بھارت نے پاکستان کو دولخت کر کے مسلمانوں کو نقصان تو پہنچایا لیکن بنگلہ دیش کو اپنی کالونی بنانے کا خواب پورا نہ کر سکا۔ ان خیالات کا اظہار دانشور اور صحافی ر¶ف طاہر نے PRC کے سپموزیم میں اپنے صدارتی خطبہ میں کیا۔ PRC نے یہ سمپوزیم محصور پاکستانیوں کی واپسی ہمارا قومی فریضہ کے نام سے یوم شہدائے مشرقی پاکستان کے موقع پر منعقد کی ر¶ف طاہر نے PRC کو تقریب منعقد کرنے پر مبارکباد دیتے ہوئے کہاکہ بھارت نے پاکستان کو دولخت کر کے مسلمانوں کو نقصان تو پہنچایا لیکن بنگلہ دیش کو اپنی کالونی بنانے کا خواب پورا نہ کر سکا۔ بھارت کے تمام پڑوسی اس کے روئیے سے خوش نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ محصورین کی پاکستان واپسی ان کا بنیادی حق ہے جسے کوئی نہیں چھین سکتا۔ محصورین نے 38 سال پاکستان کے لئے جس عالم میں کیمپوں میں گزارے ہیں وہ بذات خود ان کی حب الوطنی کی انتہا ہے۔ انہوں نے کہاکہ فوج کو ان کی واپسی کا انتظام کرنا چاہئے تھا کیونکہ 1971ءکی جنگ انہی پاکستانیوں کے بل پر لڑی تھی۔ ر¶ف طاہر نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار چودھری سے اپیل کی کہ وہ مسئلہ محصورین کا ازخود نوٹس لیں اور حکومت سے اس حق کی ادائیگی کا مطالبہ کریں۔ مہمان خصوصی مسلم ویلفیئرر اینڈ ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن (MWDO) کے چیئرمین سید نثار احمد نے مختصراً کیمپوں میں امدادی کارروائیوں کا تذکرہ کیا اور لوگوں سے درخواست کی کہ محصورین کی کسمپرسی کم کرنے کے لئے زیادہ سے زیادہ امداد کریں۔ عالمی اردو مرکز کے نائب صدر ڈاکٹر عرفان ہاشمی نے بھی حکومت سے مطالبہ کیا کہ محصورین پاکستان کو جلد پاکستان میں آباد کیا جائے۔ پاکستان جرنلسٹس فورم کے صدر شاہد نعیم نے کہا کہ ہم نے سقوط ڈھاکہ سے کوئی سبق نہیں سیکھا اور نہ ہی محب وطن پاکستانیوں کی قدر کہ جو 38 سال سے بنگلہ دیش کے کیمپوں میں غیر انسانی زندگی گزار رہے ہیں اللہ کرے حکمران ان محصورین کی جلد واپسی کا انتظام کریں۔ معروف سماجی رہنما انجینئر افتخار چودھری نے سمپوزیم میں مقالہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ 1971ءکا المیہ ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ مسائل کا حل فوجی طاقت سے نہیں ہوتا اور یہ کہ عوامی مینڈیٹ کو قبول کرنا چاہئے۔ مسئلہ محصورین پر عمران خان نوازشریف قاضی حسین احمد اور تمام محب وطن رہنما¶ں کا ایک ہی م¶قف ہے کہ محصورین کی واپسی ان کا نام بنیادی حق اور ہمارا فریضہ ہے۔ انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ ملک میں لاکھوں بنگلہ دیشی بھارتی اور افغانی موجود ہیں لیکن اڑھائی لاکھ محب وطن پاکستانیوں کو کیمپوں میں چھوڑ دیا گیا۔
