پروفیسر محمد یوسف عرفان .................
بھارتی فوجی سربراہ جنرل دیپک کپور نے بند کمرے میں ہونے والے سیمنار منعقدہ نئی دہلی 31 دسمبر 2009ء میں اعلان کیا کہ اب بھارتی فوج فوری جارحانہ جنگ کے لئے تیار ہے۔ بھارت بیک وقت پاکستان اور چین سے لڑنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس ضمن میں بھارتی افواج کو شملہ میں جنرل اے ایس لامبا کی سربراہی میں تربیت دی جا چکی ہے۔ بھارت کے نزدیک پاکستان اور چین دفاعی اتحادی ہیں جن کے خلاف بھارت کو بیک وقت جنگ لڑنا پڑے گی جبکہ اس جنگ میں امریکہ اور روس بھارت کے معاون اور مددگار ہوں گے اور بھارت 96 گھنٹوں یعنی چار دنوں میں دشمن کی سرزمین پر قبضہ کر سکتا ہے۔
بھارت عرصے سے رام راج کے استعماری مرض میں مبتلا ہے اسے نظریاتی پاکستان اور مسلمانوں کے وجود سے چِڑ ہے اور اپنے اسی ہندو استعماری خواب و خیال کے باعث ہمسایہ ریاستوں کے لئے عذاب بنا ہوا ہے اور اسی استعماری ہذیان میں کبھی پاکستان اور کبھی چین کو للکارتا اور پھنکارتا رہتا ہے۔ بقول بھارتی ICS دانشور ایس کے بسواس ”ہندو امن کا دشمن اور دنیا کا بدترین دہشت گرد ہے“ بحوالہ ڈاکٹر امبیدکر ۔ فادر آف دی کانسٹی ٹیوشن آف انڈیا صفحہ 114 ۔
بھارت کو پاکستان کے ساتھ جنگی الٹی میٹم دینے کی عادت پڑ گئی ہے۔ پاکستانی جواب کے بعد الٹی میٹم واپس لے لیا جاتا ہے۔ ممبئی حملوں اکتوبر 2008ءکے بعد بھارت نے 48 گھنٹے میں جنگ کرنے کا الٹی میٹم دیا۔ امریکی صدر بش نے بھارتی دفاعی حلیف ہونے کے باعث پاک بھارت جنگ میں بھارت کی مدد کا اعلان کیا۔ پاکستان نے جنگ کا چیلنج قبول کیا اور افواج پاک بھارت سرحد پر لگا دیں نیز پاک افغانستان سرحد پر متعین پاک فوج کو بھی بھارتی سرحد پر متعین کرنے کا عندیہ دیا۔ قبائلی اور افغان مجاہدین نے پاک بھارت جنگ میں پاکستانی فوج کے شانہ بشانہ لڑنے کا اعلان کیا اور کہا کہ ہم پاک افغان سرحد پر پاکستانی فوج کا حصہ بن کر امریکہ بھارتی اتحادی افواج کو اکیلے سنبھال لیں گے۔ نیز کئی مجاہد جتھے پاک بھارت جنگ میں پاکستانی فوج کی مدد کے لئے روانہ کرنے کا بھی اعلان کر دیا۔ امریکہ کو اپنی پڑ گئی کیونکہ پاکستان کے تعاون کے بغیر ایک بھی امریکی خطے سے صحیح سلامت واپس نہیں جا سکتا۔ بھارتی بنیا کی دھوتی ڈھیلی پڑ گئی اور دونوں نے امن اور مذاکرات کا راگ الاپنا شروع کر دیا۔ ماضی میں بھی بھارت پاکستان کو کئی بار جنگ کی دھمکی دے کر بھاگ گیا ہے۔ افغان جہاد کے دوران اندرا گاندھی نے روسی ایما پر پاکستان پر حملہ کی تیاری کی اور پاک سرحد پر بھارتی فوجی لائن محفوظ کرنے کے لئے سکھوں کے گولڈن ٹیمپل پر بلو سٹار آپریشن اکتوبر 1984ءمیں الجھ کر ماری گئی۔ راجیو گاندھی نے پاکستان کو کئی بار ختم کرنے اور چَھٹی کا دودھ اور نانی یاد کرانے جیسے غیر پارلیمانی الفاظ استعمال کئے۔ پاکستان پر حملے کے لئے براس ٹیک مشقیں بھی شروع کر دیں مگر ضیاالحق کی کرکٹ ڈپلومیسی سے مات کھا کر بغیر لڑے سرحدوں سے افواج واپس بلا لی اور جنگی دھمکی اور تیاری میں ہونے والے نقصان کی تلافی کے لئے بھارتی عوام پر اربوں کے نئے ٹیکس لگانا پڑے بعد ازاں جنوبی بھارت میں علیحدگی پسند تحریک کے غیض ہو غضب کا نشانہ بن کر مارا گیا۔ 1965ء کی جنگ ہو یا 1971 کی سازش‘ بھارت کو لیاقت علی خان کا مکا اور ضیاءالحق کی کرکٹ ڈپلومیسی نہیں بھولتی۔ بھارت بہت اچھی طرح جانتا ہے کہ پاکستان کی دشمنی بہت ہی زیادہ بُری ہے۔
