیں دی۔ لیکن حکومت کو ان کی تجاویز منظور نہیں تو وہ اپنی پارلیمانی طاقت سے آرمی ایکٹ میں ترامیم کرنے کا حق رکھتی ہے لیکن یہ کام اگر قومی مفاہمت سے ہو جائے تو کیا کہنے، دنیا بھی عش عش کر اٹھے گی۔بھارت میں نئے آرمی چیف کا تقرر ہوا ۔ وہاںکوئی شور نہیں ہوا۔ بھارت نے چیف آف ڈیفنس فورسز کا نیا عہدہ گھڑ لیا اورا س پر ریٹائر ہونے والے آرمی چیف کو لگا دیا۔ پھر بھی کو ئی شور نہیں ہوا۔ پتہ نہیں ہمارے ہاں مسلح افواج کو ٹارگٹ کرنے کاشوق لوگوں کو کیوں چرایا ہے ۔ ظاہر ہے وہ کسی بیرونی اشارے پر اپنی افواج کی تضحیک کر رہے ہیں جس کی بھر پور مذمت کی جانی چاہئے اور میڈیا کو آزادی اظہار کے نام پر اس شوق سے باز رہنا چاہئے ورنہ اس میڈیا سے بھی ایسے سوال کئے جا سکتے ہیں جن سے میڈیا کو پریشانی اور خفت ہو گی ۔اور میری یہی استدعا ملکی سیاست کاروں سے بھی ہے۔ اس ملک میں ہر کسی کی عزت ہے، آئین ہر کسی کی عزت کو یقینی بناتا ہے۔ اسلام بھی شرف انسانیت کا درس دیتا ہے۔ ہمیں کسی کی تو مان لینی چاہئے۔
میںنے معیشت کے شعبے میں ایک بات یہ کی تھی کہ یہاں جس کے پاس بڑا جتھہ ہے وہ اپنی منوا لیتا ہے۔تاجروں نے ہڑتال کی اور حکومت گھٹنے ٹیک گئی ۔ میںنے ٹریفک کے بھاری اور ظالمانہ جرمانوں کا مسئلہ اٹھایا تھا۔ اس پر تو حکومت نے چند گھٹوں کے احتجاج کے سامنے گھٹنے ٹیک دیئے۔ براہ کرم حکومت ایسے کام نہ کرے جو اسے واپس لینے پڑیں ا س سے حکومت کی ہوا اکھڑ جاتی ہے۔ حکومت کوہمیشہ مضبوط نظر آنا چاہئے مگر جبر اور ظلم کے لئے نہیں ۔
حکومت ہر صورت میںمعیشت کو دستاویزی بنانا چاہتی ہے مگر سوال یہ کہ پہلے معیشت ہو گی تو اسے د دستاویزی بھی کیا جا سکے گا۔ لوگ روزی روٹی کوترس رہے ہیں اور آئی ایم ایف کی شرائط کے تحت زبر دستی ایسی اصلاحات لانے کی کوشش ہو رہی ہے جو صرف ترقی یافتہ ملکوں میں ہی کامیاب ہو سکتی ہیں۔ ہم سنگا پور کی ترقی کی مثال دیتے ہیں تو کیا یہ بھول گئے کہ لی کوان یو نے معیشت کواسقدر آزاد کر دیا تھا کہ کوئی شخص جتنا مرضی سرمایہ سنگا پور میں لا سکتا ہے اورجتنا مرضی منافع کما کر واپس لے جا سکتا ہے۔ ہم کرپشن کے خاتمے کو دین ایمان کا حصہ سمجھتے ہیں۔ مگر ملائیشیا میں مہاتر محمد کو دوبارہ اسی کرپشن کے مسئلے کو حل کرنے کے لئے بانوے سال کی عمرمیں حکومت سنبھالنا پڑی۔ جاپان میں ہر تیسرا وزیر اعظم کرپشن کے الزام میںمستعفی ہوتا ہے ۔ چین میںکرپشن پر سزائے موت ہے مگر خود چینی حکومت بیرونی کمپنیوں کوکمیشن دینے کی پیش کش کرتی ہے۔ کان دائیں طرف سے پکڑیں یا بائیں طرف سے ۔ کیا فرق پڑتا ہے۔ بھارت میںمودی بھی کرپشن کے خاتمے کا نعرہ لے کر حکومت میں آیا مگر پانچ سال کی حکومت کے بعد اسی کو یہ نعرے سننا پڑے کہ چوکیدار چور ہے۔ میں کرپش کے حق میں نہیں مگر حقیقت پسندی کے ساتھ چل کر ہی اس کا خاتمہ ممکن ہے( جاری ہے )
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38