معروف سعودی صحافی اور ایڈیٹر سعودی گزٹ سمیرا عزیز نے اپنے پیغام میں PRC کو محصورین کے حقوق کے لئے جدوجہد کرنے پر مبارکباد دی اور اپنی مدد آپ کی بنیاد پر ان کی منتقلی و آبادکاری کے لئے حکومت سے مطالبہ کیا۔ انہوں نے اقوام متحدہ اور دوسرے عالمی اور پاکستانی فلاحی اور حقوق انسانی کے اداروں سے ان کی امداد کی اپیل کی۔ بزرگ انجینئر محمد عبدالرفیع نے کہاکہ قائداعظم کے پاکستان کی بقاءایمان اتحاد اور تنظیم کے بنیادی اصولوں اور انصاف جمہوریت اور بنیادی انسانی حقوق کی ادائیگی پر ہے۔ معروف شعراء نسیم سحر، اطہر نفیس عباسی، سید محسن علوی، عبدالقیوم واثق، زمرد خان سیفی اور گل انور نے یوم شہداء کے حوالے سے منظوم کلام پیش کیا۔ PRC کے کنوینر سید احسان الحق نے تمام مقررین اور شعراءکا سمپوزیم میں بھرپور کردار پر شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے سمیرہ عزیز کا بروقت محصورین پر مضمون لکھنے پر شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے کہاکہ 16 دسمبر 1971ءمیں جہاں ملک ٹوٹا، لاکھوں محب وطن مکتی باہنی کے ہاتھوں شہید ہوئے اور لاکھوں اب تک بنگلہ دیش کے کیمپوں میں ہماری توجہ کے مستحق ہیں۔ اس موقع پر مندرجہ ذیل قراردادیں بھی منظور کی گئیں۔ کشمیر میں اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حق خود اختیاری کے لئے UNO اور عالمی قوتوں کے ذریعے بھارت پر دبا¶ ڈالا جائے۔ ہم سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار چودھری سے اپیل کرتے ہیں کہ مسئلہ محصورین کا ازخود نوٹس لیں اور حکومت کو ان کے حقوق کی ادائیگی کا پروانہ جاری کریں۔ لاہور ہائیکورٹ میں مرحوم ایم ڈی طاہر کی پٹیشن کا حکومت نے کوئی نوٹس نہیں لیا تھا۔ محصورین کی منتقلی و آبادکاری کے لئے رابطہ ٹرسٹ بحال کیا جائے جسے مشرف دور میں اکتوبر 2001ءمیں امریکی رائے پر بند کیا گیا تھا۔ ڈھاکہ میں متعین پاکستانی ہائی کمیشن محصورین کی کیمپوں میں جان ومال کی حفاظت اور خوراک، ادویات اور دوسری ضروریات زندگی کی فراہمی کو یقینی بنائے۔25 نومبر کو جدہ کے ناگہانی سیلاب میں بہہ جانے والے شہید کا درجہ رکھتے ہیں۔ ہم ان کے اہل خانہ کے لئے صبرو ہمت کی دعا کرتے ہیں۔ ہم پاکستانی سپوت فرمان علی کی ہمت جذبہ ایثار و جوانمردی کے معترف ہیں جنہوں نے 14 انسانوں کو ڈوبنے سے بچایا اور پھر خود اس جہاد میں پیش ہوگئے۔ ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ انہیں ستارہ جرات دیا جائے اور ان کے اہل خانہ کو باعزت زندگی گزارنے کے لئے وظیفہ دیا جائے۔ سمپوزیم کی نظامت سید مسرت خلیل نے کی۔ تلاوت قرآن قاری عبدالمجید اور نعت رسول شیر افضل نے پڑھی۔ آخر میں ملک کی یکجہتی امن وامان اور اسلامی نظام کے قیام مسائل کشمیرو محصورین کے حل اور شہدائے مشرقی پاکستان کےلئے دعائیں کی گئیں۔معروف سعودی صحافی اور ایڈیٹر سعودی گزٹ سمیرا عزیزنے یوم سقوط ڈھاکہ پر اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ پھر 16 دسمبر آ گیا اور 3 لاکھ محب وطن پاکستانیوں کی کسمپرسی کی داستان ختم نہ ہوئی جو بنگلہ دیش کے 70کیمپوں میں بے یارومددگار گزار رہے ہیں۔ قیام پاکستان اور پھر بنگلہ دیش کے قیام کی لوگ کچھ نہ کچھ توجیہات دیتے ہیں لیکن قیام پاکستان پر منتقل ہونے والے بہاریوں کے پچھلے 38 سال سے محصور پاکستانی بننے کو توجیح دینا بڑا مشکل ہے۔ آج پاکستان اور بنگلہ دیش کے عوام آزاد فضا¶ں میں مگن ہیں لیکن ان محب وطن پاکستانیوں کا کوئی پرسان حال نہیں جنہوں نے پاکستان کی یکجہتی کے لئے بنگالی علیحدگی پسندوں کے خلاف جنگ میں افواج پاکستان کا ساتھ دیا۔ سقوط ڈھاکہ کے بعد 535,000 پاکستانیوں نے انٹرنیشنل آف دی ریڈ کراس (ICRC) کے ذریعے پاکستان جانے کے لئے رجسٹر کروایا لیکن 1973ءمیں سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں 173000 کو منتقل کرنے کے بعد یہ سلسلہ رک گیا۔ پھر سیاستدان ان محصورین کو دلاسے دیتے رہے حکمراں حیلے بہانے اور وعدے پر اس مسئلہ کو ٹالتے رہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ یہ مسئلہ پیچیدہ ہوتا رہا اور ان کیمپوں میں زندگی مشکل سے مشکل تر ہوتی گئی۔
امید کی کرن نظر آئی تھی جب جولائی 1988ءمیں سابق صدر ضیاءالحق اور رابطہ عالم اسلامی کے سابق سیکرٹری جنرل ڈاکٹر عبداللہ عمر ضعیف کے درمیان معاہدہ کے تحت رابطہ ٹرسٹ تشکیل دیا جس کے تحت محصورین کی منتقلی و پنجاب میں آبادکاری کا منصوبہ طے پایا اور پنجاب میں مکانات کی تعمیر کے لئے مفت زمین مختص کی گئی تھی۔ البتہ جنرل مشرف نے اکتوبر2001 ءمیں امریکی اعتراض پر اس کو منجمند کر دیا۔ موجودہ حکومت کو چاہئے کہ رابطہ ٹرسٹ بحال کر کے محصورین کی منتقلی و آبادکاری کی کارروائی دوبارہ شروع کی جائے جو سابق وزیراعظم نوازشریف کے دور میں شروع ہوئی تھی۔ فنڈ کی کمی کا مسئلہ PRC کی تجاویز محصورین کی منتقلی و آبادکاری اپنی مدد آپ کی بنیاد پر عمل کرکے حل کیا جا سکتا ہے۔ جس میں ان کے سعودی عرب اور خلیج میں ملازمت کے ذریعے سے ان کی منتقلی و آبادکاری کو بنیاد بنایا گیا ہے۔
پچھلے سال ہائیکورٹ نے 1971ءکے بعد پیدا ہونے والے محصورین کو شہرےت دینے کا عندیہ دیا تھا جس سے تقریباً ڈیڑھ لاکھ افراد مستفید ہو سکتے ہیں۔اصل مسئلہ بقایا ڈیڑھ لاکھ، بزرگ محصورین کا ہوگا جب ان کی اولاد بھی چھوڑ جائے گی اور پاکستان و بنگلہ دیش بھی ان کے لئے خاموش ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ رابطہ ٹرسٹ کو یہ طے کرنا چاہئے کہ کتنے محصورین باعزت بنگلہ دیش میں بس سکتے ہیں انہیں بنگلہ دیش مفت زمین اور حقوق دے اور رابطہ ٹرسٹ ان کے لئے مکان تعمیر کرے اور بقایا محصورین کو پاکستان منتقل کیا جائے اور رابطہ ٹرسٹ منصوبے کے تحت انہیں پنجاب میں مکانات تعمیر کر کے آباد کرے۔ جس کی یہ لوگ آسان قسطوں میں ادائیگی کریں۔ اقوام متحدہ نے بھی ان کو مہاجرین کا درجہ نہ دیا کہ یہ لوگ اسی ملک میں تھے جب کہ سری لنکا میں تامل علیحدگی پسندوں کو جنگ میں شکست کے بعد مہاجرین کا درجہ دیا گیا تو کیوں نہیں محصورین کو مہاجرین کا درجہ دیا جاتا ہے تاکہ ان کی کیمپوں کی زندگی میں کچھ مشکلات کم ہوں۔ عالمی فلاحی اور انسانی حقوق کے اداروں کو بھی ان کی خبر گیری کرنی چاہئے۔