بھارت کے مائی باپ روس نے پاکستان دشمنی کا مزہ چکھا اور افغان مزاحمتی جہاد کے ہاتھوں شکست و ریخت کا شکار ہو گیا۔ بھارتی دفاعی حلیف امریکہ نے پاکستان سے دوستی اور دھمکی سے افغانستان میں مجاہد طالبان حکومت ختم کی مگر آج شکست تسلیم کر رہا ہے کہ افغان مجاہد طالبان سے جیتنا ناممکن ہے ۔۔ لہٰذا گھر کے بدھو لوٹ کے آئے یعنی اتحادی افواج کو واپس بلانے میں ہی عافیت ہے۔ نیٹو کمانڈر کا بیان ہے کہ افغانستان کے 34 صوبوں میں سے 33 پر تاحال مجاہد طالبان کا قبضہ ہے۔ بھارت جنگ کی دھمکی دینے سے پہلے امریکہ اور روس سے مشورہ کر لے تو بہتر ہے یا ماضی کی دونوں عالمی طاقتوں کا م¶قف ہے کہ خود تو ڈوبے ہیں صنم تم کو بھی لے ڈوبیں گے۔ پاکستان اتنا کمزور نہیں کہ جو چاہے ہڑپ کرتا رہے۔ امریکہ ڈرون حملے پاکستانی حکومت کی اجازت سے کرتا ہے اجازت اس سے لی جاتی ہے جس سے جوابی حملے کا خوف ہو۔ پاکستانی فضائیہ کے کمانڈر اعلیٰ پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ ڈرون جہاز گرانا پاکستان کے لئے معمولی بات ہے ۔ گرانے کے لئے فقط حکم درکار ہے۔ افغان جہاد کے دوران روسی جنگی جہاز پاکستانی حدود میں بغیر اجازت داخل ہونے کی غلطی کر بیٹھے تھے اور ضیاالحق کی شہادت تک یہ جہاز اور عملے سمیت تمام افراد پاکستانی جیلوں میں تھے اور روس نے اپنے جہاز گرانے اور عملے کے قیدی بننے کی خبر تک چھپائی تاوقتیکہ دسمبر 1988ء میں امریکہ‘ انڈیا‘ اسرائیل اور روس کی حلیف بینظیر نے پہلا سرکاری حکم مذکورہ روسی عملے کی رہائی اور جنگی جہازوں کی واپسی کا جاری کیا تو قوم کو پتہ چلا کہ پاکستان کتنا طاقتور ملک ہے۔ جنگ جیتنے کے لئے ہمت‘ نیت اور حوصلہ چاہیے جو بھارتی سازشی سرکار اور افواج کے پاس نہیں ہے۔ پاکستان خطے کی آزمودہ سپر پاور ہے لہٰذا بھارت جنگ کی دھمکی دے گا جنگ نہیں کرے گا۔ بھارت سازش‘ تخریب کاری اور دہشت گردی کے لئے پاکستانی سرکار‘ فوجی‘ افسر اور سماجی اکابرین خرید سکتا ہے۔ لڑ نہیں سکتا۔ غدار قیادت اور سازشی ایجنٹوں کو مارنے کےلئے نیت درکار ہے اور جس میں دیر نہیں لگے گی۔ بھارت کو معلوم ہے کہ پاک بھارت جنگ پاکستانی قوم اور افواج کو متحد اور مضبوط کر دے گی۔ مفکر پاکستان علامہ اقبالؒ نے کابل کو ایشیائی سیادت کی کلید کہا ہے اور کابل کی عالمی سیادت کا مرکز متحدہ شمال مغربی ہندوستان یعنی پاکستان ہے۔ حضرت علامہؒ نے نظریاتی پاکستان کے قیام‘ استحکام اور غیر مسلم ہندو ریاست کے انہدام میں اللہ اور رسول کے خصوصی تصرف کا ذکر درج ذیل شعر میں کیا ہے ....