معروف سعودی صحافی اور ایڈیٹر سعودی گزٹ سمیرا عزیز نے اپنے پیغام میں PRC کو محصورین کے حقوق کے لئے جدوجہد کرنے پر مبارکباد دی اور اپنی مدد آپ کی بنیاد پر ان کی منتقلی و آبادکاری کے لئے حکومت سے مطالبہ کیا۔ انہوں نے اقوام متحدہ اور دوسرے عالمی اور پاکستانی فلاحی اور حقوق انسانی کے اداروں سے ان کی امداد کی اپیل کی۔ بزرگ انجینئر محمد عبدالرفیع نے کہاکہ قائداعظم کے پاکستان کی بقاءایمان اتحاد اور تنظیم کے بنیادی اصولوں اور انصاف جمہوریت اور بنیادی انسانی حقوق کی ادائیگی پر ہے۔ معروف شعراء نسیم سحر، اطہر نفیس عباسی، سید محسن علوی، عبدالقیوم واثق، زمرد خان سیفی اور گل انور نے یوم شہداء کے حوالے سے منظوم کلام پیش کیا۔ PRC کے کنوینر سید احسان الحق نے تمام مقررین اور شعراءکا سمپوزیم میں بھرپور کردار پر شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے سمیرہ عزیز کا بروقت محصورین پر مضمون لکھنے پر شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے کہاکہ 16 دسمبر 1971ءمیں جہاں ملک ٹوٹا، لاکھوں محب وطن مکتی باہنی کے ہاتھوں شہید ہوئے اور لاکھوں اب تک بنگلہ دیش کے کیمپوں میں ہماری توجہ کے مستحق ہیں۔ اس موقع پر مندرجہ ذیل قراردادیں بھی منظور کی گئیں۔ کشمیر میں اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حق خود اختیاری کے لئے UNO اور عالمی قوتوں کے ذریعے بھارت پر دبا¶ ڈالا جائے۔ ہم سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار چودھری سے اپیل کرتے ہیں کہ مسئلہ محصورین کا ازخود نوٹس لیں اور حکومت کو ان کے حقوق کی ادائیگی کا پروانہ جاری کریں۔ لاہور ہائیکورٹ میں مرحوم ایم ڈی طاہر کی پٹیشن کا حکومت نے کوئی نوٹس نہیں لیا تھا۔ محصورین کی منتقلی و آبادکاری کے لئے رابطہ ٹرسٹ بحال کیا جائے جسے مشرف دور میں اکتوبر 2001ءمیں امریکی رائے پر بند کیا گیا تھا۔ ڈھاکہ میں متعین پاکستانی ہائی کمیشن محصورین کی کیمپوں میں جان ومال کی حفاظت اور خوراک، ادویات اور دوسری ضروریات زندگی کی فراہمی کو یقینی بنائے۔25 نومبر کو جدہ کے ناگہانی سیلاب میں بہہ جانے والے شہید کا درجہ رکھتے ہیں۔ ہم ان کے اہل خانہ کے لئے صبرو ہمت کی دعا کرتے ہیں۔ ہم پاکستانی سپوت فرمان علی کی ہمت جذبہ ایثار و جوانمردی کے معترف ہیں جنہوں نے 14 انسانوں کو ڈوبنے سے بچایا اور پھر خود اس جہاد میں پیش ہوگئے۔ ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ انہیں ستارہ جرات دیا جائے اور ان کے اہل خانہ کو باعزت زندگی گزارنے کے لئے وظیفہ دیا جائے۔ سمپوزیم کی نظامت سید مسرت خلیل نے کی۔ تلاوت قرآن قاری عبدالمجید اور نعت رسول شیر افضل نے پڑھی۔ آخر میں ملک کی یکجہتی امن وامان اور اسلامی نظام کے قیام مسائل کشمیرو محصورین کے حل اور شہدائے مشرقی پاکستان کےلئے دعائیں کی گئیں۔معروف سعودی صحافی اور ایڈیٹر سعودی گزٹ سمیرا عزیزنے یوم سقوط ڈھاکہ پر اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ پھر 16 دسمبر آ گیا اور 3 لاکھ محب وطن پاکستانیوں کی کسمپرسی کی داستان ختم نہ ہوئی جو بنگلہ دیش کے 70کیمپوں میں بے یارومددگار گزار رہے ہیں۔ قیام پاکستان اور پھر بنگلہ دیش کے قیام کی لوگ کچھ نہ کچھ توجیہات دیتے ہیں لیکن قیام پاکستان پر منتقل ہونے والے بہاریوں کے پچھلے 38 سال سے محصور پاکستانی بننے کو توجیح دینا بڑا مشکل ہے۔ آج پاکستان اور بنگلہ دیش کے عوام آزاد فضا¶ں میں مگن ہیں لیکن ان محب وطن پاکستانیوں کا کوئی پرسان حال نہیں جنہوں نے پاکستان کی یکجہتی کے لئے بنگالی علیحدگی پسندوں کے خلاف جنگ میں افواج پاکستان کا ساتھ دیا۔ سقوط ڈھاکہ کے بعد 535,000 پاکستانیوں نے انٹرنیشنل آف دی ریڈ کراس (ICRC) کے ذریعے پاکستان جانے کے لئے رجسٹر کروایا لیکن 1973ءمیں سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں 173000 کو منتقل کرنے کے بعد یہ سلسلہ رک گیا۔ پھر سیاستدان ان محصورین کو دلاسے دیتے رہے حکمراں حیلے بہانے اور وعدے پر اس مسئلہ کو ٹالتے رہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ یہ مسئلہ پیچیدہ ہوتا رہا اور ان کیمپوں میں زندگی مشکل سے مشکل تر ہوتی گئی۔
امید کی کرن نظر آئی تھی جب جولائی 1988ءمیں سابق صدر ضیاءالحق اور رابطہ عالم اسلامی کے سابق سیکرٹری جنرل ڈاکٹر عبداللہ عمر ضعیف کے درمیان معاہدہ کے تحت رابطہ ٹرسٹ تشکیل دیا جس کے تحت محصورین کی منتقلی و پنجاب میں آبادکاری کا منصوبہ طے پایا اور پنجاب میں مکانات کی تعمیر کے لئے مفت زمین مختص کی گئی تھی۔ البتہ جنرل مشرف نے اکتوبر2001 ءمیں امریکی اعتراض پر اس کو منجمند کر دیا۔ موجودہ حکومت کو چاہئے کہ رابطہ ٹرسٹ بحال کر کے محصورین کی منتقلی و آبادکاری کی کارروائی دوبارہ شروع کی جائے جو سابق وزیراعظم نوازشریف کے دور میں شروع ہوئی تھی۔ فنڈ کی کمی کا مسئلہ PRC کی تجاویز محصورین کی منتقلی و آبادکاری اپنی مدد آپ کی بنیاد پر عمل کرکے حل کیا جا سکتا ہے۔ جس میں ان کے سعودی عرب اور خلیج میں ملازمت کے ذریعے سے ان کی منتقلی و آبادکاری کو بنیاد بنایا گیا ہے۔
پچھلے سال ہائیکورٹ نے 1971ءکے بعد پیدا ہونے والے محصورین کو شہرےت دینے کا عندیہ دیا تھا جس سے تقریباً ڈیڑھ لاکھ افراد مستفید ہو سکتے ہیں۔اصل مسئلہ بقایا ڈیڑھ لاکھ، بزرگ محصورین کا ہوگا جب ان کی اولاد بھی چھوڑ جائے گی اور پاکستان و بنگلہ دیش بھی ان کے لئے خاموش ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ رابطہ ٹرسٹ کو یہ طے کرنا چاہئے کہ کتنے محصورین باعزت بنگلہ دیش میں بس سکتے ہیں انہیں بنگلہ دیش مفت زمین اور حقوق دے اور رابطہ ٹرسٹ ان کے لئے مکان تعمیر کرے اور بقایا محصورین کو پاکستان منتقل کیا جائے اور رابطہ ٹرسٹ منصوبے کے تحت انہیں پنجاب میں مکانات تعمیر کر کے آباد کرے۔ جس کی یہ لوگ آسان قسطوں میں ادائیگی کریں۔ اقوام متحدہ نے بھی ان کو مہاجرین کا درجہ نہ دیا کہ یہ لوگ اسی ملک میں تھے جب کہ سری لنکا میں تامل علیحدگی پسندوں کو جنگ میں شکست کے بعد مہاجرین کا درجہ دیا گیا تو کیوں نہیں محصورین کو مہاجرین کا درجہ دیا جاتا ہے تاکہ ان کی کیمپوں کی زندگی میں کچھ مشکلات کم ہوں۔ عالمی فلاحی اور انسانی حقوق کے اداروں کو بھی ان کی خبر گیری کرنی چاہئے۔