یہ مشتاقانِ حریت خواجہ بدر و حنین آور
تصرف ہائے پنہانش‘ بچشم آشکار آمد
مفکر پاکستان علامہ اقبالؒ نے پاک افغان خطے کو احیائے اسلام کا مرکز و محور قرار دیا ہے اور پاک افغان جہادی مزاحمت موجودہ دور کی تینوں عالمی طاقتوں برطانیہ‘ روس اور امریکہ کی شکست و ریخت کا بنیادی کردار ہے رہا معاملہ چین کا ۔۔ بھارت کو 1962 کی چین بھارت جنگ اور شکست نہیں بھولنا چاہیے۔ بھارتی علاقوں میں چینی جارحیت یا مداخلت اس حد تک کامیاب ہے کہ چینی افواج لداخ میں داخل ہو کر بھارت کو سڑک کی تعمیر سے روک دیتی ہے اور بھارت تماشائی اور تماشا بننے کے سوا کچھ نہ کر سکا۔ بھارت کو جنگی بڑھکیں مارنے اور پاکستان کے اندر سازشی جال بُننے سے پہلے سوچنا چاہیے کہ پاکستان تنگ آمد بجنگ آمد کی پالیسی اپنانے پر مجبور ہو گیا تو کیا بھارت پاکستانی جارحیت کا مقابلہ کر سکے گا؟ جبکہ پاکستان بھارتی سازشی جارحیت کا مسلسل شکار ہے۔
بھارتی فوجی سربراہ جنرل دیپک کپور نے بند کمرے میں ہونے والے سیمنار منعقدہ نئی دہلی 31 دسمبر 2009ء میں اعلان کیا کہ اب بھارتی فوج فوری جارحانہ جنگ کے لئے تیار ہے۔ بھارت بیک وقت پاکستان اور چین سے لڑنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس ضمن میں بھارتی افواج کو شملہ میں جنرل اے ایس لامبا کی سربراہی میں تربیت دی جا چکی ہے۔ بھارت کے نزدیک پاکستان اور چین دفاعی اتحادی ہیں جن کے خلاف بھارت کو بیک وقت جنگ لڑنا پڑے گی جبکہ اس جنگ میں امریکہ اور روس بھارت کے معاون اور مددگار ہوں گے اور بھارت 96 گھنٹوں یعنی چار دنوں میں دشمن کی سرزمین پر قبضہ کر سکتا ہے۔
بھارت عرصے سے رام راج کے استعماری مرض میں مبتلا ہے اسے نظریاتی پاکستان اور مسلمانوں کے وجود سے چِڑ ہے اور اپنے اسی ہندو استعماری خواب و خیال کے باعث ہمسایہ ریاستوں کے لئے عذاب بنا ہوا ہے اور اسی استعماری ہذیان میں کبھی پاکستان اور کبھی چین کو للکارتا اور پھنکارتا رہتا ہے۔ بقول بھارتی ICS دانشور ایس کے بسواس ”ہندو امن کا دشمن اور دنیا کا بدترین دہشت گرد ہے“ بحوالہ ڈاکٹر امبیدکر ۔ فادر آف دی کانسٹی ٹیوشن آف انڈیا صفحہ 114 ۔
بھارت کو پاکستان کے ساتھ جنگی الٹی میٹم دینے کی عادت پڑ گئی ہے۔ پاکستانی جواب کے بعد الٹی میٹم واپس لے لیا جاتا ہے۔ ممبئی حملوں اکتوبر 2008ءکے بعد بھارت نے 48 گھنٹے میں جنگ کرنے کا الٹی میٹم دیا۔ امریکی صدر بش نے بھارتی دفاعی حلیف ہونے کے باعث پاک بھارت جنگ میں بھارت کی مدد کا اعلان کیا۔ پاکستان نے جنگ کا چیلنج قبول کیا اور افواج پاک بھارت سرحد پر لگا دیں نیز پاک افغانستان سرحد پر متعین پاک فوج کو بھی بھارتی سرحد پر متعین کرنے کا عندیہ دیا۔ قبائلی اور افغان مجاہدین نے پاک بھارت جنگ میں پاکستانی فوج کے شانہ بشانہ لڑنے کا اعلان کیا اور کہا کہ ہم پاک افغان سرحد پر پاکستانی فوج کا حصہ بن کر امریکہ بھارتی اتحادی افواج کو اکیلے سنبھال لیں گے۔ نیز کئی مجاہد جتھے پاک بھارت جنگ میں پاکستانی فوج کی مدد کے لئے روانہ کرنے کا بھی اعلان کر دیا۔ امریکہ کو اپنی پڑ گئی کیونکہ پاکستان کے تعاون کے بغیر ایک بھی امریکی خطے سے صحیح سلامت واپس نہیں جا سکتا۔ بھارتی بنیا کی دھوتی ڈھیلی پڑ گئی اور دونوں نے امن اور مذاکرات کا راگ الاپنا شروع کر دیا۔ ماضی میں بھی بھارت پاکستان کو کئی بار جنگ کی دھمکی دے کر بھاگ گیا ہے۔ افغان جہاد کے دوران اندرا گاندھی نے روسی ایما پر پاکستان پر حملہ کی تیاری کی اور پاک سرحد پر بھارتی فوجی لائن محفوظ کرنے کے لئے سکھوں کے گولڈن ٹیمپل پر بلو سٹار آپریشن اکتوبر 1984ءمیں الجھ کر ماری گئی۔ راجیو گاندھی نے پاکستان کو کئی بار ختم کرنے اور چَھٹی کا دودھ اور نانی یاد کرانے جیسے غیر پارلیمانی الفاظ استعمال کئے۔ پاکستان پر حملے کے لئے براس ٹیک مشقیں بھی شروع کر دیں مگر ضیاالحق کی کرکٹ ڈپلومیسی سے مات کھا کر بغیر لڑے سرحدوں سے افواج واپس بلا لی اور جنگی دھمکی اور تیاری میں ہونے والے نقصان کی تلافی کے لئے بھارتی عوام پر اربوں کے نئے ٹیکس لگانا پڑے بعد ازاں جنوبی بھارت میں علیحدگی پسند تحریک کے غیض ہو غضب کا نشانہ بن کر مارا گیا۔ 1965ء کی جنگ ہو یا 1971 کی سازش‘ بھارت کو لیاقت علی خان کا مکا اور ضیاءالحق کی کرکٹ ڈپلومیسی نہیں بھولتی۔ بھارت بہت اچھی طرح جانتا ہے کہ پاکستان کی دشمنی بہت ہی زیادہ بُری ہے۔
بھارت کے مائی باپ روس نے پاکستان دشمنی کا مزہ چکھا اور افغان مزاحمتی جہاد کے ہاتھوں شکست و ریخت کا شکار ہو گیا۔ بھارتی دفاعی حلیف امریکہ نے پاکستان سے دوستی اور دھمکی سے افغانستان میں مجاہد طالبان حکومت ختم کی مگر آج شکست تسلیم کر رہا ہے کہ افغان مجاہد طالبان سے جیتنا ناممکن ہے ۔۔ لہٰذا گھر کے بدھو لوٹ کے آئے یعنی اتحادی افواج کو واپس بلانے میں ہی عافیت ہے۔ نیٹو کمانڈر کا بیان ہے کہ افغانستان کے 34 صوبوں میں سے 33 پر تاحال مجاہد طالبان کا قبضہ ہے۔ بھارت جنگ کی دھمکی دینے سے پہلے امریکہ اور روس سے مشورہ کر لے تو بہتر ہے یا ماضی کی دونوں عالمی طاقتوں کا م¶قف ہے کہ خود تو ڈوبے ہیں صنم تم کو بھی لے ڈوبیں گے۔ پاکستان اتنا کمزور نہیں کہ جو چاہے ہڑپ کرتا رہے۔ امریکہ ڈرون حملے پاکستانی حکومت کی اجازت سے کرتا ہے اجازت اس سے لی جاتی ہے جس سے جوابی حملے کا خوف ہو۔ پاکستانی فضائیہ کے کمانڈر اعلیٰ پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ ڈرون جہاز گرانا پاکستان کے لئے معمولی بات ہے ۔ گرانے کے لئے فقط حکم درکار ہے۔ افغان جہاد کے دوران روسی جنگی جہاز پاکستانی حدود میں بغیر اجازت داخل ہونے کی غلطی کر بیٹھے تھے اور ضیاالحق کی شہادت تک یہ جہاز اور عملے سمیت تمام افراد پاکستانی جیلوں میں تھے اور روس نے اپنے جہاز گرانے اور عملے کے قیدی بننے کی خبر تک چھپائی تاوقتیکہ دسمبر 1988ء میں امریکہ‘ انڈیا‘ اسرائیل اور روس کی حلیف بینظیر نے پہلا سرکاری حکم مذکورہ روسی عملے کی رہائی اور جنگی جہازوں کی واپسی کا جاری کیا تو قوم کو پتہ چلا کہ پاکستان کتنا طاقتور ملک ہے۔ جنگ جیتنے کے لئے ہمت‘ نیت اور حوصلہ چاہیے جو بھارتی سازشی سرکار اور افواج کے پاس نہیں ہے۔ پاکستان خطے کی آزمودہ سپر پاور ہے لہٰذا بھارت جنگ کی دھمکی دے گا جنگ نہیں کرے گا۔ بھارت سازش‘ تخریب کاری اور دہشت گردی کے لئے پاکستانی سرکار‘ فوجی‘ افسر اور سماجی اکابرین خرید سکتا ہے۔ لڑ نہیں سکتا۔ غدار قیادت اور سازشی ایجنٹوں کو مارنے کےلئے نیت درکار ہے اور جس میں دیر نہیں لگے گی۔ بھارت کو معلوم ہے کہ پاک بھارت جنگ پاکستانی قوم اور افواج کو متحد اور مضبوط کر دے گی۔ مفکر پاکستان علامہ اقبالؒ نے کابل کو ایشیائی سیادت کی کلید کہا ہے اور کابل کی عالمی سیادت کا مرکز متحدہ شمال مغربی ہندوستان یعنی پاکستان ہے۔ حضرت علامہؒ نے نظریاتی پاکستان کے قیام‘ استحکام اور غیر مسلم ہندو ریاست کے انہدام میں اللہ اور رسول کے خصوصی تصرف کا ذکر درج ذیل شعر میں کیا ہے ....
یہ مشتاقانِ حریت خواجہ بدر و حنین آور
تصرف ہائے پنہانش‘ بچشم آشکار آمد
مفکر پاکستان علامہ اقبالؒ نے پاک افغان خطے کو احیائے اسلام کا مرکز و محور قرار دیا ہے اور پاک افغان جہادی مزاحمت موجودہ دور کی تینوں عالمی طاقتوں برطانیہ‘ روس اور امریکہ کی شکست و ریخت کا بنیادی کردار ہے رہا معاملہ چین کا ۔۔ بھارت کو 1962 کی چین بھارت جنگ اور شکست نہیں بھولنا چاہیے۔ بھارتی علاقوں میں چینی جارحیت یا مداخلت اس حد تک کامیاب ہے کہ چینی افواج لداخ میں داخل ہو کر بھارت کو سڑک کی تعمیر سے روک دیتی ہے اور بھارت تماشائی اور تماشا بننے کے سوا کچھ نہ کر سکا۔ بھارت کو جنگی بڑھکیں مارنے اور پاکستان کے اندر سازشی جال بُننے سے پہلے سوچنا چاہیے کہ پاکستان تنگ آمد بجنگ آمد کی پالیسی اپنانے پر مجبور ہو گیا تو کیا بھارت پاکستانی جارحیت کا مقابلہ کر سکے گا؟ جبکہ پاکستان بھارتی سازشی جارحیت کا مسلسل شکار ہے۔